میٹ…………رو

(محمد قاسم حمدان)
میٹرو بس ترکوں کی محبت کا پیار بھرا تحفہ ہے۔ دنیا میں ترک واحد قوم ہے جس کی پاکستان سے دوستی مفادات سے بالا خلوص میں گوندھی ہوئی ہے۔ ترک پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔ اس لئے انہوں نے پاکستان میں میٹرو بس کا جال بچھانا شروع کر رکھا ہے۔ ترک اسے میٹرو بس بے کہتے ہیں ہمارے ہاں گھر کی عمر رسیدہ خاتون کو بے جی کہتے ہیں۔ مگر ترک بس کو بھی احترام سے بے جی کہتے ہیں۔ ترکوں نے اپنے ملک کی زمام کار طیب اردوان کو سونپی ہے تو ملک میں ترقی کا ایک نیا دور شروع ہوا ہے ۔مرد ٓاہن نے مرد بیمار کی معیشت کو عروج تک پہنچا دیا ہے۔ وہی ترکی جہاں ایک ڈالر 222 لیرا میں بکتا تھا ۔آج پونے تین لیرا میں رلتا ہے ۔

ہمارے محترم میاں محمد شہباز شریف بھی پنجاب کے طیب اردوان ہیں۔ جن پر ہر وقت کام کی دھن سوار رہتی ہے ۔ملک کو بحرانوں سے نکالنے کی بھی وہ خوب استعداد رکھتے ہیں۔ اگر درمیان میں بڑے بھائی صاحب نہ ہوتے تو وہ پورے ملک کے طیب اردوان ہوتے لیکن برادر اکبر کی تعظیم بھی لازم ہے۔ غالباً لینن جب کمیونسٹ چیکو سلواکیہ کے دورے پر گیا تو وہاں کے لوگوں سے پوچھا …… آپ نے ہمیں کیسا پایا تو سب نے یک زبان کہا ہم نے آپ کو بڑے بھائی کی طرح پایا ہے ۔انسان دوست اور ہمسایہ تو اپنی مرضی سے بنا سکتا ہے ۔اس میں مزاج کے مطابق تبدیلی بھی ہو سکتی ہے لیکن بڑا بھائی قدرت کی طرف سے نتھی کر دیا جا تا ہے ۔بات میٹرو بے بس کی ہو رہی تھی جس پر ہر روز ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ سفر کرتے ہیں ۔جب میٹرو بس تعمیر کے عمل میں تھی تو لوگ میاں صاحب کے بارے میں نہ جانے کیا کیا نازیبا کہہ دیتے تھے لیکن آج وہی میٹرو کے ڈاوو (Dawoo)بس سے بھی اچھے اے سی کی ٹھنڈی ہوا میں ان کو دل کی گہرائیوں سے دعا دیتے ہیں ۔میٹرو بس نے گھنٹوں کے فاصلوں کو منٹوں میں اور سیکڑوں کو بیس روپے کے ٹوکن میں سمیٹ دیا ہے ۔میٹرو بس ہی نہیں ٹیوٹر کا کام بھی کرتی ہے۔ عوامی بسوں میں اکثر لوگ آسان انگلش سیکھیے کے کتابچے بیچتے تھے ۔مگر اب میٹرو بس میاں صاحب کے توسط سے یہ خدمت پیش کرتی ہے ۔اچھے اچھے پڑھے لکھے بھی سکریٹریٹ کا لفظ درست تلفظ سے ادا نہیں کر سکتے تھے۔ میٹرو نے انہیں اس کا صحیح تلفظ ازبر کرا دیا ہے۔ وہ آج تک گجو متہ کہتے رہے مگر اب پتہ چلا کہ اصل تو گاجو ماتا ہے ۔

