منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے

 روتی ،تڑپتی اور سسکتی ہوئی زندگی میں روز دکھوں کا اضافہ ہورہا ہے ایک طرف وہ ڈاکو اور لٹیرے ہیں جن کی دولت ناسور کی طرح بڑھتی جارہی ہے تو دوسری طرف وہ غریب عوام ہے جن کے سر کچل کر مرہم بھی نہیں رکھی جارہی ہماری آدھی سے زائد غریب اور لاچار آبادی زندگی کی بنیادی سہولیات کو ترس رہی ہے جنکا اپنا کوئی فیصلہ ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی مشورہ انہیں جہاں ہانک دیا جائے وہ سرجھکائے چلے جاتے ہیں ہمیں آج تک کوئی لیڈر ملا اور نہ ہی کارکن اپنے اپنے مفادات نے ہم سب کو ایک دوسرے سے جدا کردیا اسی جدائی نے ہم سے احساس،اساس اور ایثار کا جذبہ بھی چھین لیا جسکا بھر پور فائدہ ہمارے حکمرانوں نے اٹھایا جنہوں نے نہ صرف کھل کرملکی دولت لوٹی بلکہ پھر لوٹنے والے کو کبھی چھوٹا تو کبھی بڑا بھائی بنا کر بھر پور تحفظ بھی فراہم کیا جاتا رہا۔ترقی یافتہ ممالک میں کرپشن پر تحقیقات اور پھر سزا کا عمل شروع ہوجاتا ہے وہاں پر یہ نہیں دیکھا جاتا کہ چور چھوٹا ہے یا بڑا عام آدمی ہے یا خاص ہے مگر پاکستان میں جو بڑا چور اور ڈاکو ہوتا ہے اس پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا بلکہ وہ اپنے پیسے کے زور پر ووٹ خرید کر ہم پر مسلط ہوجاتا ہے اور پھر ہمارے احتساب کے ادارے اسی کی خوشنودی میں لگ جاتے ہیں پولیس تو پہلے ہی حکمرانوں کی لونڈی بنی ہوتی ہے رہی سہی کسر باقی اداروں نے بھی پوری کردی گذشتہ روز پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے راولپنڈی کے جلسہ میں حکمرانوں کے بارے میں جس طرح کے ہوش ربا انکشافات کیے اس پر بھی کوئی ہل جل نہیں ہوئی حیرت کی بات تو یہ ہے کہ الزام لگانے والا بھی پاکستان میں ہے اور جس پر الزام عائد کیے گئے ہیں وہ بھی ملک میں ہی ہے مگر کسی قسم کی کوئی کاروائی نہیں ہوئی ۔ہمارے دیہاتوں میں کسی پر گنا چوری کرنے کا الزام عائد ہو جائے تو زمیندار اسے مار مار کر موت کے منہ تک لے جاتا ہے ایک بھوکا اگر اپنی بھوک مٹانے کے لیے کسی تندور سے روٹی چوری کرلے تو اس بھوکے کا پیٹ چاک کردیا جاتا ہے اور تو اور بسوں اور ویگنوں میں سفر کرنے والوں کے پاس کرایہ میں سے ایک روپیہ بھی کم نکلے تو بس کنڈیکٹر اسے بس سے نیچے اتار دیتا ہے اور پوری بس میں سے کسی مسافر کے اندر اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ اسکا کرایہ دیدے یا بس کنڈیکٹر کو ہی روک سکے مگر آصف علی زرداری پر اربوں ڈالر کی کرپشن کے الزامات ہیں وزیراعظم میاں نواز شریف اور انکی فیملی پر پاناما لیکس کے حوالہ سے کرپشن کی ہوش ربا کہانیاں منظر عام پر ہیں اور اب ڈاکٹر طاہرالقادری کے الزامات کے بعد ہم کہاں کھڑے ہیں اور کس سے منصفی چاہتے ہیں کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا اگر ہمارے ملک میں انصاف فراہم کرنے والا کوئی ادارہ ہوتا تو وہ فوری طور پر ڈاکٹر طاہرالقادری