سوشل میڈیا کا نشہ

اندر جانے کا راستہ تنگ سا تھا۔ا ور مزید یہ کہ نکلنے کا راستہ بھی وہی تھا۔ رش کا ایک عالم تھا۔ وہ بھی اندر حطیم میں جانے کی کوششوں میں مصروف تھی۔ حطیم میں نفل نماز ادا کرنا ایک بہت بڑی سعادت ہے۔ اور وہ اس سعادت سے محروم نہیں ہونا چاہتی تھی۔پہلے بھی دو بار ہمت ہار کر وہ واپس جا چکی تھی مگر اس بار اس نے اندر جانے کا سوچ لیا تھا سو قدم قدم بڑھاتی اندر پہنچ ہی گئی۔اندر بھی ایک اژدھام تھا۔ لوگ عبادت میں مصروف تھے، رو رہے تھے، گرگڑا رہے تھے، التجائیں کر رہے تھے، اپنے گناہوں کے بوجھ سے ہر شخص نادم تھا۔ آنسوؤں اور سسکیوں کے ساتھ اپنے رب سے التجائیں کر رہا تھا۔نماز سے فارغ ہو کر وہ بھی غلاف کعبہ سے لپٹی سسک رہی تھی۔ الفاظ نے لبوں کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ کن لفظوں میں شکر ادا کرتی کہ اس کے اتنے گناہوں کے باوجود اس کا رب اس پر اپنے کرم کی نوازشیں کیے چلے جا رہا تھا۔ اشک تھے کہ تھم ہی نہیں رہے تھے۔ رب سے دعا کر کے ، معافیاں مانگ کر وہ سست قدموں سے پیچھے ہٹی کہ دوسرے بھی مسلسل آگے آنے کی التجا کر رہے تھے۔ ایک دھکا لگا اور وہ ایک لڑکی پر جا گری۔ معذرت کے لیے سر اٹھایا تو تاسف سے گنگ رہ گئی۔ حطیم کی دیوار سے ٹیک لگائے وہ بہت محویت سے فیس بک پر تصاویر اپلوڈ کرنے میں مصروف تھی۔ لوگ یہاں وقت کی کمی کا شکار تھے، ایک ایک لمحہ سمیٹ رہے تھے اور وہ ان قیمتی لمحات سے بے نیاز سوشل میڈیا میں مصروف تھی۔ کیسا نشہ تھا یہ جو حرم جیسی مقدس جگہ پہنچ کر بھی برقرار تھا۔

اسے یاد آیا کہ جب وہ مسجد نبوی ﷺ میں تھی۔ رات کا تیسرا پہر تھا، مسجد نبوی ﷺ کے دروازے رات میں بند کر دیے جاتے ہیں اور فجر میں کھول دیئے جاتے ہیں۔ یہ خواتین کا مخصوص حصہ تھا۔ خواتین اپنے خالق سے شکوہ شکایات اور ساتھ ہی شکرگزاری بھی کر رہی تھیں۔ کہ اس کی نظر ایک خاتون پر پڑی۔ مسجد نبوی ﷺ کے بند دروازے کے سامنے وہ جائے نماز بچھا رہی تھیں مگر قبلہ کی سمت غلط تھی۔ وہ اٹھی تا کہ ان کی رہنمائی کر سکے۔ کہ اتنے میں ان کے ساتھ موجود لڑکی نے انھیں کچھ ہدایت کی ۔انھوں نے جاء نماز تھوڑا اور پیچھے کی اور لڑکی نے اس طرح تصویر لی کہ مسجد نبویﷺ کا خوبصورت دروازہ مکمل آجائے۔ پھر ان خاتون نے دعا کا پوز بناکر تصویرکھنچوائی پھر پرس سے چھوٹا سا قرآن شریف نکال کر اسے پڑھتے ہوئے اور پھر آنکھیں بند کر کے تسبیح پڑھتے ہوئے تصاویر کھنچوا کر جائے نماز لپیٹ کر موبائل پرس میں ڈال کر چل دیں۔

سائنس و ٹیکنالوجی کے اس ترقی یافتہ دور نے لوگوں کو جن بہت سی نئی چیزوں سے آشنا کیا ہے ان میں سے ایک سوشل میڈیا ہے جس نے انسان کو اپنوں سے دور اور اجنبیوں سے نزدیک کر دیا ہے۔لوگ اپنے جذبات، احساسات اور فیلنگز ذاتی طور پر بتانے کے بجائے اس پر شئیر کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اپنے تمام خاص لمحات کو ، اپنے اسفار(سفر کی جمع) کی روداد کو ، یہاں تک کہ اپنے کھانے پینے اور دعوتوں تک کی تصاویر اس پر شیئر کر کے لوگوں سے لائکس اور کمنٹس وصول کر کے دیر تک اس کے نشہ میں رہتے ہیں۔