میٹرو بس ایک نعمت سے کم نہیں مسافروں بالخصوص بزرگوں کو راحت پہنچانے کے لئے میاں صاحب نے الیکڑک (ایسکیلیٹر)سیڑھیاں لگوا دی ہیں۔ شروع میں تو یہ ایک تماشا اور تفریح کا سامان بنی رہی ۔خواتین والہانہ ان سیڑھیوں کے ذریعے پلیٹ فارم تک جانے میں بڑی بے تاب ہوتی ۔سیڑھی کے سامنے اتنے زور کی بریکیں ایسے لگتی ہیں جیسے کسی نئی گاڑی کواچانک فل سپیڈبریک لگانی پڑے لیکن جیسے کوئی تیراکی سے نا واقف دریا کنارے کھڑا ہو کر ایک پاوں پانی میں رکھنے کے لئے اٹھاتا ہے پھر کتنی دیر تک ایک ٹانگ پر کھڑے سوچتا رہتا ہے اور پھر انجام سے بے خبر ادھر ادھر دیکھ کر پاوں پیچھے کر لیتا ہے یہاں بھی ایسی ہی صورت حال ہوتی ہے اور پھر دور تک ایک لمبی لائن لگ جاتی ہے ‘جلدی جانے والوں کو راستہ بنانا مشکل ہو جاتا ہے ۔جب کوئی خاتون ایڑی والی جوتی پہنے ہروقت سیڑھی سے قدم نہیں اٹھاتی تو اس کی جوتی سیڑھی میں پھنس جاتی ہے۔اکثربیچاری منہ کے بل گرتی ہیں اور باقی سفر ایک جوتے سے ہی ہوتاہے۔یہاں شگوفے تو روز ہی پھوٹتے ہیں لیکن کبھی کبھی رنجیدہ معاملات بھی پیش آ جاتے ہیں۔ ایک دفعہ ایک بزرگ خاتون شاہدرہ سٹاپ سے باہر جانے لگی تو جیسے ہی اس نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو خوف کی وجہ سے اس کا توازن بگڑ گیا اور وہ بیچاری سر کے بل سیڑھی پر اتنے زور سے گری……بس الاماں ……پلیٹ فارم پر لائن بنانا ہماری عوام کالانعام کی عادت ہی نہیں ہے۔ عملے کے لوگ بھی اس پر توجہ نہیں دیتے ۔ اگر کبھی چیکنگ ہو تو لائن بن جاتی ہے مگر اسے توڑنا اور دھکم پیل کرنا ہمارا پسندیدہ شغل بن جاتا ہے ۔

ایک دفعہ ایک ادھیڑ عمر دیہاتی شخص جسے کچھ زیادہ ہی جلدی تھی اس نے ایک ہاتھ میں گٹھڑی پکڑی ہوئی تھی ‘سب کو پیچھے روندتے ہوئے بس میں داخل ہونے لگا، ابھی اس کا گٹھڑی والا ہاتھ اندرگیا تھا تو دروازہ بند ہو گیا بس چل پڑی اب اس کا ہاتھ دروازے میں پھنسا تھا اور وہ باہر لٹکا ہوا درد سے کراہ رہاتھا ۔بس رکوا کر جب اس کو اس بپتا سے نجات مل تو اس کے چہرے کے اتار چڑھاو سے لگ رہا تھا کہ معاملہ سیریس ہے۔ ایک جوڑا جس کے ہمراہ بچے بھی تھے آیا‘ میاں تو بھاگ کر بس میں سوار ہو گیا کہ میں چیچوں کی ملیاں جانے والی اس بس کو پہلے جا کر رکواتا ہوں ۔وہ دروازے میں کھڑا اپنے بیوی بچوں کو بلا رہا تھا کہ ایک دم زور سے دروازہ اس کے منہ پر لگا وہ پیچھے جا گرا جب اٹھ کر سنبھلا تو بس دریا کے قریب اور بیوی بچے سٹاپ پر چیخ چلا رہے تھے ۔ایک دفعہ ایک مختصر فیملی آئی میاں اور بیوی تو جلدی سے بس میں سوار ہو گئے مگر ان کا تین سال کا بچہ ارد گرد سے لاپروا پلیٹ فارم پر ٹہلنے لگ گیا ،اتنی دیر میں بس روانہ ہونے لگی تو پھر ماں کو خیا ل آیا کہ اس کا بچہ تو باہرپھر رہا ہے ، شکر ہے بس ابھی دوچار قدم ہی چلی تھی۔ بس واپس الیکڑک گیٹ کے سامنے لائی گئی اور بچے کو اس میں سوار کرایا گیا ۔ بہت سے نوجوان جو دوسرے شہروں سے آتے ہیں وہ میٹرو میں سفر اور سیلفیاں بنانے کا شوق پورا کرتے ہیں توان کے ساتھ بھی واردات ہو جاتی ہے۔

