ہمارے بزرگ۔۔۔۔۔ ہمارا اصل اثاثہ

اپنے سے بڑے لوگوں کی صحبت میں بیٹھنا، اُن سے کم کم باتیں کرنا اور اُن کی ڈھیروں باتیں سننا مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ بزرگ مرقع تجربہ ہوتے ہیں۔ دنیا جہاں کی وہ چیزیں جنہیں تجربات سے حاصل کرنے کے لئے عمر خضر بھی شاید ناکافی ہو، آپ ان بزرگوں کی بدولت لمحوں میں جان جاتے ہیں۔ چند روز پہلے وہ دن میرے لئے بڑی سعاوت کا حامل تھا کہ ایک نہیں دو بزرگ ہستیوں سے ملاقات ہو گئی۔ ہستیاں بھی وہ کہ جو اپنے اپنے شعبے میں مینار کی حیثیت رکھتی ہیں۔ لیجنڈ، ہمارے اصل ہیرو، ہمارے رول ماڈل۔یہی لوگ ہمارا اصل اثاثہ ہیں۔

پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر محترم ڈاکٹر مجاہد کامران سے میری محبت ، عقیدت اور دوستی کا رشتہ چالیس سال سے زیادہ پرانا ہے۔ ڈاکٹر مجاہد کامران گذشتہ آٹھ سال سے پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں اور آج کل قائم مقام وائس چانسلر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ اگلی ٹرم کے لئے متوقع وائس چانسلرز کی لسٹ میں ان کا نام بھی شامل ہے۔ مگر تاحال کچھ ناگزیر وجوہات کے سبب معاملہ لٹکا ہوا ہے۔ ڈاکٹر مجاہد کامران دوستوں کے دوست ہیں اور ان میں سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس قدر عمدہ ٹیم ورک کرتے ہیں کہ ان کی قیادت میں نالائق سے نالائق آدمی کی نالائقی بھی چُھپ جاتی ہے۔ بلکہ بہت سوں کی نالائقیوں پر اُن کی جوان ہمت اور شاندار قیادت نے پردہ ڈالا ہوا ہے۔مجھے ڈاکٹر صاحب سے ایک کام تھا۔ ڈاکٹر صاحب اپنے کمرے میں نہیں تھے۔ عزیزم سرفراز نے مجھے انتظار کرنے کا مشورہ دیا اور میں ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں ہی ان کا انتظار کرنے لگا۔

دوران انتظار چائے پینے کے بعد میں صوفے کے اردگرد میزوں پر پڑے مختلف میگزین کا مطالعہ کر رہا تھا کہ دروازہ کھلا اور ایک عظیم اور سراپا شفقت شخصیت اور بڑے ہی محترم استاد جنہیں ریٹائرڈ ہوئے کئی سال ہو چکے، جناب نسیم بٹ صاحب تشریف لے آئے۔ چند اور لوگ بھی بیٹھے تھے جنہیں میں نہیں جانتا تھا، مگر بٹ صاحب سب کے محترم اور استاد تھے۔پاکستان کی بیوروکریسی میں ایک بہت بڑی تعداد ان کے شاگردوں کی ہے۔ ان کی شفقت اور پیار میرے لئے ہمیشہ تقویت کا باعث رہا ہے۔ گپ شپ شروع ہوئی، صحت اور ڈاکٹروں کے حوالے سے کوئی بات چلی تو بٹ صاحب فرمانے لگے کہ ٹھیک ہے سرکاری ہسپتالوں میں کافی خامیاں ہیں، مگر وہ اتنے بھی بُرے نہیں جتنے ہم نے بنا دئیے ہیں۔ اپنے ذاتی تجربے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ بحیثیت قوم ہم سب میں برداشت کی کمی ہے۔ کہنے لگے مجھے آنکھوں کا کچھ مسئلہ درپیش تھا، پرائیویٹ ہسپتال میں ڈاکٹر دیکھنے کی فیس دو ہزار روپے وصول کرتا ہے۔ مخصوص وقت دیتا ہے۔ مگر اُس وقت خود موجود نہیں ہوتا۔ ایک فن کار اُس کے ملازم کے طور پر ہر پانچ منٹ بعد آپ کو بتاتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب راستے میں ہیں، ٹریفک پرابلم ہے۔ بس چند منٹ کی بات ہے ڈاکٹر صاحب آنے والے ہیں۔ بہرحال ڈاکٹر صاحب اپنی مرضی سے اپنے وقت پر آتے ہیں۔ پھر باری بھی دیر سے آتی ہے۔ ایک دو گھنٹے کا انتظار معمولی بات ہے۔ مگر ہمیں یہ احساس کہ VIP کے طور پر سلوک ہو رہا ہے، شاندار صوفے پر بیٹھے ہیں،کوئی بار بار آتا اور پوچھتا ہے ،خوامخواہ ہمیں پیسے ضائع کرنے پر مجبور کرتا ہے۔

