مسلم امہ میں مثالی اتفاق و اتحاد کی ضرورت
(Rana Aijaz Hussain, Multan)
گذشتہ دنوں خطبہ حج دیتے ہوئے امام
کعبہ ڈاکٹر شیخ عبدالرحمٰن السدیس نے کہا کہ اسلام میں دہشت گردی کو حرام
قرار دیا گیا ہے ، دہشت گرد امت مسلمہ کو کمزور کرنے کی کوشش کررہے ہیں،
دہشت گردوں نے نوجوانوں کو ورغلا کر قتل اور فساد کی راہ پر ڈال دیا، زمین
پر فساد پھیلانے والوں کو ان کے انجام تک پہنچایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ
دہشت گردی کو کسی قوم یا دین سے نہیں جوڑا جاسکتا، دہشت گردی کا اسلام سے
کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے مسلمان ممالک کے حاکموں سے بھی کہا کہ امت آج
مشکل دور سے گزر رہی ہے ، امت مسلمہ کو چاہئے کہ وہ چیلنجز سے نمٹنے کیلئے
باہمی اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کرے۔ امت مسلمہ دوسروں کی طرف دیکھنے کی
بجائے متحد ہو کر مسائل کا حل تلاش کرے اورتمام معاملات اپنے ہاتھوں میں
رکھے۔ مسلم حکمران جان لیں وہ عوام کے ساتھ انصاف، انصاف، انصاف کریں، مسلم
حکمرانوں پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کے مسائل حل کریں
،ظلم کا خاتمہ کریں، اور عوام سے انصاف کریں ۔ انہوں نے مسلم امہ کے
نوجوانوں سے کہا کہ نوجوانان اسلام فتنے ،شدت پسندی اور دہشت گردی سے بچیں
اور گمراہ کن گروہوں کے خلاف سینہ سپر ہوجائیں،امام کعبہ نے کہا کہ علماء
انبیا ء کے وارثین ہیں،تمام عالم اسلام کے علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ تشدد
سے روکیں، اور قوم کو صراط مستقیم پر چلانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔
امت مسلمہ جذبہ اخوت کو مضبوط بنائے، اسلام کی تمام تعلیمات انصاف اور عدل
پر مبنی ہیں، اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ہی کامیابی حاصل کی جاسکتی
ہے۔ ‘‘
بے شک امام کعبہ نے بالکل درست فرمایا ،باہمی اختلافات کے باعث آج مسلمانوں
ملکوں غیر مسلموں کے زیر عتاب، زیر تسلط ہیں۔ حالانکہ پوری دنیا میں مسلمان
سب سے زیادہ ہیں ۔ دنیا کے 192 ممالک میں سے 58 ممالک مسلمان ہیں۔ چھ ارب
کے قریب انسانوں میں سے تقریباً ڈیڑھ ارب کے قریب مسلمان ہیں اور دنیا کے
معدنی ذخائر میں 75 فیصد کے مالک ہیں۔ اگر ان کے پاس کچھ نہیں ہے تو دور
اندیش، نڈر اور بہادر قیادت نہیں ہے۔ اگر نہیں ہے تو باہمی اتحاد نہیں ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کو پست اور منقسم کرنے میں چند عالمی
طاقتوں کی سامراجی ذہنیت ، چالبازیاں، اور پوری دنیا پر حکمرانی کا خواب
ہے، مگر اس سے بڑھ کر عالم اسلام اور مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق کا فقدان
اور اختلافات کا ناسور ہے۔ ایک طرف سامراج اور اس کے پالیسی ساز ادارے عالم
اسلام کو کسی صورت متحد نہیں دیکھنا چاہتے۔ وہ ایک ایجنڈے کے تحت عالم
اسلام کو تقسیم در تقسیم کرتے چلے آرہے ہیں۔دوسری طرف مسلمانوں کا آپس کا
اختلاف ہے ۔ عالم اسلام کے ممالک اور ان کے حکمرانوں میں اتحاد نہ ہونے کے
برابر ہے۔ کسی بھی ملک کی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی حریف ہیں ۔حزب اقتدار
اور اختلاف میں ذاتی دشمنیاں اور عناد ہیں۔ دینی اور مذہبی جماعتوں ،
اداروں اور رہنماؤں میں اتنا اختلاف ہے کہ بغیر کسی دلیل کے ایک دوسرے کو
مفافق ، ملحد اور ایجنٹ ہونے کے القاب دیتے ہیں۔صوبائیت ، لسانیت، قومیت
اور وطنیت کے جھگڑے ہیں۔مسلمان ہی مسلمان کا ہی گلا کاٹنے سے دریغ نہیں
کرتا۔ سازشی عناصر ان حالات اور کمزوریوں سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔ آج مسلمان
ملکوں میں خودکش حملے ہورہے ہیں، مسلمان دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں اور
