اناومیں۔ہمارے اندر رچ بس چکی ہے۔جو ہم ظاہری دکھاوے والی
قربانی کرتے ہیں اس سے زیادہ ہمیں صدق دل سے اپنی انا و میں کو قربان کرنے
کی ضرورت ہے۔اس عید پر اپنی اناو میں کو قربان کرکے دیکھیں کتنا سکون ملے
گا تسکین ہو گی۔اتنی تسکین کبھی بھی ظاہری و نمائشی قربانی سے نہیں پہنچے
گی۔ انا و میں کو ایک طرف رکھ کر خالص اﷲ کی رضا کی خاطر قربانی کر کے
محسوس کیجئے کہ کتنا سکون ملتا ہے کیسی راحت اور کیسی تسکین حاصل ہوتی ہے۔
ذوالحج کا چاند نکلتے ہی مسلمانوں میں بھاگ دوڑ شروع ہو جاتی ہے۔ہر کوئی
اپنی مصروفیات میں مصروف نظر آتا ہے۔کوئی حج کا فریضہ ادا کرنے کے لئے
مصروف اور کوئی قربانی کی تلاش میں مصروف کوئی گھر کے سازو سامان کی خرید
میں مصروف اور کوئی شاپنگ یعنی نئے کپڑوں نئے جوتوں وغیرہ کی خرید میں
مصروف۔سب کی بھاگ دوڑ لگی ہوتی ہے۔سب بہتر سے بہتر بننے کی کوشش میں مصروف
ہوتے ہیں۔قارئین آپ سب جانتے ہیں کہ قربانی حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی سنت
ہے۔اﷲ تعالی کے محبوب پیغمبر نے اﷲ تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنے
اکلوتے پیارے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ اسلام کو بھی قربان گاہ لے گئے۔آنکھوں
پر پٹی باندھے اپنے پیارے اسماعیل کی گردن پر چھری چلانے لگے مگر چھری حضرت
اسماعیل کی گردن پر نہ چل سکی کیوں کہ اﷲ رب العزت کا چھری کو چلنے کاحکم
نہیں تھا۔اﷲ کے نزدیک تقوی افضل ہے۔اﷲ تعالی نے اس چھری کے نیچے آسمانی
دنھبے کو رکھ دیا یوں اسی واقعے پر قربانی کی روایت چلی آرہی ہے۔مسلمان ہر
سال اﷲ تعالی کی رضا کی خاطر جانور قربان کرتے ہیں۔موجودہ دور میں دنیا بھر
میں لاکھوں جانور قربان ہوتے ہیں۔لوگ بڑھ چڑھ کر بڑے جوش و خروش سے جانوروں
کو خریدتے ہیں۔مویشی منڈیوں میں ہر طرف رش ہی رش ہوتا ہے۔ہر جانور اپنی ہی
خوبصورتی میں نظر آتا ہے مالکان ان کی زیب و آرائش پر خصوصی توجہ دیتے ہیں
فن سکھاتے ہیں۔لوگ خصوصی بچے جانوروں کے فن اور خوبصورتی کو دیکھ کر سراہتے
ہیں اور اپنے والدین سے اپنا من پسند جانور خریدنے پر ذور ڈالتے
ہیں۔جانوروں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں جو عام آدمی کی دسترس سے
بالکل باہر۔واقعی غریب اس عید پر ایک عدد مرغ ہی ذبح کریں گے۔یہ بڑھتی ہوئی
قیمتیں امیروں کے لئے تفریح اور غریبوں کے لئے ناسور بن کر رہ گئی ہیں۔میرا
آج کا عنوان قربانی پر اپنی انا کو قربان کر دیں۔جی دوستو یقین مانو واقعی
انا و میں کو قربان کرنے کی اشد ضرورت ہے نہیں تو معاشرہ برباد ہو جائے
گا۔ہمارے وطن اور معاشرے میں انا و میں کی بھینٹ سینکڑوں لوگ چڑھ رہے
ہیں۔ہمارے وطن میں دو گز زمیں پر قتل گاڑی سٹینڈ کی پرچی پر قتل اور متعد
واقعات پر جان کا خاتمہ۔معاشرے کو انا و میں کے خاتمے کی اشد ضرورت ہے۔یہاں
ہر کوئی اپنی انا و میں ہی میں پھنے خاں بنا پھرتا ہے اور دوسروں کو حقیر
جانتا ہے۔لفظ میں اور انا ہر شخص میں رچ بس چکا ہے چاہے وہ چھوٹا ہے بڑا ہے
بوڑھا ہے غریب ہے امیر ہے سیاستدان ہے حکمران ہے مذہبی اسکالر ہے صحافی ہے
پولیس آفیسر ہے حتی کہ ہر کسی میں مالک ہو یا ملازم کوئی شرط نہیں میں و
انا سب میں موجود ہے۔یہ میں و انا تو عرصہ سے ہی چلی آرہی ہے۔مگر گزشتہ کچھ
عرصہ سے میں و انا پر قتل و غارت جیسے بیانک واقعات میرے دل و دماغ پر گہرا
