ملک بھر کے بلدیاتی ادارے عید قرباں کے بعد
آلائشیں اٹھانے کا کام کرتے ہیں لیکن ہر سال اس عمل میں تاخیر کی وجہ سے
عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ لاہور میں گزشتہ برس بھی دیگر شہروں
کے مقابلے میں بلدیاتی اداروں کی کارکردگی بہتر تھی لیکن لاہورکے علاوہ
پنجاب کے دیگر شہروں میں عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا تاہم
مجموعی طور پر پنجاب کے حالات سندھ کے شہروں کے مقابلے میں بہت بہتر تھے۔
سندھ کے شہری علاقوں میں خاص طور پر کراچی میں بلدیاتی اداروں کی کارکاردگی
پہلے ہی ناقص بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے، اس برس دیکھتے ہیں کہ میئر اور
ڈپٹی میئر کے آنے کے بعد کیا تبدیلی آتی ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے کراچی او ر
حیدرآباد کی گلیوں کا اب یہ معمول ہے کہ قربانی کے بعد گلیوں اور سڑکوں پر
قربانی کے جانوروں کی الائشیں بکھری پڑی رہتی ہیں جس کی وجہ سے شدید تعفن
اٹھتا ہے اور اکثر اوقات تعفن نا قابل برداشت ہونے کی وجہ سے اس سے دم
گھٹنے لگتا ہے جبکہ دوسری طرف ان آلائشوں سے طرح طرح کی بیماریاں پھیلنے کا
خدشہ بھی ہوتا ہے۔ سندھ سمیت ملک بھر کے بلدیاتی الیکشن کے بعد اس برس صورت
حال میں بہتری کی امید کی جارہی ہے لیکن کراچی کی صورت حال بہت مختلف ہے کہ
یہاں کے منتخب میئر صاحب جیل میں ہیں جبکہ ڈپٹی میئر ارشد وہرہ صاحب کی
ترجیحات میں عید قرباں کے بعد شہر کی صفائی ستھرائی ہے یا پھر وہ اپنا وقت
حادثے میں زخمی ہونے والے ڈاکٹر فاروق ستار کی تیمار داری میں گزاریں
گے۔کراچی و حیدرآباد سمیت سندھ بھر کے بلدیاتی اداروں کو پہلے ہی کوئی خاص
اختیارات حاصل نہیں ہیں اور اس پر طرہ یہ کہ کراچی کے میئر وسیم اختر جیل
میں بیٹھ کر صورت حال کو کنٹرول کرنے کی محض خواہش کر سکتے ہیں جبکہ ڈپٹی
میئر ارشدوہرہ باہر رہ کر صورت حال کنٹرول کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں لیکن
بے اختیاری کے عالم میں وہ اپنی کوشش میں کس حد تک کامیاب ہونگے اس کا
فیصلہ آنے والے دو تین دن کر دیں گے۔سندھ حکومت اور بلدیاتی اداروں کے نو
منتخب میئر ، ڈپٹی میئر کے درمیان اختیارات کے حوالے سے پہلے ہی تناؤ موجود
ہے اب اگر کراچی کے ڈپٹی میئر نے کوئی کارکردگی دکھانے کی کوشش بھی کی تو
کیا ان کے ساتھ تعاون کیا جائے گا یا محض یہ پیغام پہنچانے کے لئے کہ ایم
کیوایم کا ڈپٹی میئر اور دیگر منتخب نمائندے اپنے علاقے میں صفائی ستھرائی
کرنے میں ناکام رہے، پیپلزپارٹی کی حکومت ہر سیاسی پتا کھیلنے کی کوشش کرے
گی۔ پیپلزپارٹی نے ایم کیو ایم کے مقابلے میں حال ہی میں پی ایس 127میں
کامیابی حاصل کی ہے اوریہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اب کراچی پیپلزپارٹی
کا ہے تاہم ایم کیوایم نے پیپلزپارٹی کی اس کامیابی کو عدالت میں چیلنج کر
دیا ہے۔ اس تناظر میں ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے درمیان شدید تناؤ
موجود ہے۔ دوسری طرف اس بر س ایم کیوایم کی طر ف سے قربانی کی کھالیں جمع
نہ کرنے کا اعلان بھی کیا گیاہے جس سے ایم کیو ایم کو مالی طور کروڑوں روپے
کے نقصان کا سامنا ہے۔ ایسی صورت حال میں ایم کیو ایم کے نو منتخب بلدیاتی
نمائندے کراچی و حیدرآباد سمیت سندھ کے شہری علاقوں کے عوام کی خدمت کا ہدف
کیسے پورا کرسکیں گے اور قربانی کی بعد آلائشیں اٹھواکر ٹھکانے لگوانے میں
اپنا کیا کردار ادا کر سکیں گے کہ جب ان کے پاس کوئی خاص اختیارات بھی نہیں
۔لیکن سیاسی اعتبار سے ایم کیو ایم کو اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے بہر حال
آگے آنا ہو گا اور شہر یوں کو آلائشوں کی وجہ سے پیش آنے والی ممکنہ اذیت
سے بچانے کے لئے ہر ممکن اقدامات اٹھانے ہونگے بصورت دیگر ایم کیو ایم کو
سیاسی اعتبار سے بہت زیادہ نقصان پہنچنے کے خدشات موجود رہیں گے۔ آلائشوں
کے حوالے سے ایک اہم ترین بات یہ بھی ہے کہ شہریوں کو اس حوالے سے خود بھی
کوئی کردار ادا کرنا ہو گ اور مہذب ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے جگہ جگہ آلائشیں
پھیلانے سے گریز کرنا ہوا گا ورنہ خو دان ہی کو شدید مشکلات در پیش ہو سکتی
ہیں۔ |