اساتذۂ کرام معلم کائنات ﷺکی سیرت سے طریقۂ درس وتدریس حاصل کرتے ہوئے اپنے منصب سے انصاف کریں

معلم انسانیت ﷺنے دنیاکی سب سے پہلی یونیورسٹی’’صفہ‘‘قائم فرمائی تھی معلم انسانیت ﷺنے اپنی معلمانہ صلاحیتوں سے جہالت ، تعصب ، تفاخر اور ہوسِ اقتدار کی گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں غرق دنیا کو بقعۂ نور بنادیا
نبی اکرم ﷺکی حیات مبارکہ قیامت تک انسانیت کے لئے پیشوائی و رہنمائی کا نمونہ ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے۔ ترجمہ: ’’بے شک تمہیں رسول اﷲ کی پیروی بہتر ہے‘‘ ۔ (سورۂ احزاب) زندگی کے جملہ پہلوؤں کی طرح معلم کی حیثیت سے بھی نبی اکرمﷺ کی ذات اقدس ایک منفرد اور بے مثل مقام رکھتی ہے۔ نبوت اور تعلیم و تربیت آپس میں لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی لیے آپ نے اپنے منصب سے متعلق ارشاد فرمایا۔ ترجمہ:’’بے شک میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں‘‘ ۔آپﷺایسے معلم تھے جن کی تعلیم و تدریس نے صحرا کے بدوؤں کو پورے عالم کی قیادت کے لیے ایسے شاندار اوصاف اور اعلیٰ اخلاق سے مزین کیا جس کی مثال تاریخ انسانیت میں کہیں نہیں ملتی۔ آپﷺ کی تعلیم و تربیت، کردار،قول و فعل میں ہم آہنگی، راست بازی، تحمل و برداشت ،ایثار، عدل و استقامت اور ان جیسی بے شمار خوبیوں نے کفر و جہالت کی گھٹا ٹوپ اندھیروں میں اسلام کی شمع روشن کی۔

اس درخشاں حقیقت سے کون ذی علم و شعور انکار کرسکتاہے کہ حضور معلم کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت سے قبل انسانیت کے ساتھ جو کھیل کھیلا جارہا تھا وہ کتنا بہیمانہ و سفاکانہ تھا۔ آپ کی بعثت مبارکہ کا اولین مقصداخلاق اور اعمال حسنہ کی تعلیمات تھا۔ تمام اعلیٰ اخلاقی اقدارجن میں صداقت وعدالت،امانت ودیانت، صبرو تحمل،عفوو درگزر ، عد ل و احسان ، سخاوت و شجاعت ،صبرو استقلال،انسانی حقوق کی امور و اسرار کی تعلیم ،انسانوں کے ساتھ ہمدردی ،خیرخواہی، صلہ رحمی ،احسان و بھلائی اور رواداری جیسی درخشاں و جاوید تعلیم شامل ہیں۔یہ آپ کی معلمانہ صلاحیتوں کا ہی کرشمہ ہے کہ آپ نے جہالت ، تعصب ، تفاخر اور ہوسِ اقتدار کی گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں غرق دنیا کو بقعۂ نور بنادیا۔ دنیا کے ہر حصے میں طبقات کا فرق تھا لیکن آپ ہی وہ معلم مساوات تھے جنہوں نے درس مساوات کے ذریعے ببانگ دہل دنیا کو بتادیا کہ عربی و عجمی ، کالے و گورے اور آقا و غلام میں کوئی امتیاز نہیں ہے۔اگر کوئی تمیز ہے تو وہ تقویٰ و طہارت اور علم و حکمت کا ہے۔