مسلمانوں پر ہی دہشت گرد ہونے کے الزامات لگائے جارہے ہیں ۔ حالانکہ ایک اﷲ
، ایک نبیؐ اور ایک قرآن کو ماننے والے ایک دوسرے کے جانی اور ازلی دشمن
کیسے ہوسکتے ہیں۔اسلامی تعلیمات میں سب سے زیادہ زور اتفاق و اتحاد پر دیا
گیا ہے۔ آپس میں محبت ،اخوت، بھائی چارہ، ایمان واتحاداور یقین مسلمانوں کا
موٹو ہوتا ہے۔آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے حجتہ الوداع میں حکم فرمایا تھا ’’
دیکھو ! باہمی اختلاف میں نہ پڑنا۔‘‘ قرآن کریم میں اﷲ رب العزت کا حکم ہے
’’ ولاتفرقوا‘‘ ’’اختلاف ہرگز ہرگز نہ کرو۔‘‘ تاریخ اٹھا کر دیکھیں اختلاف
ہی کی وجہ سے قوموں اور ملکوں کو بڑے بڑے نقصان اٹھانا پڑے ہیں۔ اختلاف ہی
کی وجہ سے مسلمان ممالک پستی اور ذلت کا شکار ہیں۔ غربت، مہنگائی، بدامنی،
لاقانونیت ، بے روز گاری، جہالت، انتقام، لوٹ مار، ڈاکے، اغوا، قتل و غارت
جیسے موذی امراض مسلمانوں میں باہمی اختلافات ہی کا نتیجہ ہیں۔
آج امت مسلمہ میں مثالی اتفاق اور اتحاد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، ہم 58
اسلامی ممالک ہیں۔ ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان ہیں۔ ہم بہت طاقتور ہوسکتے ہیں،
بشرطیہ اختلاف کے ناسور سے نکل آئیں۔یہ وقت متحد ہوکر عالم اسلام کے خلاف
سازشیں کرنے والوں کو بے نقاب کرنے اور ان سے نجات پانے کی کوشش کرنے کاہے
، جو کہ تمام مسلم ممالک کے اتحاد و اتفاق کے بغیر ناممکن ہے۔ امام کعبہ نے
مسلمان ملکوں کے حاکموں پر زور دے کر کہا کہ امت آج مشکل دور سے گزر رہی ہے
، امت مسلمہ کو چاہئے کہ وہ چیلنجز سے نمٹنے کیلئے باہمی اتحاد اور یکجہتی
کا مظاہرہ کرے۔ امت مسلمہ دوسروں کی طرف دیکھنے کی بجائے متحد ہو کر مسائل
کا حل تلاش کرے اورتمام معاملات اپنے ہاتھوں میں رکھے۔مسلم حکمران جان لیں
وہ عوام کے ساتھ انصاف، انصاف، انصاف کریں۔
امام کعبہ نے مسلم امہ کے نوجوانوں سے بھی کہا کہ نوجوانان اسلام فتنے ،شدت
پسندی اور دہشت گردی سے بچیں اور گمراہ کن گروہوں کے خلاف سینہ سپر
ہوجائیں‘‘ یہ ایک حقیقت ہے کہ امت مسلمہ کے افراد میں نصف سے زائد تعداد
نوجوانوں پر مشتمل ہے ، اگر مسلمان نوجوان اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے
ہوئے بیدار ہوجائیں تو کوئی کفریہ قوت مسلمانوں کو ترقی سے نہیں روک سکتی ۔
امام کعبہ نے کہا کہ علماء انبیا ء کے وارثین ہیں،تمام عالم اسلام کے علماء
کی ذمہ داری ہے کہ وہ تشدد سے روکیں، اور قوم کو صراط مستقیم پر چلانے کے
لئے اپنا کردار ادا کریں۔ امت مسلمہ جذبہ اخوت کو مضبوط بنائے ‘‘ بلاشبہ
مسلم امہ کو متحد کرنے میں علماء کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے ، اگر
علمائے کرام فرقہ وارانہ، گروہی و لسانی تعصبات کو بالائے طاق رکھ کر امت
مسلمہ کے قلوب کو اسلام کی روشن تعلیمات اور قرآنی احکامات کی پر نور روشنی
سے منور کرنے اورمسلمانوں میں اتحاد ، اتفاق اور باہمی خیر خواہی کا جزبہ
پیدا کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں تو پوری مسلمان قوم ایک جسم و جان کی
مانند متحد ہوسکتی ہے ۔آج امت مسلمہ کو اغیار کی اندھی تقلید سے نکال کر
اسلام کی راہ پر گامزن کرنا انتہائی ضروری ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ
اسلام کی تمام تعلیمات انصاف اور عدل پر مبنی ہیں، اسلامی تعلیمات پر عمل
پیرا ہو کر ہی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ‘‘ کاش !آج عالم اسلام امام کعبہ
کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے مکمل یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے متحد ہوجائیں،
بلاشبہ اتفاق و اتحاد میں ہی تمام عالم اسلام کی فلاح و کامیابی کا راز
مضمر ہے۔ |
|