گاڑی کی رفتار بہت آہستہ تھی، مگرا س کے باوجود گڑھے اتنے
زیادہ تھے کہ ٹھا، ٹھک کی آوازیں مسلسل آرہی تھیں۔ گاڑی کا جو بگڑنا تھا وہ
تو تھا، مگر ہم دونوں جو گاڑی میں بیٹھے تھے اُن کا بھی بُرا حال تھا۔ مجھے
چونکہ روز وہاں ہی سے آنا جانا ہوتا ہے اس لئے ایک عادی شخصکی طرح بڑے
مطمئن انداز میں گاڑی چلا رہا تھا۔ مگر میں نے دیکھا کہ میرے ساتھ بیٹھے
میرے مہمان دوست کے چہروں کی سلوٹوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ ٹوٹی
پھوٹی سڑک بمشکل ایک فرلانگ تھی۔ ابھی آدھا فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ میرے
ساتھ بیٹھے میرے مہمان جناب بٹ صاحب جلال میں آگئے۔ کہاں لے آئے ہو؟ تمہاری
گاڑی اور میری پسلیاں دونوں ٹوٹ جائیں گے۔ گھر کے لئے تمہیں کوئی معقول جگہ
نہیں ملی تھی؟ بٹ صاحب نے غصے سے پوچھا۔بس تھوڑا فاصلہ رہ گیا ہے، پھر
معقول راستہ شروع ہو جائے گا۔ اصل میں، یہ اصل راستہ نہیں ہے۔
میرے جواب پر وہ مزید برہم ہو گئے کہ اصل راستے سے کیوں نہیں گئے؟ مجھے سزا
دینے ادھر کیوں آگئے ہو؟ مجبوری تھی، اصل راستے پر سیور کے پائپ کچھ عرصہ
پہلے بچھائے گئے ہیں۔ وہ سڑک ابھی بنی نہیں، وہاں بڑے بڑے گڑھے اور دلدل کا
راج ہے۔ اس سڑک پر گاڑی لے جانا بہت رسکی ہے۔ کوئی بھی یہ رسک نہیں لیتا۔
مجبوری میں یہ راستہ اختیار کیا ہے۔ یہ راستہ آگے ایک گاؤں کو جاتا ہے اس
راستے کے ناقابل استعمال ہونے کے بعد ہم نے سوسائٹی کا اس طرف والا گیٹ
کھولا ہے، وگرنہ عام حالات میں ہم لوگ اِدھر نہیں آتے۔
اصل راستے پر سیوریج کے لئے پائپ کب تک ڈالے جائیں گے؟ بٹ صاحب نے ایک نیا
سوال کر دیا۔
میں نے عرض کیا سیوریج کے پائپ چار ماہ ہوئے مکمل طور پر ڈال کر لوگ جا چکے
ہیں۔ اب وہ کہیں آگے کام کر رہے ہیں۔ ہمارے راستے کی سڑک مرمت کرنا باقی ہے۔
دیکھیں کب کرتے ہیں۔ میں نے ذرہ زور دے کر یہ بات کہی۔
بٹ صاحب مزید غصے میں آگئے۔ یار! تم لوگ انسان ہو، سیوریج ڈال دیا ہے تو
شور مچاؤ۔ انہیں کہو کہ سڑک کی فوراً مرمت کریں اور یہ سڑک ،گاؤں والے مان
لیا سادہ لوگ ہیں، تم لوگ تو کسی کو کہو کہ اس کی مرمت کریں۔ جب تک شکایت
نہیں کرو گے، مجھے لگتا ہے یہاں کوئی نہیں آئے گا۔ یہ بتاؤ کہ وزیر اعظم
ہاؤس یہاں سے کتنی دور ہے؟
صرف چار کلومیٹر۔ چار کلومیٹر اور وہاں تم نہیں جا سکتے۔ وہاں جاؤ، وہاں
علاقے کی شکایت سننے کو کوئی نہ کوئی شخص بیٹھا ہوگا۔ شکایت کرو۔ وزیر اعظم
ہاؤس کے حوالے سے ازالہ بھی جلدی ہوگا۔
میں نے پھر کہا کہ بٹ صاحب پتہ نہیں آپ کہاں بستے ہیں؟ وزیر اعظم ہاؤس کے
اردگرد اتنا سخت پہرہ ہے کہ میری شکایت تو درج نہیں ہوگی، مشکوک شخص جان کر
جیل بھجوا دیا جاؤں گا، یہ ممکن ہے۔
میں پچھلے چار سال جاپان رہا ہوں، مجھے اس طرح تو کیا، تھوڑی ٹوٹی ہوئی سڑک
بھی نہیں ملی۔ میں اور میرا پروفیسر ایک دن گاڑی پر کسی سے ملنے جا رہے تھے
ایک کم مصروف سڑک سے گزرتے ہوئے ہماری گاڑی کو تھوڑا سا جھٹکا لگا۔ پروفیسر
صاحب نے گاڑی روک لی۔ پیدل واپس آکر اس جگہ کا معائنہ کیا کہ جہاں گاڑی کو
جھٹکا لگا تھا۔ ایک جگہ سڑک میں کوئی دو فٹ کا چھوٹا سا گڑھا محسوس ہو رہا
