قارئین محترم امیرالمومنین حضرت سیدنا
عثمان غنیؓ کی شان بہت بلند و بالا ہے۔آپؓ حافظ قرآن،جامع القرآن اور ناشر
القرآن بھی ہیں۔اور ذوالنورین سے مراد(دو نور والے) بھی ہے۔کیونکہ پیارے
آقاﷺ کی دوصاحبزادیاں بھی یکے بعد دیگرے حضرت سیدنا عثمان غنیؓ کے نکاح میں
رہیں۔اس کے بعدآپ ؓ تیسرے خلیفہ بھی ہیں حضرت عثمان غنیؓ کو کئی بار حضور
پر نورآقا دو جہاں سرورکائنات ﷺنے جنت کی بشارت دی۔آپ ؓ اعلیٰ سیرت و کردار
کے ساتھ سخاوت میں مشہوراور شرم و حیاء صفت میں بے مثال تھے۔ام المومنین
حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں۔کہ جب حضرت عثمان غنیؓ ہمارے گھر میں تشریف
لاتے تھے۔تو سب سے پہلے آقا دو جہاںﷺاپنا لباس درست کرتے تھے اور آپؑ ساتھ
یہ بھی ارشاد فرماتے تھے۔کہ میں حضرت عثمان غنیؓ سے کیوں نہ حیاء کروں جس
سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں۔ایک موقع پرتاجدار مدینہ نورمجسم سرکار دو عالمﷺ
نے ارشاد فرمایا جنت میں ہر نبی کارفیق ہوتا ہے۔میرا رفیق حضرت عثمان غنیؓ
ہو گا۔آپؓ نے شروع میں ہی اسلام قبول کر لیا تھا۔آپ کو(دو ہجرتوں والے)بھی
کہا جاتا ہے۔کیونکہ حضرت عثمان غنیؓ نے پہلے حبشہ اور پھر مدینہ کی طرف
ہجرت فرمائی۔آپ ؓنے اپنی مبارک زندگی میں رحمت دو عالم،مالک جنتﷺ سے دو
مرتبہ جنت خریدی۔ایک مرتبہ بیررومہ یہودی سے خرید کر مسلمانوں کے پانی پینے
کے لیے وقف کر دی۔اور دوسری بار غزوہ تبوک کے موقع پر بھی آپؓ نے بڑھ چڑھ
کر حصہ لیا۔حضرت سیدنا عبدالرحمن بن خباب ؓ سے مروی ہے۔ کہ میں تاجدار
مدینہ قلب سینہ آقا دو جہاں ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر تھا۔تو نبی پاکﷺ صحابہ
کرامؓ کو جیش و عسرت(یعنی غزوۂ تبوک) کی تیاری کے لیے ارشاد فرما رہے
تھے۔تو حضرت ابو بکر صدیقؓ اٹھ کرکھڑے ہوئے اور فرمایا ،،یا رسول اﷲ ﷺ میں
اپنے گھر کا سارا سامان اﷲ کے نام پر دوں گا۔اس کے بعد خلیفہ دوم حضرت عمر
فاروق ؓ اٹھ کر کھڑے ہوئے اور فرمایا،، یا رسول اﷲ ﷺ میں اپنے گھر کا آدھا
سامان اﷲ کے راہ پر خرچ کروں گا۔اسی موقع پردوبارہ اﷲ کے محبوب ﷺ نے صحابہ
کرام ؓکو ارشادفرمایا تو حضرت عثمان غنی ؓ اٹھ کر کھڑے ہوئے اور فرمایا ،،یا
رسول اﷲﷺ ستر گھوڑے،تین سو اونٹ اورمتعلقہ سامان کا میں ذمہ دار ہوں
گا۔راوی فرماتے ہیں۔میں دیکھاکہ حضور پر نورآقا دو جہاں ﷺ یہ سن کرمنبر
منور سے نیچے تشریف لا کر دو مرتبہ فر مایا آج سے عثمانؓ جو کچھ کرے اس پر
