حجاب

 مسلم امہ 4 ستمبر کو عالمی یوم حجاب کے طور پرمناتی ہے ۔عورت کا حجاب یعنی گاؤ ن ، اسکارف اور چادر اوڑھنا اصلااپنے ظاہری جسم کو غیر محرموں سے چھپانا ہے۔ جو لوگ عورت کے لیے غیر محرم ہیں انکا قران میں خوب شد و مد کیساتھ ذکر ہے ۔غیر محرم سے ظاہری پردہ اتنا ہی ضروری ہے جتناکہ شراب سے دور رہنا ۔ جیسے شراب کی حرمت ہے کہ انسان کے لیے دنیا میں حرام ہے بالکل ایسے ہی اپنے جسم کی زیب و زینت کو نامحرم سے چھپانا ضروری ہے۔ حجاب کوئی کلچر، روایت یامعاشرتی اور سماجی رویہ نہیں بلکہ شعائر اسلام میں سے ہے اورعورت کا لفظی معنی ہی پردہ ہے۔ حجاب کا بنیادی مقصد خدا تعالی کی آیات اور نبی مہربان ﷺ کی احکامات کی پیروری بجا لانا ہے ۔حجاب کا حکم قرآن کریم کی سورۃ النور کی آیت نمبر۳۱میں نازل ہوا۔’’اور اے نبی ﷺ مومن عورتوں سے کہہ دوکہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اس کے کہ جو خود ظاہر ہوجائے اور اپنے سینوں پر اپنی چادروں کے آنچل ڈالے رکھیں ــ‘‘۔حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ جب سورہ نور کی یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے لوگ اسے سن کر گھروں کو پلٹے اور جا کر انہوں نے اپنی بیویوں ، بیٹیوں اور بہنوں کو یہ سنائی۔ انصار کی عورتوں میں سے کوئی ایسی نہ تھی جو یہ آیت سن کر بیٹھی رہ گئی ہو۔ ہر ایک اٹھی اور کسی نے اپنا پٹکا کھولا اور کسی نے چادر اٹھا کر اس کا دوپٹہ بنایا اور اوڑھ لیا۔ دوسرے روز صبح کی نماز کے وقت جتنی عورتیں مسجدنبویؐ میں حاضر ہوئیں وہ دوپٹہ اوڑھے ہوئے تھیں ۔دوسراحکم سورۃ الاحزاب میں نازل ہوا ۔’’اے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادر وں کے پلولٹکالیاکرو۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں‘‘۔مولانا مودودی مرحوم نے 1935 میں پردہ کے موضو ع پر جاندار کتا ب لکھی ہے جسے پڑھ کرپردہ کے لغوی، اصطلاحی اور معنوی پہلووؤں کا خوب جائزہ اور ظاہری و باطنی ،ذہنی اوراخلاقی سطح پر حجاب کے اصل مفاہیم و مطالیب کا گراں قدر اندازہ ہو تاہے ۔دل کے بند دریچے کھول کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہشیطان کا مقصد حضرت آدم علیہ السلام وحواکو بے لباس کرناتھا اور آج تک اس کا محبوب ترین ہتھیار یہی ہے کہ وہ بے حجابی کو آراستہ و پیراستہ کر کے عورت کو دھوکہ دیتاہے اور وہ یہ بھول جاتی ہے کہ فطرت کا تقاضا ہے کہ ہر قیمتی چیز ملفوف ہوتی ہے ۔ خول میں محفوظ ہوتی ہے ۔ اسے لوگوں کی نظروں سے دو ر محفوظ رکھا جاتاہے تاکہ اس کی قدر و قیمت برقرار رہے جیسے قیمتی زر و جواہر ، جیسے نازک اشیا ، جیسے خوبصورت سیپیوں میں محفوظ قیمتی موتی وغیرہ ۔

