کسی بھی ادارے کے قیام کا واحد مقصد اس سے
جڑے لوگوں کے مفادات کا تحفظ کرنے کے ساتھ بنانے والوں کا اپنا مفاد بھی
وابستہ ہوتا ہے،ہر ادارے میں اول کچھ لوگ ہوتے ہیں جو بنیاد رکھتے ہیں اور
اس کی مظبوطی کا سبب بنتے ہیں،اگر دیانتدارانہ جائزہ لیا جائے تو ادارے کے
ساتھ وابستہ ہزاروں میں سے عملی طور پر چند افراد ہی ہر لحاظ سے فعال اور
متحرک نظر آتے ہیں،ادارے بنانے سے زیادہ مشکل کام انہیں چلانا ہے،دنیا بھر
میں ادارے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے قائم کیے جاتے ہیں اور ان میں شامل
ہر فرد پوری محنت اورلگن سے اپنا کام کرتا ہے اور کچھ ہی عرصے بعد نئے اور
اپنے سے زیادہ متحرک لو گوں کے لیے جگہ چھوڑ دیتا ہے ،اور حقیتاً وہی ادارے
آج زمین پہ قائم ہو کر آسمان کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں جن میں ان کے بنانے
والوں اور چلانے والوں نے اپنی ضد انا اور ہٹ دھرمی کو تین طلاق دے دی،اپنے
ہاں مگر چلن ذرا مختلف ہے،یہاں جو بھی شخص کسی بھی سیٹ پر براجمان ہوتا ہے
لگتا ہے کہ ناشتے میں روز گوند کھاتا ہے کہ پھر وہ اس سیٹ کو چھوڑنے کا نام
نہیں لیتا،اس کو اپنے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا اور صورتحا ل اس فلسفی جیسی
ہو جاتی ہے جو اکیلے بیٹھ کے سوچتا ہے کہ :قائد اعظم نہ رہے لیاقت علی بھی
چلے گئے،اقبال ان دونوں سے پہلے اگلے جہان سدھار گئے،بھٹو بھی نہ رہا ،میاں
صاحب کے دل میں گڑ بڑ ہے اور میری بھی طبیعت خراب رہتی ہے پتہ نہیں میرے
بعد پاکستان کا کیا بنے گا،ہر کسی سے یہی سوال پوچھتا یہ صحافی کسی دن ایک
کسان کے پاس جا پہنچا اور یہی بات اس سے کہی تو کسان نے جواب دیا کہ واقعی
قائداعظم نہ رہے لیاقت علی بھی چلے گئے اور اقبال پہلے جا چکے اور بھٹو کے
بعد میاں صاحب نے بھی جانا ہے اور اگر تمھاری بھی طبیعت خراب ہے تو تم سکون
سے بے فکر ہو کے مر جاؤ پاکستان کو کچھ نہیں ہو گا کیوں کہ میں زندہ ہوں
اور میری طبیعت بھی بالکل ٹھیک رہتی ہے،کچھ ایسا ہی حال اپنے ہاں چکوال
چیمبر آف کامرس کا ہے اس کو بھی چند متحرک لوگوں نے چکوال کے تاجروں کے
مفادات کے تحفظ کے لیے قائم کیا تھا اور چکوال جیسے شہر میں چیمبر کا قیام
ایک بہت بڑا کارنامہ تھا اور چیمبر کے قیام کے بعد جہاں چکوال کے چھوٹے
تاجروں میں بھرپور احساس تحفظ پیدا ہو ا وہیں نئے اور نوجوان لوگوں میں آگے
بڑھنے کی تحریک پیدا ہوئی،چیمبر کے قیام میں جن دو شخصیات نے انتھک محنت
اور لگن سے کام کیا ان میں ایک قاضی محمد اکبر جبکہ دوسرے صاحبزادہ
عبدالقدوس نقشبندی ہیں،قاضی محمد اکبر اور عبدالقدوس نقشبندی دونوں نے جس
وقت اس کام کا بیڑا اٹھا یا تو بہت سے لوگوں کے ساتھ ہمیں بھی یقین نہیں
تھا کہ چکوال جیسے شہر میں ایک ایسا اور اس قسم کا اداراہ قائم ہو جائے
گا،مگر نیت اور لگن سچی ہو تو کچھ بھی ناممکن نہیں ہوتا اور ان دونوں حضرات
کی بھرپور محنت کی وجہ سے آج سے چھ سال قبل غالباً2010میں چکوال چیمبر کا
قیام عمل میں لایا گیا،شروع کے دنوں میں جیسا کہ اپنے ہاں معمول ہے اہم