مواخذہ(یعنی پوچھ گچھ نہیں)،،امیر المومنین حضرت سیدنا عثمان غنی ؓ عاشق
رسول بلکہ عشق مصطفےٰ ﷺ کا عملی نمونہ تھے اورآپؓ محبوب خدا ﷺ کی سنتیں اور
ادائیں اپنایا کرتے تھے۔ایک مرتبہ سیدنا حضرت عثمان غنی ؓ وضو فرما رہے تھے
تو آپؓ نے مسکرانا شروع کر دیا۔جب لوگوں نے آپؓ سے دریافت کیایہ کیا ماجرا
ہے۔توآپ ؓ نے فرمایا اسی جگہ پر ایک دن اﷲ کے محبوب ﷺوضو کرتے ہوئے مسکرا
رہے تھے۔اسی طرح ایک اور موقع پرمسجد کے قریب آپؓ نے بکری کے گوشت کی دستی
منگوائی یہاں پرنوش فرمائی پھر نماز ادا کی۔آپؓ اکثر روزے کی حالت میں ہوتے
تھے۔آپ ؓ باقاعدگی سے نماز تہجد ادا کرتے تھے۔آپؓ قطعی جنتی ہونے کے باوجود
بھی عذاب قبر کو یاد رکھتے تھے۔جب سیدناحضرت عثمان غنی ؓ کسی قبر پر جاتے
تو آپ ؓ کی ریش مبارک آنسوؤں سے تر ہو جاتی۔آپ ؓشرم حیاء کے پیکر تھے اسی
بنا پر فرشتے بھی آپؓ سے حیاء کرتے تھے آپ ؓ نے اپنے دور خلافت میں بہت سے
علاقے فتح کیے۔ایک مرتبے آپ ؓ اپنے باغ سے لکڑیوں کاگٹھا اٹھا کر آرہے تھے
توغلام نے کہا کہامیر المومنین آپ ؓ مجھے دے دیں تو آپ ؓ نے جواب دیا کہ
میں اپنے نفس کو از ما رہا ہوں۔اسی طرح ایک اور موقع پر آپ ؓنے اپنے غلام
کا کان مروڑا توآپ ؓ نے اپنے غلام سے فرمایا کہ آپ میرا کان بھی مروڑ
دیں۔اور یہاں تک ہے کہ دائرہ اسلام سے پہلے بھی کسی سے کوئی زیادتی یا
ریاکاری نہ کی۔آپؓ نے دین اسلام کے لیے جانی و مالی بہت قربانیاں دیں۔آخر
کار باغیوں نے مدینہ پاک کا محاصرہ کر لیا اور آپ ؓ کاچالیس روز سے کھانا
پینا بند کر دیا ۔باغی آپ ؓ کو بہت ستاتے تھے اور اسی اثناء میں شام کے
گورنر حضرت امیر معاویہؓ نے حضرت عثمان غنیؓ سے فرمایا کہ ان باغیوں کو
ہلاک کر دیتے ہیں۔مگر آپ ؓ نے فرمایا کہ میں مدینہ پاک کی گلیوں کو خون سے
سرخ نہیں دیکھنا چاہتا ہوں۔ آخر کار ا میر المومنین سیدنا حضرت عثمان غنی ؓ
روزے کی حالت میں تھے۔اور آپؓ قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے۔کہ چند شر پسند
اندر گھس آئے۔آپ ؓکو بے دردگی سے برچھوں کے وار کر کے لہولہان کر دیا۔اور
خون کا پہلا قطرہ قرآن پاک کی اس آیت پر گرا ۔جس کا ترجمعہ یہ ہے،اﷲ پاک
دیکھنے اور سننے والا ہے۔آخر کار آپ ؓ۳۵ سن ہجری،۱۸ذوالج اورجمعتہ المبارک
کو شہادت نوش فرما گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اﷲ پاک آپ کا حامی و ناصر ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |