ملک بھر میں عید قرباں روایتی جوش و جذبے کے ساتھ منائی گئی
(عابد محمود عزام, Lahore)
ملک بھر میں لوگوں نے عید قرباں کو انتہائی
عقیدت و احترام سے گزارا اور سنت ابراہیمی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنے
محبوب جانوروں کی راہ خدا میں قربانیاں کیں۔ پاکستان کی مساجد میں نماز عید
الاضحی کے بڑے بڑے اجتماعات منعقد کیے گئے۔ان اجتماعات میں مسلمانوں نے
اتحاد، ترقی و خوشحالی اور پاکستان کی سالمیت سمیت پوری دنیا کے لیے امن
وآشتی کی دعاؤں کے ساتھ اسلام کے فروغ اور سر بلندی کی دعائیں کیں۔ عید کے
خطبات میں علمائے کرام نے قربانی کے فلسفے پر روشنی ڈالی اور مسلمانوں کے
درمیان نفاق کو عالم اسلام کو درپیش مسائل کی بڑی وجہ قرار دیا۔ علمائے
کرام نے عالم اسلام کے اتحاد پر درس دیتے ہوئے اپنی صفوں میں موجود خوارج
پر کڑی نظررکھنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ عید کے اجتماعات میں ملک میں
قیام امن ، شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی کامیابی، نقل مکانی کرنے
والے متاثرین کی بحالی، فلسطین اور کشمیر کی جلد آزادی کے لیے خصوصی دعائیں
مانگی گئیں۔ اسلام آباد میں عید کا سب سے بڑا اجتماع فیصل مسجد میں ہوا،
جہاں غیر ملکی سفارت کاروں، سرکاری افسروں اور شہریوں کی بڑی تعداد نے نماز
عید ادا کی۔ دیگر بڑے اجتماعات، لال مسجد اورگولڑہ شریف میں بھی ہوئے۔
راولپنڈی میں عید کی نماز کا سب سے بڑا اجتماع مرکزی عید گاہ میں ہوا۔ شہر
قائد میں پانچ ہزار سے زائد مساجد،، عید گاہوں اور کھلے مقامات پر عید
الضحی کی نماز کے اجتماعات ہوئے۔ ملک بھر کی طرح پشاور سمیت خیبر پختونخوا
کے بیشتر علاقوں میں عید کے سیکڑوں اجتماعات ہوئے۔ مظفر آباد میں اور آزاد
کشمیر کے دیگر شہروں میرپور، کوٹلی، راولاکوٹ، باغ، نیلم اور ہیٹاں بالا
میں بھی لوگوں نے سیکڑوں مقامات پر نماز عید پڑھی۔ کوئٹہ سمیت بلوچستان میں
عید الاضحیٰ مذہبی جوش وجذبے سے منائی گئی۔ کوئٹہ میں عید نماز عید طوغی
روڈ، صادق شہید فٹ بال گراؤنڈ، سائنس کالج ریلوے ہاکی گراؤنڈ سمیت 165
مقامات پر پڑھائی گئی جس میں لاکھوں فرزندان توحید نے شرکت کی۔ حکومت نے
نماز عید کے چھوٹے بڑے اجتماعات میں کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے
لیے سیکورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے ہوئے تھے۔ پولیس اور قانون نافذ
کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی اضافی نفری حساس مقامات کے علاوہ مساجد
اور عیدگاہوں کے باہر تعنیات رہی۔ عید کے روز صوبہ سندھ کے ضلع شکار پور کی
پولیس نے عید الاضحیٰ کی نماز کے دوران امام بارگاہ پر خودکش حملے کی کوشش
کو ناکام بنا دیا۔
حکومت نے اس بار عید کے تیسرے روز کی چھٹی نہیں کی، جس پرطلباوطالبات، ان
کے والدین، اساتذہ اور تعلیمی اداروں کے سربراہان نے تنقید کی اور اسے
حکومت کا غلط فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ عیدالاضحیٰ کے تیسرے روز بھی
قربانی کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب عید کے تیسرے دن پاکستان بھر میں
تعطیلات ختم ہوئیں تو تعلیمی اداروں، دفاتر، بینک، عدالتوں، بیشتر سرکاری
یونیورسٹیوں، کالجوں اور سکولوں میں حاضری بہت کم رہی،جبکہ پرائیویٹ تعلیمی
ادارے تقریبا 80 فیصد بند رہے۔ عیدالاضحی سال کی سب سے بڑی معاشی سرگرمی کا
باعث بن گئی۔ ملک بھر میں سنت ابراہیمی کی پیروی اور رضائے الہٰی کے لیے
عوام نے تقریباً 425 ارب روپے خرچ کیے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں
بھر میں اس سال عید کے موقع پر ایک کروڑ 25 لاکھ جانوروں کو اﷲ کی راہ میں
قربان کیا گیا ہے۔ 26 لاکھ گائے، بیل خریدے گئے جن کی کل مالیت تقریباً 182
ارب روپے بنتی ہے، اسی طرح 40 لاکھ بکروں کی خریداری بھی تقریباً 100 ارب
روپے میں ہوئی۔ 8 لاکھ دنبے خریدنے پر عوام نے 16 ارب خرچ کیے، جبکہ ایک
لاکھ اوسط قیمت کے مطابق 3 ہزار اونٹ 30 کروڑ روپے میں خریدے گئے۔ قصابوں
نے صرف گائے بیل کی قربانی پر 7 ارب 20 کروڑ سے زیادہ کمائے، 8 لاکھ دنبوں
پر 8 کروڑ اور اونٹ نہر کرنے پر 20 ہزار کے حساب سے 60 کروڑ کا خرچہ آیا۔
مجموعی طور پر قصاب 23 ارب 40 کروڑ کما گئے۔ گائے بکروں کو منڈی سے لانے پر
5 ارب تو کرایہ ہی پڑگیا، چارے کا خرچہ پونے 4 ارب بنتا ہے۔ کوئلہ، سیخیں،
چٹائیاں، ٹوکری اور دیگر اخراجات لگائیں تو صفر بڑھتے ہی چلے جائیں گے۔ بہت
سے لوگوں نے بکرے کی قربانی کرنے کی بجائے صرف بڑی قربانی میں حصہ لینے پر
ہی اکتفا کیا ہے۔بہت سے شہریوں کا کہنا تھا کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عید
کی خوشیوں کو گہنا کر رکھ دیا ہے۔ عید تو خوشیوں کا تہوار ہے، لیکن انہیں
اصل خوشی تب ہو گی جب ملک کے اندرونی حالات بہتر ہوں گے، مہنگائی ختم ہوگی
اور سارے ہم وطن عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں گے۔ ایک افسوس ناک یہ بات
سامنے آئی کہ پاکستان کے اکثر علاقوں میں جگہ جگہ آلائشوں کے ڈھیرلگ
گئے۔اگرچہ بہت سے علاقوں میں حکومت کی جانب سے صفائی کا کافی بہتر انتظام
کیا گیا، لیکن لوگوں نے اپنی سطح پرجانوروں کی قربانی کرتے وقت صفائی کا
خاص انتظام نہیں کیا۔ قربانی کے جانور کا خون چھوٹے محلوں ،گلیوں اور بڑی
سوسائٹیوں میں لان اور گیراج میں بہا دیاگیا، شام ڈھلنے تک اتنی بدبو پھیل
چکی تھی کہ ہر گلی ایک بہت بڑے مذبح خانے کا منظر پیش کرتی رہی۔حالانکہ اگر
قربانی سے پہلے مٹی میں گڑھا کھود کر اس میں قربانی کا خون دبا دیا جائے تو
نا صرف بو سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے، بلکہ مختلف النوع حشرات اور
اڑنے والے مچھر مکھیوں کا بندوبست بھی کیا جا سکتا ہے۔اسی طرح جانوروں کے
اندرونی اعضاء خالی پلاٹوں میں پھینک دیے گئے، جو جگہ جگہ آوارہ کتے بلیوں
کو دعوت عام دیتے رہے۔حکومت کی جانب سے اگرچہ ان کو ٹھکانے لگانے کا
بندوبست بھی کیا جاتا ہے، لیکن ایک طرف محدود عملہ اور وسائل کے ساتھ نمٹنا
آسان کام نہیں ہے۔جب تک ہر شخص خود صفائی کا بندوبست نہ کرے اس وقت تک بہتر
انتظام نہیں کیا جاسکتا۔
قربانی کرنے کے ساتھ ہی ملک بھر میں مختلف کھانے پکانے کا سلسلہ شروع
ہوگیا۔قربانی کے گوشت سے مختلف اقسام کے چٹ پٹے کھانے بنانے کا رواج گھروں
میں تو عام ہے جہاں خواتین کھانوں کی تیاری کے لیے کچن میں جت جاتی ہیں،
مگر اس سال ہوٹلوں اورپکوانوں کی دکانوں سے بھی ذائقے دار کھانے آرڈر
پرتیار کرنے کے رجحان میں اضافہ دیکھنے میں آیاہے۔ مشہور فوڈ اسٹریٹ پر عید
ِقرباں کے گوشت سے پکوان تیار کرکے دینے کا اہتمام کیا جاتا رہا۔ جہاں
شہریوں کی بڑی تعداد اپنے گھر سے قربانی کا گوشت لاکر کھانے تیار کرنے کے
آرڈر بک کرواتی رہی۔ مشہور فوڈ اسٹریٹ پرعید ِقرباں کے موقع پر قربانی کے
گوشت سے مختلف انواع و اقسام کے پکوان تیار کرکے دیے گئے ، جس میں سیخ
کباب، گولا کباب، ہنٹر بیف، ملائی بوٹی، تکے، کٹاکٹ، سجی اور دیگر چٹ پٹے
کھانے شامل ہیں۔ آرڈر پر کھانے تیار کروانے کے لیے آئے ایک شہری کا کہنا
تھا کہ گھروں میں تیار کیے ہوئے پکوانوں میں وہ روایتی ذائقے کی کمی رہتی
ہے جس کے باعث وہ ہوٹلوں اور مختلف پکوان تیار کرنے والوں کا رخ کرتے ہیں،
جہاں گوشت دیکر بنے بنائے پکوان مل جاتے ہیں۔ اگر بڑے پیمانے پر دعوتوں کا
اہتمام کرنا ہو تو یہ طریقہ بہت اچھا ہے کہ باہر سے کھانے بنوالیے جائیں۔
عید پر کھانے میں بے اعتدالی کی وجہ سے ملک میں 6 ہزار سے زاید افراد
ہسپتال پہنچ گئے۔ ملتان800، مظفرگڑھ15، کراچی3500، پشاور1500، حافظ آباد
میں 130افراد پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا ہوئے۔ کروڑ میں گھر کے 8 افراد
بیہوش ہو گئے۔ ملتان میں عید ٹرواور مرو کے دوران کھانے پینے میں بے
اعتدالی کے باعث پیٹ کے امراض، گیسڑو اور آنتوں کی سوزش کے 800 سے زاید
مریض سرکاری ہسپتالوں میں رپورٹ ہوئے، جس پر انہیں طبی امداد فراہم کی گئی۔
نشتر ہسپتال، چلڈرن کمپلیکس سول ہسپتال، فاطمہ جناح خواتین ہسپتال، شہباز
شریف جنرل ہسپتال میں ان مریضوں نے رجوع کیا۔ پشاور میں عید کے دو دنوں میں
ڈیڑھ ہزار سے زائد افراد لیڈی ریڈنگ ہسپتال لائے گئے ، زیادہ گوشت کھانے کی
وجہ سے پیٹ اور معدے نے جواب دے دیا۔ ہسپتال ذرائع کے مطابق زیارہ تر
مریضوں کو فوڈ پوائزننگ، پیٹ خراب ہونے، تیزابیت اور قے کی شکایات زیادہ
ہیں۔ بیشتر مریضوں کو طبی امداد فراہم کرنے کے بعد ہسپتال سے فارع کردیا
گیا۔ حافظ آباد میں زیادہ گوشت کھانے سے130 سے زائد افراد کی حالت خراب
ہوگئی، ہسپتال لائے گئے افرادپیٹ، معدہ اور اسہال کے امراض میں مبتلا ہیں۔
عید کے موقع پر خوب پکوان اڑانے پر ساڑھے تین ہزار کراچی والے بھی ہسپتال
پہنچ گئے۔ اس کے ساتھ ملک بھر میں قربانی کرنے والے اکثر افراد نے قربانی
کا گوشت کئی دنوں کے لیے محفوظ کرلیا۔ بہت سے غربا کو عید کے تینوں دنوں
میں گوشت کا ایک ٹکڑا بھی نہیں ملا۔ اطلاعات کے مطابق عید الاضحی کے موقع
پر قربانی کے گوشت کو محفوظ رکھنے کے لیے ڈیپ فریزر اور یفریجریٹر کی فروخت
میں عام دنوں کی نسبت اضافہ دیکھاگیا۔۔تاجروں کا کہنا تھا کہ عید پر زیادہ
تر مائیکروویو اوون، الیکٹرانک گرل، جوسر بلینڈرز، چوپرز ، ڈیپ فریزرز اور
ریفریجریٹرز فروخت کیے جاتے ہیں، اس سال بھی یہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں ظالم بھارتی فوج کو عید کے دن بھی کشمیریوں پر
رحم نہ آیا۔ وادی میں عید کے دنوں میں بھی کرفیو نافذ رہا۔مقبوضہ کشمیر میں
کشمیریوں کی عید کی خوشیاں بھی چھین لی گئیں۔ ظالم بھارتی فوج نے عید کی
نماز بھی ادا نہ کرنے دی گئی۔ جامع مسجد اور دیگر مقامات سمیت مختلف مقامات
میں عید کی نماز پر پابندی لگائی گئی۔ دس اضلاع میں کرفیو کے باعث عید کے
اجتماعات نہ ہوسکے۔ پہلی مرتبہ سرینگر میں واقع تاریخی جامع مسجد میں نماز
عید ادا نہیں کی گئی۔ یہ مسجد تقریباً دو صدیاں پرانی ہے۔ گزشتہ مرتبہ اس
جامع مسجد کو 1821ء میں بند کردیا گیا تھا۔ اسی طرح جموں کشمیر کے عیدگاہوں
میں بھی نماز عید ادا نہیں کی گئی، کیونکہ سیکورٹی فورس نے سخت اقدامات کیے
تھے اور عیدگاہوں میں نماز کی اجازت نہیں دی، البتہ درگاہ حضرت بَل پر جزوی
طور پر مسلمانوں کو نماز پڑھنے کی اجازت دی۔ یہ پہلا موقع ہے کہ وادی کشمیر
میں کرفیو کے دوران عیدالاضحی منائی گئی۔ 1990ء میں وادی کشمیر میں دہشت
گردی کے واقعات رونما ہونے کے بعد سے یہاں پہلی بار نماز عید کے لیے سخت
پریشانیاں پیش آئیں۔ وادی میں ہیلی کاپٹر اور ڈرون سے علاقے کی نگرانی کی
گئی، جبکہ کشمیری شہری عید کے روز بھی گھروں میں محصور رہے۔ عید کے موقع پر
کشمیر بھر میں انتہائی سخت کرفیو نافذ رہا اور زندگی مکمل طور پر مفلوج ہو
کر رہ گئی۔ کشمیر میں دکانیں، مارکیٹیں، کاروبار، بینک، نجی اور سرکاری
دفاتر، کلینکس، سکول، کالج ، تمام تعلیمی اور تربیتی ادارے، حتی کہ مساجد
اور امام بارگاہیں، موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس بھی بند اور معمولاتِ
زندگی گزشتہ دو ماہ سے زیادہ عرصے سے معطل ہیں۔ کشمیر میں آٹھ جولائی کے
بعد سے جاری تحریک میں بھارتی مظالم کے نتیجے میں شہید ہونے والوں کی تعداد
تقریبا 100 ہو گئی ہے، جبکہ ایک اندازے کے مطابق اب تک گیارہ ہزار سے زیادہ
لوگ زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے اکثریت ایسے نوجوانوں کی ہی جو چھرے لگنے سے
جزوی یا مکمل طور پر اپنی بینائی کھو بیٹھے ہیں۔ |
|