اپنے ذاتی تجربہ کے حوالے سے بتانے لگے کہ میں ایک سرکاری ہسپتال چلا گیا، غالباً بیس (۲۰) روپے کی پرچی بنوائی اور ڈاکٹر کے کمرے کے باہر ایک لکڑی کے بنچ پر بیٹھ گیا۔ ساتھ اس بنچ پر ایک اور بوڑھا آدمی بیٹھا تھا۔ بیٹھنے کے لئے صوفے نہیں تھے۔ حوصلہ دینے کے لئے کوئی فنکار موجود نہیں تھا۔ پندرہ بیس منٹ میں باری آگئی۔ ڈاکٹر نے بہت اچھی طرح آنکھوں کا معائنہ کیا۔ بڑے پیار سے بات کی۔ جب اُسے پتہ چلا کہ میں ایک استاد ہوں تو اور بھی باادب ہو گیا۔ مجھے دروازے تک رُخصت کرنے بھی آیا۔ بٹ صاحب بتا رہے تھے کہ دو باتیں برائی کا باعث بنتی ہیں۔ ایک ہمارے اندر کی یہ خواہش کہ ہمیں عام نہ سمجھا جائے۔ ہم جہاں جائیں VIP تصور ہوں۔ یہ نفسیاتی خامی ہمیں سرکاری ہسپتالوں سے دور کرتی ہے۔ دوسرا ہم نے سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹرز کے بارے خوامخواہ ایک تعصب ذہن میں پالا ہوا ہے کہ ان کا روّیہ اچھا نہیں ہوتا۔ سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹر پرائیویٹ پریکٹس کرنے والوں سے بدرجہا بہتر ہیں۔ ماسوائے ان کے جو سرکاری نوکری کی آڑ میں پرائیویٹ پریکٹس کی فروغ کے لئے کام کرتے ہیں۔ پرائیویٹ میں تو ڈاکٹر آٹھ، دس مریض دیکھتا ہے۔ سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹر ایک دن میں سو (۱۰۰) کے لگ بھگ، بلکہ بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ مریضوں کو دیکھتا ہے۔جو ہر آدمی کی صحت اور مزاج کے لئے ایک بوجھل کام ہے۔ اس قدر کام کی زیادتی اور اس سے نبرد آزما ہونا یقینا اچھے اور حوصلہ مند ڈاکٹروں کا کام ہے۔ ہمیں ان کی اس خوبی پر بھی غور کرنا چاہئے۔

میں بٹ صاحب کی باتوں کو غور سے سن رہا تھا کہ دروازہ کھلا اور ایک انتہائی بزرگ اور نامور شخصیت کمرے میں موجود تھی۔ ان کا ملازم ان کے ساتھ تھاجو ان کے بڑھاپے میں مددگار کا کام کر رہا تھا، ان کو دیکھ کر ہم سب کھڑے ہو گئے۔ بٹ صاحب بھی کھڑے ہوئے۔ آج تک اخبارات کی حد تک آپ کی ذات سے شناسائی تھی۔ آج دوبدو ملاقات سے بہت خوشی ہوئی۔ یہ ملک کے نامور وکیل، بزرگ سیاستدان اور وکیلوں کے استاد جناب ایس۔ایم ظفر تھے۔ ملازم نے انہیں تھوڑا بیٹھنے میں مدد دی۔ پاکستان کا یہ عظیم اثاثہ واقعی کچھ نہیں کافی بوڑھا ہو چکا ہے۔ مگر اس بوڑھے شخص سے مل کر جوان لوگ تقویت پاتے ہیں۔ وہاں بیٹھے ہر شخص نے ان کے احترام میں کھڑے ہو کر اپنے اپنے انداز میں ان کی پذیرائی کی۔ سب کی بات سن کر ایس ایم ظفر صاحب مسکرائے اور کہنے لگے ہاں میں وہی ہوں مگر وہ بات اب نہیں۔ ہالی ووڈ کی ایک پرانی اداکارہ ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھی تھی۔ ایک شخص کی اس پر نظر پڑی، وہ اس کا پرانا شیدائی تھا۔ فوراً بھاگ کر اس کے پاس پہنچا۔ بڑی عقیدت سے اس کا نام لے کر پوچھا کہ آپ فلاں اداکارہ ہیں۔ وہ ہنس دی، اس شخص کی طرف دیکھااور مسکراتے ہوئے کہا، ہاں میں اسی کی باقیات ہوں۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 442233 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More