اے ایمان والو ---- میرے کا ندھے پر رکھ کر بندوق مت چلاؤ

یورپ کا سیکولرامیج اورفلاحی ریاست کا تصور ایک عرصے سے اس خطے کوباقی دنیا کے ان افراد کی پناہ گاہ بنانے کا ذمہ دار رہا جواپنے معاشروں کےامتیازی قوانین یا سیاسی مظالم کا نشانہ بنے. آج بھی مسلم ممالک میں مختلف گروہوں کی باہم خونریزی اورمسلم ریاستوں کےمظالم سے تنگ آ ئے ہوے مظلوم افراد بشمول خواتین یورپ کو اپنی پناہ گاہ سمجھتے ہیں اور یورپ کے سیکولر معاشروں کو اپنی عارضی یا مستقل قیام گاہ بنا لیتے ہیں بچپن میں ایک محاورہ سنتے تھے کہ کرے داڑھی والا ،بھرےمونچھوں والا مگر آجکل تو معاملہ اس سے بہت آگے نکل چکا ہے یعنی اب پھٹتا ہے داڑھی والا اور بھرتی ہے وہ بیچاری مخلوق جسکو دور دور تک "مونچھیں "نصیب ہونے کی کوئی آ س نہیں.

آج صورتحال یہ ہےکہ یورپ کے کچھ ممالک میں کٹراسلامی نظریاتی گروپوں اورانتہاپسند مسلم دہشتگردوں کے مقامی افراد کے قتل عام کے بعد خواتین کےپردےیا حجاب یا برقعےپرپابندی کے قوانین نافذ ہوچکےہیں بقیہ کچھ ممالک میں کھلم کھلا اوراکثر میں دبی دبی آوازیں ایسے قوانین کے حق میں اٹھائی جا رہی ہیں.
مذھب کے خلاف قوانین بنانا اورانپرعمل درآمد کرنا یوں تو بہت ظالمانہ محسوس ہوتا ہے مگر مجھ سمیت کسی بھی پاکستانی کو ایسے قوانین پر کچھ خاص افسوس نہیں ہونا چاہیے اسکی وجہ یہ ہے کہ جو کام یورپ کے کچھ ممالک آج کر رہے ہیں ہم تو چالیس سال پہلے ہی احمدی نام کی ایک مذہبی جماعت کو عوامی اسمبلی کی تصدیق سے اس بات پر مجبورکرچکے ہیں کہ وہ اپنی مرضی کا مذھب اختیارنہیں کرسکتی بلکہ ملک کی اکثریت انہیں بتاۓ گی کہ وہ "کون " ہیں. اس لحاظ سے فرانس ،جرمنی ،سویڈن وغیرہ پھر بھی ایک بہتر انسانی اور جمہوری رویے کا اظہار کر رہے ہیں اور مسلم اقلیت کو ایک قابل عمل آپشن دے رہے ہیں یہ کہہ کر کہ اپنے رواجاور روایات اپنے گھرچھوڑ کرآ ؤ یھاں رہنا ہےتواکثریت کی اقداراپناؤ……. مگر پاکستان وہ انوکھا ملک ہےجہان ایک غاصب جرنیل آرڈیننس کےذریعے اقلیت کو حکم دیتا ہے کہ خبردار! جو اکثریت جیسی "حرکتیں " کیں بلکہ جاؤ جا کرکسی سےادھار" کفر"لےکرآ ؤ تمہارے سلام دعا اورمرنے جینے کے طریقے کچھ بھی ہوں مگر مسلم اکثریت جیسے نہیں ہونے چاہیں. سونےپرسہاگہ کہ اس احمقانہ آرڈینسس کوایک ربرسٹمپ اسمبلی نے١٩٨٥ میں مہرلگا کرآئین کا حصہ بھی بنادیا بقول شخصےآپ کسی انسان کونفرت میں یہ توکہہ سکتے ہیں کہ تم ایک گدھےہومگرپھراسکو ڈھینچوں،ڈھینچوں کرنے، چارپاؤں پرکھڑا ہونےاورگھاس چرنے پرکس طرح مجبور کرسکتے ہیں ؟؟