کے الزامات کی تحقیقات شروع کردیتا جو سچا نکلتا اس شاباش دیتا اور دوسرے کو نشان عبرت بنا دیا جاتا مگر یہ صرف ہمارے خواب ہی ہیں کیونکہ ہم مجموعی طور پر اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ ہمیں سوائے اپنے مفاد کے اور کچھ نظر نہیں آرہا اس وقت جو فرد جس کے ساتھ منسلک ہے اسے وہی سے کچھ نہ کچھ گذر بسر کے لیے مل رہا ہے اس لیے وہ نہیں چاہتا کہ وہ بھی کسی ایسی مصیبت میں مبتلا ہوجائے جس طرح وہ لوگ ہیں جو صبح شام اپنے لیے موت کی دعائیں مانگ رہے ہیں اگر کسی کو یقین نہیں تو وہ کسی بھی سرکاری ہسپتال میں پڑے ہوئے بے یارو مددگارمریض سے اسکا حال جان لے جو ادویات اور آپریشن کے پیسے نہ ہونے کے باعث انتہائی اذیت میں زندگی کی گاڑی پر سوار ہیں یا پھر فکر معاش میں خود کشیاں کررہے ہیں اور ویسے بھی عوام کا کام ووٹ دینا ہے حکمرانوں یا لٹیروں کا حساب کتاب کرنا نہیں اگر کسی نے چوری کی ہے ڈاکہ ڈالہ ہے یا پھر ملکی مفاد کے خلاف کوئی کام کیا ہے تو اسکا احتساب ہمارے قومی اداروں نے کرنا ہوتا ہے کیونکہ قانون کے وہ محافظ ہوتے ہیں اگر ان محافظوں کی موجودگی میں کوئی ملک کے خلاف کام کررہا ہے تو پھر ہمارے ان اداروں میں بیٹھے ہوئے افرادکے کردار پر بھی انگلی اٹھائے جائیگی کہ کہیں یہ بھی ملکی مفادات کے خلاف کام کرنے والوں کے ہم نوالہ اور ہم پیالہ تو نہیں ہیں کیونکہ پاکستان میں آج تک وہی لوگ ترقی کرسکے ہیں جنہوں نے غیر قانونی طریقے سے دولت کے انبار لگالیے اور انکے خلاف آج تک کسی قسم کی کوئی کاروائی بھی نہ ہوسکی آصف علی زرداری پر اتنا عرصہ جیل میں رہنے کے باوجودکچھ ثابت نہ ہوسکا اور وہ بلاآخر صدر پاکستان بن گئے انہی کے دور میں جس شخص کو کرپشن اور لوٹ مار پر راجہ رینٹل کا نام دیا گیا اسے وزیراعظم بنا دیا گیا اور ہمارے ملکی ادارے منہ دیکھتے رہ گئے اور اب ملک قرضوں کے بوجھ تلے دب گیا کسی نے کچھ نہیں کیا الطاف حسین نے پاکستان مخالف نعرے لگوا کر ہمارے فورسز پر حملے کا اعلان کردیا تب بھی کسی نے کچھ نہ کیا اور اب ڈاکٹر طاہرالقادری نے موجودہ حکمرانوں پر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کردیے اب بھی ہر طرف خاموشی مگر ایک طاقت ایسی ضرور ہے جس نے الطاف حسین کو ناکوں چنے چبوادیے پیپلز پارٹی کے کرپٹ اور سیاسی دہشت گردوں کے خلاف کراچی میں آپریشن کردیابلوچستان اور سندھ میں مثالی امن قائم کردیااور ملکی سرحدوں پر اپنی جان کے نظرانے پیش کرکے ہمیں آزادزندگی دے رکھی ہے انہی کے لیے فیض احمد فیض کے یہ اشعار۔
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے
درد شب ہجراں کی جزا کیوں نہیں دیتے
خون دل وحشی کا صلہ کیوں نہیں دیتے
مٹ جائیگی مخلوق تو انصاف کروگے
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے۔
rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 830 Articles with 612009 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.