اثر چھوڑ رہے تھے سوچا تھا کبھی موقع ملا تو ضرور لکھوں گا۔کل سوسائٹی میں
بچوں کو قربانی کے بکروں سے کھیلتے ہوئے دیکھا تو انکی طرف متوجہ ہو گیا
اچانک بچے کھیلتے کھیلتے اس بحث میں لگ گئے کہ میرا بکرا بڑا ہے نہیں
میرا۔میرا بکرا زیادہ خوبصورت ہے نہیں میرا۔چھوٹے چھوٹے قریب پانچویں جماعت
کے طالب علم اچانک بحث بحث میں اوقات اور ذات پر آن پہنچے۔تمہاری اتنی
اوقات نہیں کے تم اچھا بکرا خرید سکو۔میں بڑا حیران ہوا کہ چھوٹے چھوٹے ننے
منے بچے اور اتنی زیادہ اکڑ اور انا ۔بیٹھے بٹھائے مجھے میرا عنوان مل
گیا۔قربانی کا موسم ہے سوچا قربانی سے ہی منصوب کر دوں۔دوستو سچے دل سے
سوچئے گا کہ ہماری قربانی اﷲ کے نزدیک قابل قبول ہے یا نہیں۔یہ اﷲ رب العزت
پر ہے کہ وہ ہماری قربانی قبول کرے یا نا کرے مگر ہم بھی کوئی کسر نہیں
چھوڑتے ناقابل قبول بنانے کے لئے۔قربانی کا اصل مقصد اﷲ تعالی کی رضا اور
تقوی ہے۔مگر ہم لوگ دکھاوے کے لئے اپنی انا کو اونچا کرنے کے لئے قربانی
خریدتے ہیں۔کبھی دل سے اﷲ کی رضا اور سنت ابراہیم کے لئے نہیں سوچا۔بس یہ
سوچتے ہیں شیخ صاحب نے اونٹ لیا ہے تو ہم کیوں پیچھے رہیں فلاں نے دس لاکھ
کا جانور خریدا ہم اس سے کم تو نہیں۔قربانی کو بھی انا اور دکھاوے کے کھیل
میں نمائش بنا کر رکھ دیا ہے۔اﷲ نے غریبوں سے ہمدردی کے لئے قربانی جیسا
فریضہ انجام دینے پر نیکیاں رکھی ہیں نا کہ ظاہری نمائش اور انا بڑھانے کے
لئے۔لاکھوں کے جانور خرید کر بھی اﷲ کی رضا نہ حاصل کر سکو تو اس قربانی کا
کوئی فائدہ نہیں۔افسوس کہ ہمارے ہاں اس مقدس قربانی جیسے فریضے میں بھی
ظاہری انا اور دکھاوہ ہر سال سر فہرست ہوتا ہے۔حج میں بھی اکثر لوگ انا و
دکھاوے کو سرفہرست رکھتے ہیں۔جس کی مثال سوشل میڈیا پر ویڈیوز اور سیلفیاں
ہیں۔انا پرستی کی ایک اور مثال سنو بھائی ہم قربانی تو کرلیتے ہیں مگر گوشت
غریبوں کی بجائے اپنے حریفوں اور رشتہ داروں ہمساؤں کو بھیجتے ہیں تاکہ
انہیں پتہ چل سکے کہ اونٹ کا کیسا ذائقہ ہے حتی کے انہوں نے بھی قربانی کی
ہوتی ہے۔اگر کوئی غریبوں میں تقسیم کر بھی دے تو اچھا گوشت علیحدہ اور
ہڈیاں غریبوں میں تقسیم۔قربانی کر کے اپنے ہی فریج و فریزر بھرنا ایسا ہی
ہے جیسے بازار سے گوشت خرید کر لائے چاہے وہ کھوتے کا ہے یا کسی بھی جانور
کا۔دوستو بات انا کی ہے۔انا ومیں ہمارے معاشرے میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے
جس کو کبھی دوبارہ تفصیل سے ضرور لکھوں گا۔مفتیان کرام سے گزارش ہے کہ
روشنی ڈالیں کیا آپس میں ہی بار بار گوشت بانٹنا جائز ہے؟سب دوستوں سے
گزارش ہے کہ اگر اﷲ نے عطا کیا ہے تو اپنی انا اور دکھاوے کو پرے رکھ کر
حقیقی قربانی کے جذبے سے گوشت غرباء میں تقسیم کریں اور عید کے موقع پر ہو
سکے تو کسی کی مالی امداد بھی کر دیں۔کھالیں بھی حقیقی حقدار اداروں کے پاس
پہنچنی چاہیے۔ملک کے حکومتی اداروں اور تمام سیاسی اداروں سے گزارش ہے کہ
خدارا اس عید پر اپنی انا و میں کو قربان کردیں تاکہ ملک پاکستان بھی اس
انا و میں کی لڑائی سے باہر آئے اور ترقی کی راہ پر گامزن رہے۔جو سچے دل سے
اپنی انا ومیں کو قربان کرنے کی کوشش کرے گا اﷲ اسے شاید قربانی سے بھی
زیادہ اجر عطا کر دے۔یہ بھی ایک بڑی قربانی ہوگی۔قادری صاحب کے امن کے حق
میں بیان پر بڑی خوشی محسوس ہوئی کسی کے گھر کا محاسبہ درست نہیں۔آخر میں
سب دوستوں کو دلی عید مبارک۔خوش و آباد رہیں۔ |