پاکستان کے گاؤں دیہات میں بسنے والی آبادی بہت زیادہ
تعلیم یافتہ نہیں ہوتی اور اگر ایسے میں کوئی خاتون پڑھ لکھ بھی جائے تو
اسے کچھ کر دکھانے کے مواقع مشکل سے ہی میسر آتے ہیں-
لیکن راولا کوٹ کی نصرت یوسف نے اپنے گاؤں میں ہی رہتے ہوئے ایک انوکھا
بازار قائم کر کے ایسی روشن مثال قائم کردی جس کی نظیر ہمیں پاکستان کے کسی
دوسرے گاؤں میں نہیں ملتی-
راولا کوٹ کے دور دراز گاؤں ’دریک‘ میں قائم اس بازار میں دکاندار بھی
خواتین ہیں اور خریدار بھی خواتین ہیں- کیسے قائم کیا گیا یہ انوکھا اور
منفرد بازار؟ آئیے بی بی سی کے توسط سے جانتے ہیں-
|
|
راولا کوٹ کی نصرت یوسف ایک مقامی غیر سرکاری تنظیم چلاتی ہیں اور مقامی
خواتین بالخصوص خواتین تاجروں کو تحریک دینے میں ان کا اہم کردار ہے۔
وہ پڑھی لکھی تھیں اور ایک سکول میں استانی تھیں لیکن اس دُور دارز گاؤں
’دریک‘ میں ان کے خیال میں انھیں ان کی قابلیت اور تعلیمی اہلیت کے مطابق
اجرت نہیں ملتی تھی۔
انھوں نے 25 مقامی خواتین پر مشتمل خواتین ایک تنظیم بنائی اور خواتین کی
فلاح کے لیے کام شروع کیا۔
|
|
اپنے ہی گاؤں میں ایک خاتون کی گھر میں بنائی گئی دکان سے متاثر ہو کر اپنے
ہی جیسی پڑھی لکھی خواتین کو محض دو یا چار ہزار روپے تنخواہ پر کام کرنے
کے بجائے انھوں نے اپنا کاروبار کرنے کا مشورہ دیا۔
انھوں نے مقامی لوگوں اور ان خواتین کو ایک ایسا بازار بنانے کا مشورہ دیا
جس میں نہ صرف خواتین دکان دار ہوں گی بلکہ یہاں خواتین ہی خریداری کرنے
آئیں گی۔
ان کا یہ مشورہ علاقے کے لوگوں کو پسند آیا اور ایک مقامی شخص نے اپنی زمین
پر بارہ دکانیں بنا کر ان خواتین کو 800 روپے ماہانہ کرائے پر دیں۔ اس
مارکیٹ میں سلائی سنٹر، بوتیک، پارلر، کاسمیٹکس اور جیولری کی دکانوں کے
ساتھ ساتھ ایک ٹیوشن سنٹر بھی ہے۔
|
|
نصرت یوسف بتاتی ہیں ’ہماری مارکیٹ کو دیکھ کر ایک دوسرے گاؤں میں دو
خواتین نے دکانیں کھولی ہیں۔ ہم بھی خواتین کو مختلف ہنر سکھا رہے ہیں جس
کے بعد مزید دکانیں بنا کر انھیں دی جائیں گی۔‘
اسی مارکیٹ میں پارلر چلانے والے حلیمہ سرور کا کہنا تھا ’یہاں ایسی مارکیٹ
کی بہت ضرورت تھی۔ ایک چھوٹی سی چیز کے لیے بھی گاڑی کی 20 منٹ کی مسافت پر
واقع راولا کوٹ شہر جانا پڑتا تھا۔ اور اب اس پاس کے چار دیہاتوں سے خواتین
یہاں ہی آتی ہیں۔‘
|
|
اس مارکیٹ کے مقبول اور کامیاب ہونے کی بڑی وجوہات میں اس کا چار مختلف
دیہاتوں کے لیے قابلِ رسائی ہونا اور یہاں پر موجود ایک پانی کا چشمہ بھی
ہے۔
حلیمہ بتاتی ہیں کہ ’صبح اور شام کے اوقات میں سینکڑوں لڑکیاں یہاں تازہ
پانی بھرنے آتی ہیں۔ اسی بہانے وہ چند قدم دور اس مارکیٹ میں آکر خریداری
بھی کر لیتی ہیں اور میرے پارلر پر بھی آ جاتی ہیں۔‘
حلیمہ نے پارلر سے کام کا آغاز کیا تھا اور اب وہ اس مارکیٹ میں کپڑوں کی
ایک دکان بھی چلا رہی ہیں۔
|
|
ایک خریدار انوشے کا کہنا تھا کہ ’یہاں دکاندار لڑکیاں ہیں تو ان سے بات
کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ اور یہ ہمیں جانتی ہیں اس لیے اُدھار بھی کر لیتی
ہیں۔‘
کاسمیٹکس اور جیولری کی دکان چلانے والی نبیلہ خانم نے گو کہ بغیر تجربے کے
کام شروع کیا لیکن یہ چار سال کے طویل عرصے کے بعد اب وہ کافی منجھی ہوئی
دکان دار محسوس ہوتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’اگر ہمارے لین دین کا طریقہ اچھا نہ
ہوتا تو گاہگ کبھی پلٹ کر نہ آتا۔‘
نبیلہ خانم کہتی ہیں ان کے بھائی اور والد نے ان پر اعتماد کر کے ان پر
سرمایہ کاری کی۔ ان کے بقول ’علاقے کے لوگ بھی خوش ہیں کہ اس مارکیٹ میں
اکیلی لڑکی بھی جاسکتی ہے ورنہ راولاکوٹ تک تو مرد کا ساتھ جانا ضروری تھا۔‘
|
|
بینش بی بی بھی یہاں خریداری کے لیے آئی تھیں انھیں بازار کے رش اور مسافت
کی نسبت یہاں آنا اچھا لگتا ہے۔
’یہاں کی دکان دار بہت اچھی ہیں اب تو یہ سہیلیاں بن گئی ہیں۔‘
حلیمہ سرور نے بتایا کہ موسم گرما میں یہاں پاکستان بھر سے سیاح آتے ہیں
اور اس مارکیٹ کی وجہ سے ان کی خواتین بھی یہاں اکیلے آ کر خریداری کر لیتی
ہیں۔ |