خیرآج کا ہمارا موضوع پاکستان کےامتیازی اورغیرانسانی قوانین اورانکا نفاذ نہیں بلکہ یورپ میں خواتین کے حجاب پر لگنے والی پابندیاں ہیں. کچھ دن پہلے ایک تصویر نے مسلمان تو مسلمان غیر مسلم کمیونیٹیزکوبھی جھنجوڑ ڈالا جس میں ایک خاتون کو "برقینی "نامی لباس پہن کر فرانسیسی شہرکےساحل پر لطف اندوز ہونے پر ٹکٹ دی گئی بلکہ ایک قدم آگے جاکراس خاتون کےکچھ کپڑےبھی وہاں موجود سینکڑوں لوگوں کے سامنے اترواۓ گیے. اس واقعہ نے وہ دن یاد کروا دیے جب پاکستان کے حواسوں پرآج تک چھاۓ، ایک غا صب جرنیل نے اپنے مفادات کے تحت اسلام کی سربلندی کومعاشرے کی ایک مظلوم مخلوق "عورت " کے پردے اورکردار سےکنفیوژکررکھا تھا، اس ضیائی دور میں اسکول /کالج یونیفارم میں چادر ضروری کی گئی تھی اورچادر گھر بھول آنےوالی لڑکی کو سزا کے طور پر ایک آدھا گھنٹہ کلاس کےباہرکھڑا رکھا جاتا اس ایک گھنٹے کے دوران ہمیں ایسا لگتا کہ شاید چادر نہیں بلکہ ہم ساری یونیفارم ہی گھر بھول آ ئے ہیں اوردس کلاسوں کی لڑکیوں کے سامنے بے لباس کھڑے ہیں . اکثر اس ایک دن کا بدلہ ہم اس منحوس چادر سےچھٹی کے وقت لیتے اورگیٹ سےباہرنکلتے ہی ہر لڑکی کی پہلی کوشش یہی ہوتی کہ اس "عذاب "کو اسکول بیگ میں ٹھونسو اس طرح کہ اسکی کریزحد درجہ تباہ ہوجاۓ.

قران پاک میں ایمان لانے والوں کے لیے سات سو احکامات ہیں جس میں سے پردہ " بھی" ایک ہے ....... نہ کہ " پردہ ہی ایک ہے " ...سوآج کتنے احکامات ہیں جن پر کوئی بھی مسلم معاشرہ پوری ایمانداری اور چوکسی سےعمل کر رہا ہے ؟؟؟ کہتے ہیں ایک ادھیڑ عمرخاتون سے کسی نے کہا آپ روزے تو رکھتی نہیں مگر سحر و افطار بہت ذوق و شوق سے کرتی ہیں تو کہنے لگیں بیٹا !! کیا بلکل ہی کافر ہوجاؤ ں ..... یہی حال ہمارے مسلم معاشروں اورعورت مخالف ملاہیت کا ہے کہ چھ سو ننانوے احکامات کو نہ مانیں مگر کیا عورت کو پردہ نہ کروا کر بالکل ہی "کافر " ہوجائیں ؟؟

