امام حسین ؑ نے مدینے سے مکہ روانگی کے وقت
یہ وصیت نامہ تحریر فرمایا اور اپنی مہر لگانے کے بعد اسے محمد حنفیہ کے
سپرد کر دیا :
’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم۔یہ حسین ؑ ابن علی کی وصیت ہے اپنے بھائی محمد بن
حنفیہ کے نام۔حسین ؑ گواہی دیتا ہے کے اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور نہ ہی
اس کا کوئی شریک ہے اور محمد ؐ اﷲ کے بندے اور اس کے رسول ؐ ہیں جو اﷲ کی
طرف سے دین حق لے کر آئے ہیں اور حسین ؑ یہ بھی گواہی دیتا ہے کہ جنت و
دوزخ حق ہیں اور روز ِ جزا کے آنے میں کوئی شک نہیں ہے اور اس روز اﷲ یقیناً
تمام اہل قبور کو زندہ کرے گا‘‘
اپنے اس وصیت نامہ میں امام ؑ نے توحید،نبوت اور قیامت کے بارے میں اپنا
عقیدہ بیان کرنے کے بعد اپنے اس سفر کے مقاصد ان الفاظ میں بیان کئے:
’’مدینے سے میرا نکلنا نہ خود پسندی اور تفریح کی غرض سے ہے اور نہ فساد
اور ظلم و ستم میرا مقصد ہے ، میں تو صرف اس لئے نکلا ہوں کہ اپنے نانا کی
امت کی اصلاح کروں۔میں چاہتا ہوں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو انجام
دوں اور یوں اس انجام دہی میں اپنے نانا اور اپنے والد گرامی کی پیروی کروں
۔اب اگر کوئی میری دعوت کو حق سمجھ کر قبول کرے تو اس نے اﷲ کا راستہ
اختیار کیا اور اگر کوئی میری دعوت کو مسترد کر دے تو میں صبر کروں گا یہاں
تک کے اﷲ میرے اور ان کے درمیان فیصلہ کرے اور اﷲ ہی بہترین فیصلہ کرنے
والا ہے اے برادر یہی آپ کے لئے میری وصیت ہے اور میری توفیقات تو صرف اﷲ
کی جانب سے ہیں اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسی کی جانب مجھ کو پلٹنا ہے۔
یہ امام حسین ؑ کی وصیت ہے جس میں امام ؑ نے بار بار کہا میں جنگ کے لئے
نہیں جا رہا میں اصلاح کے لئے جا رہا ہوں اپنے نانا کا دین بچانے جا رہا
ہوں میرا مقصد جنگ ہوتا تو اپنے ساتھ ماں بہنوں کو نہ لے جاتا،۶ ماہ کے
اصغر کو نہ لے جاتا،۱۸ سال کے اکبر ؑ کو نہ لے جاتا ،اپنی پیاری بیٹی سکینہ
ؑ کو نہ لے جاتا،اپنی بہن زینب کو نہ لے جاتا،اپنے چاہنے والے اصحاب کو
قربان نہ کرتا،یزید حلال کو حرام کر رہا تھا ،حرام کو حلال کر رہا تھا میں
ہادی ہوں رسول ؐ کا وارث ہوں مجھ پر واجب ہے کے میں دین میں حلال کو حلال
بتاؤں حرام کو حرام بتاؤں ۔اے اﷲ کربلاء والوں کی قربانی قبول فرما۔ |