معلم کائنات ﷺ نے انسانیت ،ہمدردی اور مساوات کا درس دیا۔دوسری طرف ہر اس سفلی اور رذیل عمل سے روکا جو انسان کو درندگی اورچنگیزیت کی راہ پر ڈالتاہے۔ آپ نے تبسم ریز اشاروں سے سسکتی انسانیت کو حیات بخشی۔اپنی جوامع الکلامی سے دنیا کے مظلوموں اور مجبوروں کو گویائی کی قوت عطا فرمائی ،آپ نے وحشیوں کو انسانوں کی طرح جینے کا طریقہ و سلیقہ سکھایا اور انسانوں کے اندر تزکیہ نفس کے ذریعہ ملکوتی صفات پیداکرکے رشک ملائک بنادیا ۔ہم معلم انسانیتﷺ کی ذات و صفات اور سیرت مطہرہ کا جس زاویے اور جس رْخ سے بھی مطالعہ کریں ، خواہ میدانِ جہاد ہو یا میدانِ تبلیغ و ارشاد، خواہ معاملات روزگار ہوں یا مسائل عبادات ،خواہ عائلی معاملات ہوں یا حکومت کاکاروبار ، خواہ دین کی بات ہو یادنیاوی معمولات ،ہرچھوٹے سے چھوٹے قضیے اور بڑے سے بڑے معاملے میں کامل رہنمائی پائیں گے۔شرط یہ ہے کہ ہم سید عالمﷺ کو صمیم قلب سے اپناآقا و مولیٰ تسلیم کرلیں۔ پھر اس کے بعد کسی نظام یا ’’ازم‘‘ کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ انسانیت کے ہر دکھ کا علاج اور ہردرد کا درماں معلم انسانیت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ’’نسخۂ کیمیا‘‘ اور ان کے ’’اسوۂ حسنہ‘‘ کی پیروی میں ہے۔

حضورﷺنے مکہ سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین کو مدینہ میں رہنے والے انصار کا بھائی بنا دیااور یہ بھائی چارہ قائم کرکے اسلامی مواخات کی وہ مثال قائم کی جو آج تک دنیا نہ پیش کرسکی۔ اس کے ساتھ ہی آپ نے مسجد کے ساتھ بنے ایک بڑے سے چبوترے پر درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا جس میں وہ اصحاب جو مجرد تھے، شامل تھے، وہ اسی چبوترے پر رہا کرتے تھے اور تعلیم حاصل کیا کرتے تھے۔ چبوترے کو عربی میں ’’صفہ‘‘ کہتے ہیں چنانچہ یہ ’’اصحاب صفہ‘‘ کہلائے اور اس طرح اسلامی تاریخ کا پہلا اسکول’’ دارِ ارقم‘‘ کے نام سے اصحاب صفہ کا قائم ہوا۔ یہاں درس و تدریس کا سلسلہ روایتی نہ تھا بلکہ طالب علم پیارے نبی صلیﷺسے درس لیتے، ادب سے سنتے اور ذہن نشین کرتے۔ ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ ’’ہم اس طرح خاموش مؤدب بیٹھا کرتے تھے گویا ہمارے سروں پر پرندہ بیٹھا ہو اور ہمارے حرکت کرنے پر وہ اُڑ جائے گا۔

یہاں پیچیدہ نکات پر بحث ہوتی، علمی مسائل بیان کیے جاتے، ذہن کی گتھیوں کو سلجھایا جاتا، تاریخ کے حوالوں پر بحث ہوتی، ماضی کے قصے بیان کیے جاتے، حال کی مثالیں سامنے لائی جاتیں، مستقبل کے خوش آئند امکانات کا ذکر ہوتا، قرآنی قصص پڑھے جاتے، عقائد کا بیان ہوتا، عذاب کا، دوزخ کا ذکر ہوتا، حشر کے ہولناک دن کی حشر سامانیوں سے ڈرایا جاتا، جنت کی نعمتوں کی خوش خبری دی جاتی، نیت کے خالص ہونے پر جزا و سزا کا تعین، نتائج سے بے پروا عمل، سعی مطلوب کا تذکرہ ہوتا۔ یہ روایتی مدرسہ یا خانقاہ تو تھی نہیں بلکہ یہ تو پیارے نبی ﷺ کی محفل تھی، یہاں سب کچھ تھا، یہ قومی لیکچر ہال بھی تھا، یہ سرکاری مہمان خانہ بھی تھا، یہ جمہوری دارالعلوم بھی تھا، یہ حکومت کا دربار بھی تھا اور یہ مشورے کا ایوان بھی تھا۔ معلم کائناتﷺ کا مقصد تھا کہ مسلمان اپنے آپ کو پہچانیں۔ آج کے معلمین اور اساتذہ اکرام کو بھی چاہیے کہ وہ آپ ﷺکے اوصاف کو اپناتے ہوئے اپنے معلمانہ پیشے کو بخوبی ادا کر سکتے ہیں اور لوگوں کی رہنمائی اور بھلائی کا فریضہ بہترین طریقہ سے سرانجام دے سکتے ہیں۔
٭٭٭
 
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 731998 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More