تحریر:ماورا بشارت چیمہ
تہوار ،انفرادی اور اجتماعی طور پر بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔یکسانیت
سیاکتاہٹ کا ماحول پیدا ہوتا ہے اور زندگی جمود کا شکار ہو جاتی ہے۔جمود
کیسا بھی ہو کسی بھی قسم کا ہو نقصان دہ ہوتا ہیاور بیرنگ سی فضا کو پیدا
کرتا ہے۔ہر معاشرہ اپنے انفرادی اور اجتماعی تہوار رکھتا اور ان تہواروں کو
ہر ممکن کوشش سے کامیاب بنایا جاتا ہے۔تہوار مذہبی،قومی اور فرقہ واریت پر
مبنی ہوتے ہیں۔بحیثیت قوم ہر قوم کے اپنے رسم رواج اور تہوار ہوتے ہیں اگر
ہم خود پر نظر ڑالیں تو کئی ایسے دن اور تہوار ہیں جو ہماری قومی بنیادوں
پر مبنی ہیں۔ہر قوم اک مذہب کی پیروکار ہوتی ہے۔مسلمان اپنی زندگیوں کو
عالمگیر اور سلامتی والے مزہب اسلام کے مطابق گزارتے ہیں۔اسلام سلامتی والا
مذہب ہے جو اپنے ماننے والوں کو "دو"اسلامی تہوار دیتا ہے جن میں مسلمانوں
کے لیے فلاح ہے۔اسلام کے تہوار محبت،انسانیت،صلہ رحمی،رحم
دلی،عاجزی،انکساری،صبروتحمل،رواداری،قربانی کا درس دیتے ہیں۔اسلام کے علاوہ
کوئی ایسا مذہب نہیں جس کے تہوار بھی اپنے انر اتنے جامع فوائد رکھتے
ہوں۔عیدالفطر رمضان کے روزے رکھنے کا انعام ہے اور عیدالاضحٰی قربانی کا
امتحان ہے۔اک تہوار صبر کا انعام ہے تو دوسرا بذات خود اک امتحان
ہے۔عیدالاضحٰی کا بنیادی مقصد سمجھا جائے تو یہ کسی انعام سے کم نہیں
ہے۔عیدالاضحٰی کا اک عام مفہوم یہ ہے کہ اسلام کی راہ اور اﷲ تعالٰی کی رضا
کے لیے قربانی کی جائے مگر یہ ہمارے لیے بہت بڑی رحمت ہے۔رحمت خداوندی کی
ایسی بارش ہے جس میں اخلاص سے نہایا جائے تو سنت ابراہیمی کا حق ادا ہو
جائے۔
اسلام کی تعلیمات سے ہمیں یہ شعور ملتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے
حکم باری تعالٰی کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہوئے اپنی جان سے زیادہ عزیز چیز
کو قربان کرنے کا فیصلہ کیا۔اولاد سے کچھ بھی عزیز نہیں ہوتا تو انہوں نے
حضرت اسماعیل علیہ السلام کو خدا کی راہ میں قربان کرنے کا فیصلہ کیا اور
آفرین ہے اس بیٹے پر جس نے فرمانبرداری کی مثال قائم کرتے ہوئے بلا چوں چرا
کے خود کو پیش کر دیا۔سات آسمانوں اور ان میں موجود ہر قسم کی مخلوق نے
تعجب سے محبت کو قربانی کا حق ادا کرتے ہوئے دوانسانوں کو دیکھا۔جس وقت
خلیل اﷲ نے بیٹے کی گردن پر چھری رکھی قدرت باری تعالٰی سے بیٹے کی جگہ
دنبہ نے لے لی۔قربانی صرف سنت ابراہیمی کو پورا کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ
یہ عید اور قربانی اپنے اندر جامع پیغام رکھتے ہیں۔قربانی ہر صاحب حیثیت پر
فرض ہیاور اگر وہ اس فرض سے کوتاہی کرتا ہے تو وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتا
ہے۔قربانی اک مالی عبادت ہے جو اخلاص سے بھرپور اور ریاکاری سے پاک ہونا
چاہیے۔اﷲ تعالٰی کو ہمارے گوشت ،اس کی قیمت اور خون سے کوئی مطلب نہیں ہے
کیونکہ ان تک یہ سب نہیں بلکہ نیت اور اخلاص اہمیت رکھتا ہے۔قربانی اک
دوسرے کے کام آنے کا بھی نام ہے۔جانوروں کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم
کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔اک گھر دوسرا رشتہ دار اور تیسرا حصہ غرباء کے لیے
مقرر ہے۔اگر ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھے تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ
ہم نے قربانی کے اصل مفہوم کو پس پشت ڈال دیا ہے۔سارا گوشت محفوظ کر لیا
جاتا ہے اور برائے نام گوشت تقسیم کر دیا جاتا ہے۔آجکل اس بات پر زور دیا
جا رہا ہے کہ جانور مہنگے سے مہنگا ہو اس کی تشہیر کی جائے اور اس کا گوشت
اپنے لیے ہی محفوظ کر لو۔ہمیں یہ بات صاف بتا دی گئی ہے کہ یہ عمل ریاکاری
اور دکھاوے سے برباد ہو جاتا ہے۔
حدیث مبارکہ میں ہے
"قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلے میں اک نیکی ملے گی"
مگر یہ انعام بھی تب ہے جب اس عمل میں رضائے الٰہی مطلوب ہو گی۔جب ریاکاری
کا کوئی واسطہ نہیں ہو گا۔جب عمل میں اخلاص شامل ہو گا۔اﷲ تعالی ہمارے ہر
عمل میں عاجزی پیدا کرے اور ہمیں اخلاص کی نعمت سے نوازے اور ریاکاری جیسے
مکروہ فعل سے بچائے اور ہمیں قربانی جیسے افضل عمل کو پورا کرنے کی توفیق
دے۔ |