عہدہ بانیوں کو ہی ملا کرتا ہے سو یہاں بھی صاحبزادہ عبد القدوس نقشبندی
چیمبر کے صدر بن گئے اور دوسرا اہم عہدہ لے کر قاضی محمد اکبر صاحب نے ان
کی تائید و حمایت کر دی،شروع میں کام ٹھیک اور صلہ رحمی و محبت سے چلتا رہا
مگر شاید کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ چیمبر بننے کے فوری بعد یوں پھلنا
پھولنا شروع کرے گا اور چکوال کا سب سے موئثر کاروباری ادارہ بن جائے گا
،دو ڈھائی سال تو ٹھیک رہے مگر فوری بعد ہی چیمبر بھی روایتی سیاست او ر
منافقت کی نذر ہو گیا اور یہاں بھی جوتیوں میں دال بٹنے لگی،نئے الیکشن کا
اعلان ہوا تو صاحبزادہ صاحب نے خالص پاکستانی ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے کسی
بھی نئے ممبر کی بجائے صدارت کیلئے ایک بار پھر خود کو ترجیح دی ادھر دوسری
طرف قاضی صاحب نے بھی جتنا برداشت کرنا تھا کر لیا ، تمام تر احترام اور
نیک نیتی اپنی جگہ مگر ہر جگہ پروٹوکول صدر کے حصے میں ہی جاتا دیکھ کر
انہوں نے صاحبزادہ صاحب کے مدمقابل آنے کا اعلان کیا اور خود کھل کر سامنے
آگئے،صاحبزادہ صاحب کے بقول ان کی شرافت اور قاضی صاحب کے بقول صاحبزادہ
صاحب کی بطور صدر کارکردگی انہیں بہت پیچھے لے گئی اور قاضی صاحب اپنے پورے
گروپ کے ساتھ نہ صرف کامیاب ہو گئے بلکہ تمام اہم عہدے بھی ان کے پاس آگئے
اور اب تک انہی کے پاس ہیں،اب چیمبر میں دو گروپ ہیں ایک گروپ جس کا نام
پائینیر ہے کے سربراہ قاضی محمد اکبر اور دوسرا گروپ جس کا نام فاؤنڈر ہے
کے سربراہ صاحبزادہ عبدالقدوس نقشبندی ہیں،اب ذرا میرے اس کالم کے انٹرو کی
لائنوں پہ غور کریں تو سمجھ آئے گی کہ یہاں بھی مسئلہ فلسفی کی سوچ کا ہی
کارفرما ہے،آج ان دونوں گروپوں میں شدید ترین اختلافات ہیں جس کا سب سے
زیادہ نقصان اس چھوٹے تاجر کو ہو رہا ہے کہ جس نے اس فورم کو اپنے مسائل کا
حل سمجھا تھا جو باقاعدگی سے اپنی فیس دیتا ہے اورچیمبر کی مضبوطی کا
خواہشمند ہے مگر ان دونوں گروپوں کی ترجیحا ت کچھ اور ہیں ،لاکھوں روپیہ
تاجروں کی فلاح و بہبود کی بجائے اللوں تللوں پر اڑا یا جا رہا ہے ،پورے
ملک میں غالباً یہ واحد چیمبر ہے جو تاجروں کی بجائے عوام کو تفریح کے
پروگرام مہیا کر رہا ہے بلکہ لاکھوں روپے کے انعامات کی بارش اس سب سے الگ
ہے، تاجروں کا مفاد ناچ گانے اور ڈانس بھنگڑے کے پروگرام میں کہاں پنہاں ہے
مجھے اور میرے جیسے دیگر نابغوں کو آج تک سمجھ نہیں آ سکی،چیمبر نے کسی
اسکول میں پینے کے ٹھنڈے پانی کے ساتھ ٹیچر اور فرنیچر کا بندوبست کیا ہو
چھوٹے تاجروں کے بچوں کی فیسیں ادا کی ہوں ، کسی ہسپتال میں چیمبر کا
میڈیکل کیمپ ہو جہاں سے چھوٹے کاروباری طبقے کو مفت یا رعاتی نرخوں پہ
داوئیں فراہم کی جا رہی ہوں،کوئی ٹرانسپورٹ سر وس ہو جو تاجروں یا ان کے
بچوں کو کم از کم اسکول تک پک اینڈ ڈراپ کی سہولت دے رہی ہو ،اور کوئی گنتی
ہو کہ کتنے غریب دکاندارو ں کی بچیوں کے ہاتھ پیلے کرنے کا سامان چیمبر نے