تھا۔ ویسے سڑک بالکل ٹھیک تھی۔ پروفیسر صاحب نے اردگرد پوری سڑک کا معائنہ
کیا۔ باقی سڑک ٹھیک تھی۔ انہوں نے ایک فون ملایا، وہ جگہ انہیں سمجھائی اور
سڑک کی خرابی کی شکایت لکھوا دی۔ ہم واپس گاڑی میں بیٹھے تو پروفیسر صاحب
بتانے لگے کہ محکمے کو اطلاع دے دی ہے۔ انہوں نے معذرت کی ہے، اور کہا ہے
کہ کل شام تک اس جگہ کی مرمت ہو جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ میں
پرسوں کسی وقت بھی دوبارہ اس جگہ کو چیک کر سکتا ہوں۔
ایک دن بعدہم دوبارہ اس طرف جا رہے تھے میں نے پروفیسر صاحب سے پوچھا کہ آپ
کو جانے کی کیا ضرورت ہے؟ کہنے لگے میں نے شکایت کی تھی انہوں نے مجھے کہا
تھا کہ آج یا آج کے بعد میں کسی دن بھی اس جگہ کو چیک کر سکتا ہوں۔ اس لئے
میں فقط اس جگہ کو چیک کرنے جا رہا ہوں۔کیونکہ اگلے دو ، تین دن میں ان کا
نمائندہ لازمی میرے پاس آئے گا اور لکھوائے گا کہ میری شکایت پر وہ سڑک
مرمت ہو چکی ہے اور میں ان کی کارکردگی اور ان کے کام سے مطمئن ہوں۔ اس لئے
مجھے جانا ہے۔ ہم وہاں پہنچے، پروفیسر صاحب نے اُتر کر کافی محنت سے وہ جگہ
تلاش کی، کیونکہ مرمت کے بعد اس کی اصل جگہ کو تلاش کرنا خاصہ دشوار تھا
اور بہت مطمن اور خوش واپس آگئے۔
مجھے واپس آئے چھ ماہ ہو چکے۔ میں آج بھی اپنی ہر چیز کو اسی حوالے سے
دیکھتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ ہم کتنی دہائیاں اُن سے پیچھے ہیں۔ آج جاپان
کی استعمال شدہ پرانی گاڑیاں بڑی تیزی سے ہمارے ہاں امپورٹ ہو رہی ہیں۔ لوگ
نئی کی نسبت ان پرانی گاڑیوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس لئے کہ وہاں سڑکوں کی
صورت حال اس قدر شاندار ہے کہ پانچ دس سال گاڑی کو فرق ہی نہیں پڑتا۔ لیکن
گاڑی کہیں چھو جائے، کوئی داغ لگ جائے یا معمولی نقص ہو جائے تو وہ فوراً
بیچ دیتے ہیں۔ ہم وہ پرانا مال بہت اچھی قیمت میں خرید لیتے ہیں کہ نئی کی
کسٹم ڈیوٹی ناقابل برداشت ہوتی ہے۔اور وہ پرانی گاڑیاں ہماری نئی گاڑیوں کی
زیادہ مضبوط اور پائیدار ہوتی ہیں۔
جاپان میں یہ صورت حال اس لئے ہے کہ وہاں کے لوگ کچھ غلط برداشت نہیں کرتے۔
کہیں غلط نظر آئے تو فوراً شکایت کرتے ہیں، شور مچاتے ہیں۔ انسانوں کی
پرستش نہیں، اصولوں کی پرستش کرتے ہیں۔ نہ خود اصول توڑتے ہیں، نہ کسی
دوسرے کو توڑنے دیتے ہیں۔ وہاں جمہوریت بھی ہے، بادشاہت بھی۔ جمہوریت
بادشاہت کے سائے میں پنپ رہی ہے۔ وہ بادشاہ کا احترام کرتے ہیں، اس لئے
بادشاہ ان کی جمہوریت کا احترام کرتا ہے۔ وہاں کی بادشاہت جمہوریت کے
استحکام کے لئے کام کرتی ہے۔ بادشاہ اپنے لئے کم اور جمہوریت کے لئے زیادہ
سوچتا ہے۔ پاکستان میں نہ بادشاہت ہے، نہ جمہوریت۔ جمہوریت کے نام پر جو
لوگ منتخب ہوتے ہیں وہ دس صدیوں پہلے کے بدترین بادشاہوں جیسا طرز عمل اپنا
کر عوام کو ان کے حقوق سے محروم رکھے ہوئے ہیں۔ عوام کو شعور آجائے، انہیں
اپنا حق مانگنا آجائے، اپنے حق کے لئے صحیح لوگوں کا انتخاب کرنا آجائے تو
ہی یہاں کے حالات بدل سکتے ہیں۔ ورنہ یہی سڑکیں ہوں گی اور یہی ٹوٹتی
گاڑیاں اور یہی ٹوٹتی پسلیاں۔
تنویر صادق |