ایک بار پھر ہیلری کلنٹن پاکستان
کے دورے پر آئی اور الزامات اور مطالبات کی پھر ایک طویل فہرست ہے جو آکر
سنا گئی۔ یہ سب کچھ اب ایک معمول بن گیا ہے۔ ایک انوکھی بات جس کا ہیلری نے
اس بار اضافہ کیا یا یوں کہیے ایک پینترا بدلا وہ یہ تھی کہ پاکستان اپنی
جنگ لڑ رہا ہے اور امریکہ اس کی مدد کر رہا ہے۔ اس سے پہلے امریکہ پاکستان
کو اپنا فرنٹ لائن اتحادی کہتا تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم ہیلری سے
کہتے کہ آپ افغانستان سے اپنی افواج نکال لیجیئے علاقہ خالی کر دیجیئے اپنے
آپ کو سنبھال لیجیئے ہم خود کو دیکھ لیں گے کیونکہ جب آپ چلے جائیں گے تو
ہمارا امن خود بخودبحال ہو جائے گا۔ پھر ہمیں کسی جنگ کی ضرورت نہیں رہے گی
لیکن افسوس کہ حکومتی سطح پر ہم اس کی جرات نہیں کر پاتے۔ اس میں امریکہ کا
قصور نہیں ہے بلکہ قصور ہماری کمزوریوں کا ہے اگر آج بھی ہم یہ یقین پیدا
کر لیں کہ ہم اپنے بَل بوتے پر زندہ رہ سکتے ہیں کیونکہ قومیں دوسروں کی
امداد پر ترقی نہیں کر سکتیں تو خودبخود ہمارے بہت سارے مسائل حل ہو جائیں
گے۔
امریکہ بڑے دھڑلے سے اپنی الزام تراشی اور مطالبات میں مصروف ہے مطالبہ یہی
کہ پاکستان مزید اقدامات کرے اور ضد یہ کہ امریکہ کو پاکستان سے شدید خطرہ
ہے۔ اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی ثابت کرنے پر ہی امریکہ کا سارا
زور ہے یہ لایعنی خوف بھی امریکہ کو دامن گیر ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے
دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں یہ مفروضہ کہ اگر امریکہ پر حملہ ہوا تو
پاکستان ہی کی طرف سے ہوگا یعنی چاہے وہ اصل میں امریکہ کی کسی ریاست سے ہی
ہوا ہو ذمہ داری پہلے سے ہی پاکستان کے سر تھوپ دی گئی ہے اور ساتھ ہی
سنگین نتائج کی دھمکی بھی دے دی گئی ہے۔
امریکہ پاکستان کی اہمیت سے واقف ہے اور جانتا ہے کہ افغان جنگ وہ پاکستان
کی مدد بغیر نہیں جیت سکتا لیکن اس کے باوجود وہ اپنی شرائط اور مطالبات
منوانے پر ْمصر ہے جبکہ پاکستان کے مسائل سے مسلسل نہ صرف چشم پوشی کرتا ہے
بلکہ ان کے حل سے انکاری رہتا ہے۔ امریکہ نے بذریعہ ہیلری واضح طور پر پانی
اور کشمیر کے مسائل پر بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی کسی قسم کی مدد کرنے
سے انکار کر دیا ہے بھارت اس کے لیے ہمیشہ پاکستان سے زیادہ اہم رہا ہے وہ
بھارت کو سول نیو کلئیر ٹیکنالوجی دینے پر راضی ہے لیکن پاکستان کے ساتھ نہ
صرف خود کسی بھی ایسے معاہدے سے انکاری ہے بلکہ دوسروں پر بھی تنقید کر رہا
ہے اور پاک چین معاہدے پر کھل کر اعتراض کر رہا ہے۔ پھر امریکہ کہتا ہے کہ
پاکستان پر اعتماد کا فقدان ہے اگر ایسا ہے تو امریکہ کو پاکستان سے لاتعلق
ہو جانا چاہیے، اسے پاک فوج، آئی ایس آئی اور پاکستانی عوام کسی پر بھی
اعتماد نہیں ہے تو پاکستان کے اتنے دورے کیا معنی رکھتے ہیں۔ پاکستانی عوام
بھی امریکہ سے تعلقات پر کسی قسم کی خوشی محسوس نہیں کرتے بلکہ وہ اسے اپنے
بہت سارے مسائل خاص کر امن امان کی خرابی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ امریکی دو
رخی کے بہت سارے دور اس ملک کے عوام نے دیکھے ہیں۔ خود امریکہ طالبان سے
بات چیت کر رہا ہے جبکہ ہم سے مطالبہ ہے کہ ان کے خلاف مسلسل لڑتے رہو۔
جنوبی وزیرستان کے بعد شمالی وزیرستان میں آپریشن پر اسکا اسرار ہے بات
دراصل یہ ہے کہ اس کے لیے ہمارے عوام کی جانیں اور نہ ہماری افواج کی زندگی
اہم ہے۔ اس کا طویل المیعاد منصوبہ یہ ہے کہ اس مسلمان ایٹمی ملک کی قوت کو
آپس میں لڑا کر ختم کر دیا جائے اور جنوبی ایشیا میں امریکہ اور اس کے مسلم
دشمن دوست بھارت اور اسرائیل کھل کھیلیں۔ افغانستان میں امریکی دلچسپی کا
راز اب راز نہیں رہا کہ وہ علاقے میں اپنی موجودگی قائم رکھنے کے لیے اسامہ
کے بہانے گھس آیا تاکہ چین کے نزدیک ترین رہے اور اپنی ترقی قائم رکھنے کے