کیا ہے ،اپنے محتر م دوست چوہدری یٰسین صاحب سے گذارش ہے کہ مجھ نا قص
العلم کے لیے شیئر کریں یا کم ازکم اپنے کالم میں ضرور ذکر کریں تاکہ عام
افراد کا بھلا ہو،پائینیر گروپ ابھی اقتدار میں ہے اور شاید آئندہ کے لیے
بھی واضح اکثریت رکھتا ہے ،مگر نہ جانے کیوں فاؤنڈرز ان کے ہوش و حواس پہ
سوار ہے،یہ جو پریس کانفرنس کی قاضی اکبر صاحب نے یہ بالکل غیر ضروری اور
اس میں کی گئی گفتگو تو کسی بھی طرح خوش آئند یا قابل ستائش قرار نہیں دی
جا سکتی،قاضی صاحب محترم کو شاید علم نہیں مسلمان ہونے کے لیے واحد اور
اولین شرط اﷲ اور اس کے سول اور ان کے احکامات پر عمل ہے،باقی تمام باتیں
فقہی اور مسلکی اختلافات تو ہو سکتے ہیں حرف آخر ہر گز نہیں اور کسی بھی
شخص کو محض مسلکی یا فقہی اختلاف کی بنا پر اس حد تک نیچے لے جانا کسی بھی
طرح صائب عمل نہیں ،الٹا جگ ہنسائی کا باعث بنتا ہے جس کا احساس یقینناً
قاضی صاحب کو ہو چکا ہو گا،قاضی صاحب نے اپنی گفتگو میں جس شخصیت کا ذکر
کیا کہ وہ صاحب کھڑے نہیں ہو سکتے تھے ان کو سہار ا دے کر درود وسلام کے
لیے کھڑا کیا گیا تو شاید قاضی صاحب کو عام زندگی میں ان سے واسطہ نہیں پڑا
ورنہ انہیں اندازہ ہوتا کہ فرعونیت اور تکبر کس بلا کا نام ہے،اور شاید یہ
بھی پائینیر گروپ کے سربراہ کے علم میں نہیں ہو گا کہ بہت سے لوگ اس طرح کے
صلوٰۃ وسلام کے ہی قائل نہیں ،ان کا انداز اور طریقہ الگ ہے،کچھ لوگ ایصال
ثواب کے قائل نہیں تو کچھ نمازہ جنازہ کو ہی دعا سمجھ کے دوبارہ میت سامنے
رکھ کے دعا مانگنے کے قائل نہیں ،جبکہ بہت سے مانگتے بھی ہیں،مگر اس طرح
مانگنے والوں کو اعلی ٰ درجے کا مسلمان اور نہ مانگنے والے بے شرم اور
کمزور عقیدہ مسلمان،ا سی طرح بہت سے لوگ صرف فرض نماز ادا کرتے ہیں تو کیا
ان سب لوگوں کو گھٹیا اور بددیانت کہنے کا حق ہے کسی کو ،یقینا نہیں کیوں
کہ ہر شخص کا اپنا مسلک اور اپنی فقہ اور اپنا امام ہے اور کچھ تو کسی بھی
امام کو نہیں مانتے قرآن و حدیث کے علاوہ،کہتے ہیں کہ پہلے تولو پھر بولو
کیوں کہ زبان سے نکلی ہوئی بات اور کمان سے نکلا ہوا تیر کبھی واپس نہیں
آسکتا،ہر مقابلے میں جتنے بھی لوگ اور فریق ہو ں جیت کسی ایک کے حصے میں ہی
آتی ہے سو یہاں بھی چند دنوں بعد ہار جیت کا فیصل ہو جائے گا اور یوں کسی
کو اپنے حواس پہ سوار کر کے خود کو تماشا بنانے سے اجتناب کی پالیسی اپنائی
جائے تو میرے خیال میں پائینیر گروپ کے ساتھ چیمبر اور اس کے ممبران کے لیے
بھی بہت زیادہ سود مند ثابت ہو گا ۔الیکشن میں چند دن باقی ہیں اور یہ
تحریر آپ کے سامنے آنے تک یقینا فاؤنڈر گروپ بھی ایک دھواں دھار قسم کی
پریس کانفرنس کر چکا ہو گا ،عبدالقدوس نقشبندی تاجر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک
عالم دین بھی ہیں ہمیں امید ہے کہ ان کی زبان کی کاٹ قاضی صاحب کی بجائے
مہذبانہ ہو گی اور انداز بھی دین کی سمجھ بوجھ رکھنے والی شخصیت جیسا ہی ہو
گا،اﷲ دونوں طرف کے لوگوں کو صبر اعتدال عطا کرنے کے ساتھ ساتھ سب کے
کاروبا ر میں برکت دے،،،،،،،،،،،،،
|