ابتدا میں فیس بک، ٹوئٹر یا واٹس ایپ ہلکی پھلکی گپ شپ یا تفریح کے لیے استعمال ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ اس کی عادت پڑنے لگتی ہے اور پھر یہ نشہ اتنا بڑھ جاتا ہے کہ چلتے چلتے بھی سیل نکال کر دیکھا جاتا ہے، سوتے میں اگر آنکھ کھل جائے تو پہلا ہاتھ سیل پر جاتا ہے۔ ایسے لوگ جب حرم میں جاتے ہیں عمرہ یا حج کے لیے تو وہاں بھی موبائل آف کرنے کے بجائے تصاویر اور سیلفی لینے میں مصروف رہتے ہیں۔دن میں کئی بار اسٹیٹس اپلوڈ کرتے ہیں، فیلنگز شیئر کرتے ہیں۔ اور وہاں بیٹھ کر بھی سوشل میڈیا کو ٹائم دیتے ہیں۔

عمرہ یا حج ایسی عبادت ہے جس میں انسان ہزاروں میل کا سفر طے کر کے اس مقدس جگہ جاتے ہیں۔ یہ ایک ایسی سعادت ہے جو ہر مسلمان کی سب سے بڑی آرزو ہے اور وہ مختصر سا وقت پندرہ دن یا چالیس دن ایسے پلک جھپکتے گزر جاتے ہیں۔

جب یہاں سے سارے کام ختم کر کے ، سب لوگوں کو چھوڑ کر وہاں جاتے ہیں تو کیا کچھ دنوں کے لیے سوشل میڈیا کو نہیں چھوڑسکتے؟

کیا وہاں بیٹھ کر اپنی تصاویر اور اپنی فیلنگز شیئر کرنا اتنا ہی ضروری ہے؟

کیا اس کے لیے عمرہ یا حج کے ختم ہونے کا انتظار نہیں ہو سکتا کہ وطن واپس آنے کے بعد فرصت سے شیئر کریں؟

کیا حرم میں بیٹھ کر وہ تمام فیلنگزاوراحساسات اپنے اﷲ اور رسول ﷺ سے شیئر نہیں کر سکتے؟

اسے یاد تھا کہ بچپن میں جب کوئی حج یاعمرہ کر کے آتا تھا تو سب لوگ باقاعدہ اس سے ملنے جاتے تھے کہ اس پاک سفر کی روداد سن کر سعادت حاصل کریں گے۔

اس خاص سفر کے دوران سیلفی لینا اورہر ہر پل کی ریکارڈنگ عبادت کے تقدس کو نہ صرف مجروح کر تی ہے بلکہ اس کی تاثیر کو بھی ختم کر دیتی ہے۔

ہاں، خاص لمحات کی تصاویر اس لیے لینا کہ اسلام کے ایک اہم رکن کی اجتماعیت اور شان نظر آسکے، مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کے مظاہرہ کو تقویت ملے، اس نوعیت کی تصاویر اور سیلفی میں فرق ہے مگر وہ تصاویر بھی پورے احترام اور تقدس کو ملحوظ رکھ کر لی جائیں اور بھی کم تعداد میں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔

مگر مستقل طور پر عبادت کے دوران حرم میں دوران عمرہ یا حج ، سیل استعمال کرنے سے احتیاط ہی مناسب ہو گی ۔

عمرہ اور حج میں توجہ، یکسوئی اور ارتکاز صرف اور صرف اس رب کی طرف رکھیے جس نے آپ کو یہاں تک بلایا، آپ کو اس سفر کی سعادت بخشی جس کے لیے بہت سارے لوگ ترستے ہیں، اس کی ان تمام نعمتوں کو، انعامات کو یاد کریے ، اس کے کرم کو، اس کی نوازشات کو یاد کریے جس کے آپ حقدار نہ تھے مگر وہ آپ کو دے رہا ہے اور دیتا جا رہا ہے۔ اس کا شکر ادا کریے ۔ پتہ نہیں پھر کب دوبارہ وہاں جانے کاموقع ملے ۔ ان لمحات کو سوشل میڈیا کے نشہ کی خاطر ضائع نہ کیجیے۔

ایک ایک پل کو سمیٹ لیں ۔ ایک ایک لمحہ کو حزرجاں بنا لیں، ہر دن کو زندگی کی طرح جیئں۔ یہ پل، یہ لمحات آپ کو آئندہ زندگی میں وہ روشنی عطا کریں گے کہ جو آپ کے راستے کو جگمگا دے گی۔آپ کے لیے زندگی آسان کر دیں گے۔

ختم شد
Humaira Khatoon
About the Author: Humaira Khatoon Read More Articles by Humaira Khatoon: 8 Articles with 7043 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.