اسلام اک عالمگیر دین ہے جو
تاقیامت رہتی دنیا کے لیے دستور حیات پیش کرتا ہے جو ایک طرف تو اخروی
زندگی کی کامیابی کے گر بتاتا ہے اور دوسری طرف دنیاوی زندگی کے ہر شعبے کے
متعلق راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں انسان کی روحانی اور
اخلاقی ضروریات کے ساتھ مادی ضروریات کے سلسلے میں بھی ہدایت ملتی ہے۔
انسانی نسل کی افزائش اور انسانوں کے باہمی تعلقات کا انحصار مردو عورت کے
باہمی تعلق پر ہے اور جس قدر یہ تعلق منظم اور مضبوط ہوگا اتنا ہی معاشرہ
پرامن ہوگا۔ جب اسلام کا آفتاب طلوع ہوا تو انسانی زندگی کے دیگر شعبوں کی
طرح اس شعبے کی حالت بھی ناگفتہ تھی۔ ایک مرد کی کئی بیویاں اور ایک عورت
کے متعدد شوہر ہوتے تھے۔ اسلام نے جہاں دیگر شعبوں میں اصلاحات کیں وہاں اس
شعبے کو بھی منظم کیا، عورت کو ایک سے زیادہ خاوند رکھنے سے منع کیا اور
مردوں کے لیے بیویوں کی تعداد مقرر کی اور تعدد ازواج کی صورت میں عدل
وانصاف کو لاز م قرار دیا۔
ارشاد باری ہے "وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتٰمٰى
فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ مَثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ
ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً " (نساء )
اور اگر تمہیں اندیشہ ہو اس بات کا کہ تم انصاف نہیں کر سکو گے یتیموں کے
بارے میں، تو تم نکاح کر لیا کرو ان دوسری عورتوں سے جو تم کو پسند ہوں، دو
دو، تین تین، اور چار چار، لیکن اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ تم انصاف نہیں
کرسکو گے (ایک سے زیادہ بیویوں کے درمیان) تو پھر تم ایک پر ہی اکتفا کر لو۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں تفصیل کے ساتھ نکاح کے احکام بیان کیے ہیں،
طلاق، عدت کے مسائل پر بھی روشنی ڈالی اور مرد و عورت کے فرائض کو واضح کیا
تاکہ وہ ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت کریں۔
مستشرقین نے اسلام کی ان عمدہ تعلیمات کی عظمت کااعتراف کرنے کی بجائے ان
پاکیزہ تعلیمات کو اسلام اور حضوراکرم ﷺ کے خلاف پروپیگنڈے کے لیے استعمال
کیا۔
مستشرقین اسلام پر یہ اعتراض کرتے ہیں اسلام نے تعداد ازواج (چار) کی اجازت
دے کر عورت کا احترام کم کیا ہے؟ چنانچہ آج کے اس دور میں بھی یہ بات بڑی
شدومد کے ساتھ کہی جارہی ہے اور اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کی طرف سے بھی
اس قسم کے سوال سامنے آرہے ہیں۔ جس کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کے مؤقف کو
واضح کیا جائے۔
اسلام کی تعلیمات قیامت تک کے لیے آنے والے انسانوں کے لیے راہنمائی مہیا
کرتی ہیں، اور اسلام کی خوبی یہ ہے کہ اس کے قوانین ہمہ گیر ہیں جو مسائل
زندگی میں ہمیشہ موجود رہتے ہیں ان کا بھی حل پیش کیا ہے اور جو کبھی کبھار
پیش آتے ہیں ان کا حل بھی مہیا کیا ہے۔ تعدد ازواج کا قانون بھی ایسا ہے
کہ جسکی ہر وقت ضرورت تو نہیں ہوتی لیکن انفرادی اور اجتماعی زندگی میں
ایسے مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں جن کا حل تعداد ازواج کے علاوہ ممکن نہیں ہے۔
مثال کے طور پر کسی معاشرے میں عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہو وہاں یہ
سوچنا پڑے گا کہ زائد عورتوں کا کیا کیا جائے؟ میدان جنگ میں جو لوگ جنگ کی
نذر ہو جائیں ان کی بیویوں کے لیے کیا لائحہ عمل ہو؟ کسی آدمی کی بیوی
ایسی بیماری میں مبتلا ہو جو حقوق زوجیت کی ادائیگی میں مانع ہو تو اس کا
شوہر کیا کرے؟ اسے طلاق دے کر بے سہار ا کردے؟ اور پھر دوسری عورت سے نکاح
کرے؟ یا اس کے حقوق کی ادئیگی کے ساتھ ساتھ دوسرا نکاح کرلے۔ ایک بیوی سے
اولاد نہیں ہو رہی ہے اور مرد کو اولاد کی شدید خواہش ہے تو اس کے لیے کیا
حکم ہے؟
اسلام نے ان مسائل کا حل تعداد ازواج کی صورت میں پیش کردیا، اور تعداد
ازواج کا حکم مطلقاً نہیں دیا بلکہ اس کی کچھ قیود وشرائط بھی رکھی ہیں کہ
جو لوگ ایک سے زیادہ بیویوں کے حقوق پورے کرسکتے ہوں، ان کے اخراجات برداشت
کرسکتے ہوں، اور ان میں عدل بھی قائم کرسکتے ہوں تو وہ قربانی کے جذبے سے
آگے بڑھیں اور حسب استطاعت دو یا تین خواتین کو اپنی زوجیت میں لیں۔
مستشرقین اس حل سے خوش نہیں ہیں اس کو عیش پرستی اور ہوس پرستی کا نام دیتے
ہیں، اور اسلام پر یہ اعتراض کرتے ہیں اس نے تعداد ازواج کی اجازت دے کر
عورت کا احترام کم کیا ہے؟ لیکن ان کے پاس اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔
حضوراکرم ﷺ کی تعداد ازواج کے حوالے سے بھی مستشرقین نے اعتراض کیے ہیں۔ ان
کا ایک مشہور اعتراض یہ ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی امت کے لیے جو بیویوں کی حد
مقرر کی ہے اس پر خود عمل نہیں کیا اور اپنے لیے بیویوں کی تعداد کی کسی حد
کو قبول نہیں کیا؟
ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ان کے اس اعتراض کا
جواب دیں۔ حضوراکرم ﷺ کے لیے ازدواج کے یہ خصوصی قوانین اللہ تعالیٰ نے خود
اپنے کلام پاک میں نازل فرمائے ہیں، لیکن مستشرقین چونکہ قرآن حکیم کو
حضور اکرم ﷺ کے ذہن کی اختراع قرار دیتے ہیں اس لیے آپ پر یہ الزام لگاتے
ہیں کہ آپ نے اپنی خواہشات کی تسکین کے لیے بیویوں کی تعداد کی اس حد کو
نظراندار کردیا جو آپ نے خود اپنی امت کے لیے مقرر کیں، اور پھر اپنی اس
خواہش پرستی کو جواز مہیا کرنے کے لیے وحی کا سہار ا لیا اور یہ دعویٰ کیا
کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی اجازت ملی ہے کہ آپ جتنی عورتوں سے
چاہیں شادی کرلیں۔
اکثر مستشرقین نے حضوراکرم ﷺ کی متعدد ازواج کے حوالے اسی قسم کے خیالات
فاسدہ کا اظہار کیا ہے انہوں نے یہ نہ سوچا کہ آیا تاریخ میں کوئی اور بھی
ایسی ہستی موجود تو نہیں جن کا وہ انتہائی احترام کرتے ہیں لیکن ان کی
شادیاں حضوراکرم ﷺ سے بھی زیادہ تھیں۔
دنیا کے تمام مذاہب میں تعداد ازواج کا رواج تھا اور ان مذاہب کی نظر میں
محترم ہستیاں خود اس پر کاربند تھیں اور اس کی وجہ سے ان کے تقدس میں کوئی
فرق نہیں آتا تھا۔ مثلاً ہندومت کو لیجئے اس مذہب کے اکابر کی کئی کئی
بیویاں تھیں۔
1۔سری رام چندر جی کے والد مہاراجہ دسرت کی تین بیویاں تھیں۔
2۔سری کرشن جی کی، جو اوتاروں میں شمار ہوتے ہیں، سینکڑوں بیویاں تھیں۔
3۔پانڈؤوں کے جد اعلیٰ راجہ پانڈو کی دو بیویاں تھیں۔
4۔راجہ شنتن کی دو بیویاں تھیں ۔
5۔بچھتر ایرج کی دو بیویاں اور ایک لونڈی تھی
(،رحمۃ اللعالمین ،سلمان منصور پوری جلد دو م صفحہ ۱۲۷،)
مستشرقین نے ہندو راجاؤں کو دو دو اور تین تین بیویاں رکھنے پر جنس پرست
کہا اور نہ ہی سری کرشن کی سینکڑوں بیویوں کے باوجود ان پریہ الزام لگایا۔
تو پھر حضوراکرم ﷺ پر نکتہ اعتراض کیوں؟
یہود ونصاری کی الہامی کتب میں لکھا ہے کہ حضرات ابراہیم ؑ کی تین، بیویاں
تھیں، حضرت یعقوب ؑ کی چار بیویاں تھیں، اور حضرت موسی ؑ کی چار بیویاں
تھیں (رحمۃ اللعالمین جلد دو م صفحہ ۱۲۸)
یہودونصاری ان بزرگ ہستیوں کی روحانی عظمتوں کے قائل ہیں اور ان کو خدا کے
برگزیدہ بندے اور نبی تسلیم کرتے ہیں تو جس طرح ان انبیاء کرام کے تعداد
ازواج کے عمل کی وجہ سے ان کے تقدس میں کوئی کمی نہیں واقع ہوئی تو حضور
اکرم ﷺ کی تعداد ازواج پر اعتراض کیوں؟ چنانچہ آپ ﷺ کے تقدس اور عظمت میں
بھی تعداد ازواج کی وجہ سے کوئی کمی واقع نہ ہوگی۔
جو شخص حضور اکرم ﷺ کی بیویوں کی تعداد کو گن کر اصل حقائق ومقاصد کو جانے
بغیر آپ کے متعلق کوئی فیصلہ کرتا ہے وہ کبھی بھی صحیح رائے قائم نہیں
کرسکتا۔ مستشرقین نے تصویر کا ایک رخ دیکھ کر ہرزہ سرائی شروع کردی اور
دوسرے رخ سے آنکھیں چرالیں۔
1۔جس ہستی نے پچیس سال کی بھرپور جوانی میں اک عمر رسیدہ بیوہ سے نکاح کیا،
اور جب تک وہ بیوی زندہ رہی مزید خواتین سے نکاح کا خیال تک دل میں نہ
لائے۔ کیا یہ بات ممکن ہے کہ جب اس کی عمر پچپن سال ہوجائے تو اس پر خواہش
پرستی کا اس قدر غلبہ ہو کہ عورتوں کی کوئی تعداد اسے مطمئن نہ کرسکے؟
2۔جس ہستی کے ساتھ قوم کا ہر فرد رشتہ قائم کرنے کو سعادت سمجھے اور حسین
سے حسین دوشیزاؤں کے ساتھ نکاح کرنے میں کوئی رکاوٹ بھی نہ ہو وہ ان کو
چھوڑ کر ایک معمر بیوہ خاتون سے شادی کرے کیا خواہش پرست لوگ اس طرح کرتے
ہیں؟
3۔جو آدمی خواہش پرست ہوتا ہے وہ صنف نازک کے ہاتھوں میں کھلونا ہوتا ہے
وہ اپنی بیویوں کے جائز وناجائز مطالبے اور فرمائشیں پوری کرنے میں سب کچھ
کر گزرتا ہے لیکن حضوراکرم ﷺ نے باوجود مدینہ کے حکمران ہونے کے کاشانہ
اقدس کو فقر کا گہوارہ بنا رکھا تھا۔ بلکہ ایک دفعہ جب ازواج مطہرات نے نان
ونفقہ میں کچھ اضافے کا مطالبہ کیا تو باذن خداوندی اپنی ازواج مطہرات کو
دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا کہ اگر مال ودولت کے خواہش مند ہو تو اس خواہش کو
پور ا کرنے کے لیے تمہیں خدا کے رسول سے علیحدگی اختیار کرنی پڑے گی۔ وگرنہ
صبر و قناعت سے گزر بسر کرو۔
تصویر کا یہ رخ دیکھتے ہوئے غیر جانبدار محقق فوری اس نتیجے پر پہنچے گا کہ
ازواج مطہرات سے آپ کا یہ باہمی رشتہ جنسی خواہشات کی بنیادوں پر قائم نہ
تھا بلکہ مقاصد عظیمہ (تشریعی، تعلیمی، سیاسی، سماجی) کے پیش آپ نے متعدد
نکاح کیے۔ |