احمقوں کی جنت میں رہنے والے بعضے غیر مناسب لوگو ں کاخیال ہے کہ حجاب نوکری ، کاروباراور آگے بڑھنے کی راہ میں حائل رکاوٹ ہے ۔حالانکہ سکارف اوڑھے ایئرفورس کی فلائنگ آفیسر مریم مختیار نے جب ایئر کریش میں جام شہادت نوش کیا تودنیا میں تو جو عزت کمائی وہ تو افق نے چار سو دیکھا لیکن اوپر والے نے بھی فخر سے فرشتوں کے سامنے تعریفوں کے پل باندھے ہونگے ۔گزشتہ برس نیو یارک میں رہنے والی فلسطینی نژاد ابرار شاہین کو امریکہ نے حجابی خوش لباسی پر انعامات و اعزازات سے نوازا ۔اسی طرح خواتین پاکستان سمیت دنیابھرمیں زندگی کے مختلف شعبوں میں مرد وزن کی تمیز کیے بغیر مردوں کے شانہ بشانہ بڑے بڑے معرکے سر کررہی ہیں ۔فرانس ، اسرائیل ،نام نہادمسلمان دانشور اور جز وقتی اﷲ اور اسلام کے پیر و کار جب فحش کلچر کو مٹتادیکھتے ہیں اور اپنی نفسیاتی خواہشات کی تسکین کا جنازہ اٹھتے دیکھتے ہیں تو حجاب کو طالبان ، شدت پسندی اورمذہب کی سختی سے جوڑتے ہیں اور اسے دقیانوسی روایت گردانتے ہیں۔ جیسے اسلام کسی کی فکری ، عملی، معاشی اور معاشرتی آزادی نہیں چھینتا توغیر ے لوگ اسلام پسند لوگوں کو اور اسلامی روایات کو نشانہ کیوں بناتے ہیں؟ ہندواپنی روایتی داڑھی اور پگڑی کو دل و جان سے مان کر فخر محسوس کرتاہے ، عیسائی اپنے باطل صلیبی نشان کو متاع کل سمجھتاہے اور اسی طرح یہودی اپنی من گھڑت ٹوپی کیپا کو اپنے لئے راحت اور خیر سگالی کی علامت سمجھتا ہے، بلکل ایسے ہی مسلمان اپنی داڑھی، پگڑی، ٹوپی اور حجاب کو نجات ابدی فلاح کا باعث سمجھتے ہیں ۔گمراہ عقل میں ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں کو فرانس میں ننز کو برکنیز پہن کر مقابلے اور تفریح کی اجازت ملنا بھی نظرآنا چاہیے؟

الطا ف حسن قریشی صاحب نے اپنی تصنیف شدہ کتاب’’ ملاقاتیں کیا کیا‘‘ میں حکیم سعید مرحوم سے ظاہری و باطنی پردہ کرنے والی مریض خواتین سے متعلق سوالات کیے کہ باپردہ اور نیک سیرت خواتین زیادہ امراض کا شکار ہیں یا بے پردہ اور فیشن اور زینت کی پجاری خواتین؟ تو حکیم سعید نے حکیمانہ جواب دیا کہ نسبتا وہ خواتین جو ظاہری پردہ نہیں کرتیں اور اپنے جسم کی نمائش کو ضروری سمجھتی ہیں وہ زیادہ تر امراض کا شکار ہیں۔نائن الیون کے بعد اسلام اور اسلام کی علامات خاص طور پر حجاب کے خلاف مغرب کے متعصبانہ رویوں اور میڈیا نے بھر پور مہم جاری رکھی ہوئی ہے ۔ موجودہ دور میں عالمی استعماری قوتوں کے زبردست پروپیگنڈہ کے باوجود حجاب آزادی کی توانا علامت بن کر سامنے آرہاہے ۔یورپ میں مقیم 2کروڑ مسلمانوں میں سے 60لاکھ فرانس میں رہتے ہیں ۔طالبات کو حجاب یعنی اسکارف سے منع کرنے کی کوشش کی گئی تو عدلیہ کے اعلیٰ ادارے اسٹیٹ کونسل نے یہ فیصلہ دیاکہ ’’دینی شعائر کاالتزام ریاست کے سیکولر نظام سے متصادم نہیں ہے۔ ‘‘اس عجیب فرانسیسی فیصلے پر مختلف اطراف کا ردعمل بھی عجیب تھا۔ صدر بش بھی اسکارف کے حق میں بات کی اور کہاکہ مسلم خواتین کو یہ حق ملناچاہیے کہ اپنے مذہب کے مطابق سرپر اسکارف رکھ سکیں۔حاصل تکلم یہ ہے کہ اسلام عورت کے لیے ایسے ماحول اور مقام کا حامی ہے کہ جس میں وہ اپنی تمام تر صلاحیتں بہتر طور پر انجام دے۔عورت کو جتنی آزادی اورحقوق اسلام نے دیے ہیں وہ کسی مذہب نے نہیں دیے ۔ چنانچہ شرم وحیا کی پیکر اور اعلی اخلاق کی مجسمہ آدم کی بیٹی اپنے ظاہری و باطنی حجاب میں اپنی چار دیواری کی حد سے باہر نکل کر شعبہ ہائے زندگی میں فطرت کے اصولوں کے عین مطابق اپنی سعی و جد وجہد کو بروئے کار لاتے ہوئے آفاق کی منازل بھی طہ کر کرتی ہے، کائنات کی خوبصورتی کے رازوں کو بھی اندر سمیٹتی ہے اور آخرت کے انواروتجلیات کی حقدار اور مستحق بھی ٹھہر تی ہے۔

اقبال ؒ کہتا ہے کہ’’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ ،اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں‘‘
Shahzad Saleem Abbasi
About the Author: Shahzad Saleem Abbasi Read More Articles by Shahzad Saleem Abbasi: 156 Articles with 99454 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.