قوت ارادی
قائد اعظم بے پناہ قوت ارادی کے مالک تھے۔ وہ مجمع کو دیکھ کر بھی اپنے
اصولی مؤقف سے دستبردار نہیں ہوتے تھے۔ کانپور کے اجلاس میں مسلم لیگ اور
گانگریس کے راستے جدا جدا ہوگئے۔ اس اجلاس میں جس میں کانگریس کے حامیوں کو
خاص طور پر جمع کیا گیا تھا۔ اجلاس میں گاندھی جی کی ایک قرار داد منظور کی
گئی۔ محمد علی جناح نے اس قرار داد پر زبردست نکتہ چینی کی۔ پچاس ہزار کے
مجمع میں قائد اعظم نے اپنی تقریر اس الفاظ سے شروع کی، میں اس قرار داد کی
مخالفت کرتا ہوں، ان کی آواز شور وغل اور ہنگامے میں ڈوب گئی۔ انہیں یقین
تھا کہ حاضرین ان کے حق میں نہیں ہیں۔ لیکن انہوں نے لوگوں کے شور غل پر
اسٹیج نہیں چھوڑا۔ ڈائس پر خاموش کھڑے رہے۔ جب شور کم ہوا تو انہوں نے پھر
سے کہا، میں اس قرار داد کی مخالفت کرتا ہوں۔ مجمع نے پھر شور کرنا شروع
کیا۔ لیکن انہوں نے اپنی تقریر گھن گرج کے ساتھ جاری رکھی۔ آہستہ آہستہ ان
کے جوش، حوصلے، تحمل کے سامنے مجمع خاموش ہوگیا۔ انہوں نے مجمع کو اپنے
ساتھ کرلیا، لیکن مطلوبہ ووٹ حاصل نہ کرسکے۔ لیکن انہھوں نے ثابت کردیا کہ
ان پر حکم نہیں چلایا جاسکتا۔ وہ گاندھی کو مسٹر گاندھی کہہ کر مخاطب کرتے۔
لوگ چیختے چلاتے کہ مہاتما گاندھی کہو، لیکن وہ شور غل سے بے نیاز مسٹر
گاندھی ہی کہتے رہے۔ اپنی تقریر کے دوران ایک بار انہوں نے مولانا محمد علی
کو مسٹر محمد علی کہا، لوگ مشتعل ہوگئے نہیں نہیں۔۔ مولانا محمد علی کہو۔
ہنگامہ ہوتا رہا۔ جب سکون ہوا تو قائد نے پھر اسی طرح تقریر شروع کی۔ میں
آپ کا حکم نہیں مان سکتا۔ مجھے یہ حق ہے کہ میں کسی شخص کو جس لقب سے چاہوں
مخاطب کروں بشرطیہ وہ ناشائستہ نہ ہو۔ میں مسٹر محمد علی کو مولانا تسلیم
نہیں کرتا۔ یہ قائد اعظم ہی کا حوصلہ تھا کہ وہ ہزاروں کے مجمع سے مرعوب
ہوئے بغیر اپنی بات کا بر ملا اظہار کرتے تھے۔
(میٹ مسٹر جناح ۔ اے ۔ اے ۔ رﺅف صفحہ۵۳۲ )
آج کتنے ہیں جو مصلحت اور منافقت چھوڑ کر قائد کی طرح جو بات حق سمجھتے ہوں
اس کا برملا اظہار کریں۔ |