بہت عرصے سے ایمان والوں کا یہ حال ہے کہ ایمان کو صرف عورت اور اسکے پردے میں محدود کر دیا گیا ہے اور کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ اسلام کا بنیادی رکن ہی "عورت " ہے تو پھر اہل یورپ اور انکے لیڈروں سے کیا گلہ کہ انہوں نے بھی عورت کے حجاب کو ہی "اسلام کا قلعہ " سمجھ کر اپنی "منجیقو ں " کا رخ اسی قلعے کی طرف موڑ دیا اور اب ہر طرف سے دھنا دھن آگ کے گولے برس رہے ہیں.
ایک تھذیب ہے کہ عورت کے پردے پرامربیل کی طرح چڑھ بیٹھی ہے اور یہیں سے نشو نما پانے کی کوشش میں مصروف ہے تو دوسری تھذیب اسی حجاب کو کھینچ کراسلام پر"حملہ" کرنے کی کوشش کررہی ہے دونوں صورتوں میں نزلہ خواتین اور انکے لباس پر گرتا ہے. اسلامی اورغیر اسلامی معاشرے یہ جانتے ہی نہیں کہ عورت،اسکی سوچ اوراسکا لباس معاشرے کے آئینہ دار ہوتے ہیں جو کچھ عورت معاشرے کے رویے سے سیکھتی اور اپنی سوچ کا حصہ بناتی ہے وہی سب کچھ اسکے لباس اور رویے میں جھلکتا ہے کہا جاتا ہے کہ مرد اورعورت ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں مگر یہ بات کہنے والے دوسرے سانس میں یہ بھول جاتے ہیں کہ مرد نامی پہیہ اگر اپنے کردار میں ہی پنکچر ہوجاۓ گا تو پردہ میں لپٹا ، باکردار،اسلام کی پہچان کرانے والا دوسرا پہیہ کتنا بھی صحیح حالت میں ہوگاڑی نہیں چلے گی. زمینی حقایق سے بےخبر "امہ "مستقل اس پنکچر گاڑی کا دھکہ لگا رہی ہےمگر ہرذی ہوش جانتا ہےکہ یہ پنکچرگاڑی کتنی دیراورکتنی دور تک چل سکتی ہے؟

ایران سے سعودیہ اور انڈونیشیا سے پاکستان تک کے علماء اکرام اور مشایخ نے جن ناتواں کندھوں پر اسلام کی بندوق رکھ کر غیر اسلامی سیکولر معاشروں پرتبلیغی نشانہ بندھا تھا انکو یہ دیکھ کر خاموشی کے دورے پڑ گیے ہیں کہ آج یہ بندوق انکی طرف پھیر دی گیی ہے. کاندھا ہے اس حجابی خاتون کا جسکو نیس کے ساحل پر سینکڑوں کے سامنے بےحجاب کیا گیا مگر اسلامی دنیا کے وہ جوش سے پھڑکتے مسلم ممالک نہ جانے کہاں ہیں جہاں ویسےتوہر قسم کے کارٹونوں اورفلموں پرجلسے جلوسوں کے ذریعے اپنے ہی مسلمانوں کےکاروبار راکھ کے ڈھیر بنا دیے جاتے ہیں مگرایک جیتی جاگتی اسلام پر عمل کرتی عورت کے قانون کے نام پر بےعزت ہونے پرمجال ہے جوان شریعت کے نام لیوا ممالک کی طرف سے مذمت کا ایک اجتماعی بیان ہی آجاتا.

لیکن ایسا ہو بھی نہیں سکتا تھا! کیوں ؟؟ کیونکہ جس "مخلوق " کو آپ نے عزت و احترام کے لیے نہیں بلکہ اپنی مذہبی جنونیت کو نافذ کرنے کا ذریعہ بنایا ہوا تھا غیروں نے بھی آپکی ترکیب کوآپ پر استعمال کیا اوراپنی جنونیت کا اظہارایک بےبس عورت پر کیا مگر یاد رہے نیس کے ساحل پر ایک خاتون نہیں بلکہ مسلم امہ کے کپڑے اتارے گیے ، مسلم امہ کو ٹکٹ دی گئی اور یاد دلایا گیا کہ تم نے اپنے جاہلانہ تشدد ،منافقت ، بے ایمانی ،جھوٹ ،بدکرداری، بے اعمالیوں کومسلم عورت کےحجاب سے ڈھانکنے کی کوششکرتے ہو …...... تو لاو آج ہم یہ حجاب اتارکرایسے " بےعمل،منافق مسلم معاشرے" کو بے پردہ کردیں جو اپنے دینی اور دنیاوی ہر دو فرایض سے مکمل طورپرنابلد ہے
aina syeda
About the Author: aina syeda Read More Articles by aina syeda: 44 Articles with 68984 views I am a teacher by profession, a writer by passion, a poet by heart and a volunteer by choice... View More