ڈاکٹر افتخار بیگ تعلیم کے مضمون میں PhD
ہیں۔ تعلیم کے مضمون کے حوالے سے ایک نامور اور بڑی شخصیت۔ میرے کلاس فیلو
بھی ہیں۔ ہماری دوستی اور اچھی راہ و رسم کو گولڈن جوبلی کا اعزاز حاصل
ہونے میں بس ایک آدھ سال باقی ہے۔1967 میں اسلامیہ کالج میں ہم اکٹھے تھے۔
ڈاکٹر صاحب کا پیار ہے کہ وہ عموماً میرے کالم پر نظر ڈال لیتے ہیں اور
اپنی ماہرانہ رائے سے مجھے مستفید کرتے ہیں۔ پچھلے ہفتے میرے کالم ’نماز کی
افادیت‘ پر ڈاکٹر صاحب نے گِلہ کیا کہ میں نے زمانے بھر کی اِدھر اُدھر کی
باتوں سے کالم تو بھر دیا، مگر اُس کے اصل موضوع نماز کے بارے میں چند
سطروں میں ہی بات ختم کر دی۔ افادیت کے حوالے سے کچھ ٹھوس باتیں کہنا بہت
ضروری تھا۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا سر آنکھوں پر، مگر ڈاکٹر صاحب کو میرا ظرف
بھی پتہ ہے۔ میں عالم نہیں، مذہبی معاملات حساس ہوتے ہیں۔ ان پر قلم اٹھانے
سے پہلے جس علمیت کی ضرورت ہوتی ہے وہ مجھ میں کہاں۔ میں تو ایک گنہگار
آدمی ہوں، ان مسائل کے بارے جو بزرگوں نے کہا اس سے زیادہ نہیں جانتا۔ نماز
کے بارے حضرت علی ہجویری عرف داتا گنج بخشؒ، جن کے حوالے سے لاہور داتا کی
نگری کہلاتا ہے کے کچھ ارشادات نقل کر رہا ہوں۔ اُمید ہے دوست ان سے
استفادہ کریں گے۔ کشف المحجوب میں لکھا ہے:
اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اے مسلمانو! نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو۔‘‘
حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:
’’نماز کی حفاظت کرو اور ان چیزوں کی جن کے تم مالک ہو۔‘‘
لُغت کے مطابق نماز کے معنیٰ ذکر اور انقیاد کے ہیں اور فقہا کی اصطلاح میں
نمازمقررہ احکام کے تحت مخصوص عبادت ہے جو رب العزت کے فرمان کے مطابق پانچ
وقتوں میں ادا کی جاتی ہے۔ نماز کی فرضیت کے لئے اس کے وقت کا پہلے داخل
ہونا شرط ہے۔
نماز کی شرائط میں ایک شرط طہارت ہے جو ظاہری طور پر ناپاکی سے اور باطنی
طور پر کسی خواہش اور لذت سے پاک ہونا ہے۔ دوسری شرط لباس کی پاکی ہے۔
ظاہری طور پر نجاست سے اور باطنی طور پر اس طرح کہ وہ لباس حلال کمائی سے
حاصل کیا ہو۔ تیسری شرط جگہ کا پاک ہونا، ظاہری طور پر حوادث و آفت سے اور
باطنی طور پر فساد و معصیت یعنی گناہ سے۔ چوتھی شرط استقبال قبلہ ہے، ظاہری
طور پر خانہ کعبہ کی سمت اور باطنی طور پر عرش معلی اور اس کا باطن مشاہدہ
حق ہے۔ پانچویں شرط قیام ہے، ظاہری طور پر کھڑے ہونے کی قدرت اور باطنی طور
پر مرتبت الٰہی کے باغ میں قیام ہے۔ چھٹی شرط دخول وقت ہے، جو ظاہری طور پر
شرعی احکام کے مطابق اور باطنی طور پر حقیقت کے درجہ میں ہمیشہ قائم رہتا
ہے اور داخلی شرط میں سے ایک شرط خلوص نیت کے ساتھ بارگاہ حق کی طرف متوجہ
ہونا ہے اور قیام ہیبت اور فنا میں تکبیر کہنا، عمل وصل میں کھڑا ہونا،
ترتیل و عظمت کے ساتھ قرأت کرنا، خشوع کے ساتھ رکوع کرنا، تذلل و عاجزی کے
ساتھ سجدے کرنا، دل جمعی کے ساتھ تشہد پڑھنا اور فنائے صفت کے ساتھ سلام
پھیرنا۔
حدیث پاک میں وارد ہوا ہے کہ:
’’جب نبی کریم ﷺ نماز پڑھتے تو آپ ﷺ کے بطن میں ایسا جوش اٹھتا، جیسے دیگ
میں جوش آتا ہے۔‘‘
امیر المومنین سیدنا علی مرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ جب نماز کا ارادہ فرماتے تو ان
کے جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا اور فرماتے کہ اس امانت کو ادا کرنے کا وقت
آگیا جس کا بار زمین اور آسمان اٹھانے سے عاجز رہے تھے۔
ایک بزرگ بیان کرتے ہیں کہ حضرت حاتم اصم سے میں نے پوچھا، آپ نماز کس طرح
ادا کرتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا جب اس کا وقت آتا ہے تو ایک ظاہری وضو کرتا
ہوں، دوسرا باطنی وضو۔ ظاہری وضو پانی سے اور باطنی وضو توبہ سے۔ جب مسجد
میں داخل ہوتا ہوں تو مسجد حرام کے روبرو دونوں ابرو کے درمیان مقام
ابراہیم رکھتا ہوں۔ اپنی دائیں جانب جنت کو اور بائیں جانب دوزخ کو دیکھتا
ہوں اور خیال کرتا ہوں کہ میرے قدم پل صراط پر ہیں اور ملک الموت میرے
پیچھے کھڑا ہے۔ اس حال میں کمال عظمت کے ساتھ تکبیر، حرمت کے ساتھ قیام،
ہیبت کے ساتھ قرأت، تواضع کے ساتھ رکوع، تضرع کے ساتھ سجدہ، حلم اور وقار
کے ساتھ جلسہ اور شکر اور اطمینان کے ساتھ سلام پھیرتا ہوں۔
حضرت داتا گنج بخش کے یہ ارشادات عالیہ برادرم افتخاربیگ صاحب کے پیار کی
نذر کرتے ہوئے مجھے ایک واقعہ یاد آتا ہے کہ جس میں ایک بچی کو ایک صاحب
روز پھول بھیجتے ہیں۔ ایک دن بچی پھول لانے والے کو کہتی ہے، اُن سے پوچھنا
روز پھول بھیجتے ہیں، خود کیوں نہیں آتے؟
سوشل میڈیا پر لوگوں میں آپس میں پیغامات کا تبادلہ آج کل عام سی بات ہے۔
ڈاکٹر صاحب آج کل مجھے بھی روز ایک ہنستا، مسکراتا، کھلکھلاتااور زندگی سے
بھرپور کوئی نہ کوئی پیغام ضرور بھیجتے ہیں، میرے لئے دعائیہ کلمات بھیجتے
ہیں۔ مگرخود نہیں آتے۔بہت دفعہ ملاقات کا پروگرام بنا مگر کسی نہ کسی وجہ
سے ملتوی ہوتا رہا کہ اپنے اپنے مقام پر کبھی تو نہیں کبھی میں نہیں۔مگر اب
امید ہے بہت جلد ہماری ملاقات ہوگی ۔ میرے لئے نیک دعاؤں اور اچھی تمناؤں
کے لئے میں ڈاکٹر صاحب کا ایک بار شکر گزار ہوں۔ |