ایک دفعہ مردوں والے پورشن میں ایک نازک اندام ماڈرن دوشیزہ زلفیں بکھیرے فون کان سے لگائے آکر کھڑکی کے ساتھ ماحول سے بے خبر کھڑی باہر کے نظاروں میں گم ہو گئی۔ پاس کھڑے کسی دیہات سے آئے بابا جی نے سو دفعہ لاحول ولا قوہ پڑھا اور پھر اس سیمیں بدن سے کہا دھی رانی ایہہ مرداں دا خانہ اے زنانہ خانہ اگے اے…… یہ سن کر اس نے جب مکھ پھیرا تو وہ پری نہیں کوئی بھوت تھا اسے دیکھ کر سب کی پہلے توچیخ پھر ہنسی نکل گئی ۔

جب بھی بھارت سے سکھ یاتری آتے ہیں تو وہ میٹرو کے ذریعے لاہور کی سیر کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے ۔کہتے ہیں ایک دفعہ ایک گدھا کسی مولوی کے حجرے میں گھس گیا اور اس کے بول وبراز سے حجرہ میں بدبو بھر گئی۔ گدھے کو نکالنے کے لئے جو بھی اندر جاتا منہ پر ہاتھ رکھے فوراً باہر کو دوڑتا ۔اسی اثنا میں ایک سکھ وہاں آگیا لوگوں کو دیکھ کر پوچھا ایتھے کی ہویا اے۔ لوگوں نے اصل معاملہ بتایا تو سکھ نے کہا چلو پھیر میں وی اک ٹرائی مار لینداں واں۔ سکھ جیسے ہی اندر داخل ہوا تو گدھا دوڑ کر فوراً احتجاج کرتا ہوا باہر آگیا۔ یہ پہلے دور کی بات ہے ۔جب سردار چار دن کی باسی لسی کو سولر انرجی پہ تپا کر نہاتے ۔اب تو وہ بڑے صاف ستھرے ،نہائے دھوئے ،بنے سنورے، اور سمارٹ نظرآتے ہیں۔ انہوں نے اپنی پگڑی کے اندر لوہے کی ایک سمارٹ سلاخ رکھی ہوتی ہے جس سے وہ اپنے پیک کئے ہوئے سر کو کھجانے کے علاوہ یہ یقین کرتے ہیں کہ ان کے سر میں بھی دماغ موجود ہے ۔

پنجاب کے علاقے میں پاک بھارت سرحد پر جھڑپیں جاری تھیں۔ بھارتی فوج سکھوں پر مشتمل تھی رات اتنی کالی تھی کہ ہاتھ کو ہاتھ سجائی نہیں دیتا تھا ۔ پاک فوج نے سوچا کہ خالی خولی فائرنگ کا کیا فائدہ ۔انہوں نے مشورہ کیا کہ ہم آواز لگائیں گے رام سنگھ ۔ادھر سے جواب آئے گا اور اس جواب پر فائر کر دیں گے۔فوجیوں نے پوزیشنیں سنبھالی اور ایک فوجی نے آواز لگائی رام سنگھ ۔ جواب آیا ہاں ۔ساتھ ہی ٹھاہ کی آواز بلند ہوئی اور رام سنگھ مارا گیا ۔ چند منٹ بعد پھر ایک فوجی نے آواز لگائی رام سنگھ جواب آیا۔ ہاں ساتھ ہی ٹھاہ ۔جب چار پانچ رام سنگھ یوں ڈھیر ہو گئے تو سکھوں نے بھی میٹنگ بلالی ۔ایک ذہین سکھ فوجی نے مشورہ دیا کہ ہم بھی ان کے ساتھ وہی کرتے ہیں۔ مسلمانوں میں اکثر نام اﷲ رکھا ہوتا ہے۔ وقفے وقفے سے آواز لگا کر ان کے سارے اﷲ رکھے مار دیتے ہیں اور اپنا بدلہ لے لیتے ہیں ۔ذہین سکھ کا مشورہ سب نے بہت پسند کیا اور اسے کندھوں پر اٹھا لیا۔ میٹنگ کے بعد سب نے اپنی پوزیشنیں سنبھالی۔ تھوڑی دیر کے بعد اس ذہین سکھ نے آواز لگائی اﷲ رکھا ……جواب آیا اﷲ رکھا چھٹی پر ہے تم کون ہو رام سنگھ۔ اس نے کہا ہاں۔ ساتھ ہی ٹھاہ ہوئی اور ذہین سکھ مارا گیا۔ یہ تو ذہین سکھوں کی بات تھی۔
بعض سکھوں میں ذہانت بھی اوور ہوتی ہے۔ ایک سردار جی ٹرین چلایا کرتے تھے۔ ایک دن انہوں نے ٹرین کھیتوں میں گھسا دی ۔بہت بڑا حادثہ ہو گیا۔ پورے ملک میں آگ کی طرح خبر پھیل گئی ۔ریلوے ہیڈ کوارٹر سے سردار کو انکوائری کے لئے طلب کرلیا گیا ۔جب واقعہ پوچھا گیا تو سردار نے کہا کیا کرتا آگے آدمی آگیا تھا۔ اس کو بچانا تھا۔ ایک افسر نے ڈانٹ کر کہا ایک آدمی کے بدلے پوری ٹرین تباہ کر دی۔ اس کو ٹرین کے نیچے کچل دیتے۔ سردار نے جواب دیا میں نے ایسا ہی کیا تھا جناب لیکن وہ کمبخت پٹٹری سے اتر کر کھیتوں میں چلا گیا۔