لیے وسطی ایشیا سے معدنی تیل کی دولت پر ہاتھ ڈالنے کی آسانی ہو اور یوں
چین کو ْسپر پاور نہ بننے دے۔ اسرئیل کے ذریعے بھارت کی مضبوطی بھی امریکی
مقاصد میں شامل ہے۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ کوبھارت سے اس قدر ہمدردی کیوں ہے
صرف اور صرف اس لیے کہ بھارت پاکستان کا دشمن ہے اور پاکستان ایک اسلامی
ملک ہے بات دوسروں پر تنقید کرنے سے نہیں بنے گی ان حالات میں خود ہمارا
قصور اْن سے زیادہ ہے ملک ہمارا ہے حکومت ہماری ہے لوگ ہمارے اور قوم ہماری
ہے پھر ہم اْن کو اتنا اختیار کیسے اور کیونکر دے رہے ہیں کہ وہ ہمارے
فیصلے کریں۔ افغانستان کو تجارتی راہداری دینے کی تقریب میں ہیلری کی خوشی
دیدنی تھی جبکہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے چہرے کا تناؤ بھی صاف نظر
آرہا تھا۔ لیکن بات تو یہ ہے کہ پاکستانی مفادات کے خلاف یہ معاہدہ کیا صرف
ہیلری کی خوشی کے لیے کیا گیا اور کیوں۔ کیا اب ہم دو طرفہ فیصلے بھی
امریکہ کی مرضی سے کریں گے بغیر یہ دیکھے کہ اْس کے ہماری معیشت اور معاشرت
پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔ اب اسی معاہدے کو لیجیئے افغان ٹرک کیا لائینگے
اور کتنے ٹرک راستے میں سے غائب ہونگے یا اْس میں موجود مال، اسلحہ اور
ہیروئن پاکستان میں اتار کر تبدیل کر لیا جایا کرے گا اور پھر اس کے ہمارے
معاشرے پر جو اثرات مرتب ہونگے وہ سبھی جانتے ہیں بقول حکومت کے پاک فوج
اور آئی ایس آئی سے بھی اس معاہدے کے بارے میں مشورہ لیا گیا حیرت ہے اگر
ان دونوں اداروں نے بھی اس نا معقول معاہدے کی حمایت کی ہو۔
امریکہ تو وہ بدنام طاقت ہے جسے نہ دوستی وقار کے ساتھ کرنی آتی ہے نہ
دشمنی۔ وہ دوستی میں بھی ہمیشہ دشمنی ہی کرتا ہے۔ پاکستان کے معاملے میں
اْس کا کم از کم یہی ریکاڈ ہے اس لیے ہمارے لیے اب بہتر یہی ہے کہ امریکہ
کی دوستی کا نعرہ لگانا چھوڑ دیں اور خود اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش
شروع کر دیں۔ چند کروڑ دالر کی امداد نہ تو پاکستانی معیشت کو سہارا دے
سکتی ہے اور نہ اٹھا سکتی ہے اور نہ ہمیں اس پر انحصار کرنا چاہئیے۔ قومیں
اپنے زور بازو پر ہی ترقی کر سکتیں ہیں۔ آج بھی اگر دہشت گردی کے خلاف جنگ
روک دی جائے اور جو کچھ اس پر خرچ ہو رہا ہے وہ ملکی ترقی پر خرچ ہو تو کیا
ہمارے بہت سارے مسائل حل نہ ہو جائیں۔ حکومت پاکستان کو اپنے فیصلے خود
کرنے کی عادت ہو جانی چاہیئے اور امریکہ کے دبائو سے باہر آجانا چاہیے۔
جہاں تک ہیلری کا یہ کہنا کہ امریکہ اور پاکستان میں اعتماد کا فقدان ہے تو
مجھے اس سے اتفاق ہے اور ایسا اس لیے ہے کہ امریکہ کبھی بھی ضرورت کے وقت
پاکستان کے کام نہیں آیا۔ اعتماد سازی کے لیے پاکستان سے مطالبات کرنے کی
بجائے اب اسے خود بہت کچھ کرنا ہوگا۔ اب صرف چند کروڑ ڈالر اور بھاری بھر
کم اصطلاحات مثلاًNon NATO Allie, Front Line State Strategic Dialogue
وغیرہ سے بات نہیں بنے گی۔ باہمی گفت و شنید کو اگرStrategic Dialogue کہہ
کر اس کی اہمیت بڑھانے کی کوشش کی جائے تو اس کا حاصل کچھ نہیں کیونکہ موقع
پر ملنے والی امداد اگر Level Tactical سے بھی کم ہو تو امریکہ اپنی برپا
کردہ جنگ میں فتح کی امید کیسے رکھتا ہے ہاں اس سے پاکستان کی معیشت تباہ
کرنے اور پاکستان کا مستقبل تاریک کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لہٰذا اعتماد
سازی کے لیے امریکہ کو خودکچھ اقدامات کرنا ہونگے سب سے پہلے تو اْسے
پاکستان اور بھارت کے لیے الگ الگ نکتہ نظر نہیں رکھنا ہوگا اور پاکستان
اور بھارت کے درمیان بڑے مسائل یعنی پانی اور کشمیر کے تنازعے میں بھارت پر
دباؤ ڈالنا ہوگا۔ اور مزید اْسے افغانستان کے راستے پاکستان کا امن وامان
خراب کرنے سے گریز کرنا ہوگا اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اسے ہوسِ ملک گیری
ختم کر کے یہ علاقہ خالی کرنا ہوگا یوں نہ امریکہ رہے گا اور نہ دہشت گردی۔ |