سکھوں کا ذکر بہت دور تک چلا گیا۔ ہم واپس میٹرو کی طرف آتے ہیں۔ ایسے کچھ لطیفے یہاں بھی ہوتے ہیں ۔ایک دفعہ دو مسافر قذافی سٹیڈیم سے میٹرو میں سوار ہوئے اور دونوں سیٹ پر بیٹھ گئے ۔دونوں ملتان سے آئے تھے۔ ان کے سامنے ایک اور مسافر کھڑا تھا اس کا تعلق بھی سرائیکی وسیب سے تھا۔ تینوں پہلی دفعہ لاہور آئے تھے ۔جب سائیں سائیں کی گردان شروع ہوئی تو ان میں بے تقلفی بڑھ گئی۔ ملتانیوں نے سمجھا کہ جس سے وہ دل کا دکھڑا کہہ رہے ہیں وہ لاہور کا پرانا شناساہو۔ انہوں نے کہا سائیں ہم نے دربار جانا ہے دربا کاسٹاپ جب آئے تو ہمیں بتا دینا ۔ میٹرو کی سٹاپس کی لسٹ میں دربار کوئی سٹاپ نہیں بلکہ اس کا نام بھاٹی ہے ۔بھاٹی آیا اور گذر گیا۔ جب بس راوی کے پل پر پہنچی تو دونوں نے ایک اورصاحب سے پوچھا ہم نے دربار اترنا ہے۔آپ ہمیں بتا دینا۔ انہوں نے کہا دربار تو کب کا گذر گیا ہے ۔کمپیوٹر نے آواز بھی دی تھی لوگ اترے اور سوار بھی ہوئے۔ انہوں نے دوسرے شخص کی طرف اشارہ کر کے کہا ہم نے اس سے کہا تھا دربارآئے تو ہمیں بتا دینا۔ اب جس سے انہوں نے راہنمائی چاہی تھی وہ کہنے لگا میں نے مزنگ جانا ہے۔کیا وہ بھی گزرگیا ۔اس پر ارد گرد سے ایک قہقہہ بلند ہوا۔

بہرحال یہ لطیفے روزانہ ہوتے رہتے ہیں ۔میٹرو انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ نئے ناموں کے ساتھ پرانے بھی بریکٹ میں لکھیں۔ تاکہ لوگوں کو مشکل نہ ہو ۔بتی چوک مشہور نام ہے۔ نیازی چوک کو کوئی نہیں جانتا ۔جوجنگ یا دھرنے سے بھاگے لغت میں اسے ہی نیازی کہا جاتا ہے ۔

خواجہ حسان صاحب کو چاہئے کہ وہ اپنے دفتر سے باہر نکل کر میٹرو میں سفر کر کے مہینے میں کم از کم ایک با رمیٹرو بسوں اور پلیٹ فارمز کی صورت حال کا جائزہ لیا کریں ۔اب بہت سی الیکڑک سیڑھیاں خراب بلکہ بند رہتی ہیں ۔بسوں کے کمپیوٹر بھی کام کرنا چھوڑ رہے ہیں۔ جس سے جیب کتروں کابزنس پھر زور پکڑ رہاہے۔خواجہ صاحب آپ میاں صاحب کے امیج کو دھندلا ہونے سے بچائیں۔
 

Munzir Habib
About the Author: Munzir Habib Read More Articles by Munzir Habib: 193 Articles with 134990 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.