قبائلی عوام کو اپناصوبہ دیں

دہشت گردی کے خلاف سب سے زیادہ قربانی دینے والے قبائلی عوام نے ہر موقعے اور ہر سطح پر مصیبتیں برداشت کی ہے۔قبائلی عوام کبھی ایف سی آر کے تحت مشکلات کا شکار ہوتے ہیں تو کبھی قبائلی رسم وروج جس میں زیادہ نقصان خواتین اٹھاتی ہے اس کے بھینٹ چڑ جاتے ہیں۔کچھ بھی نہ ہو تو یہ لوگ آپس کی دشمنیوں میں اپنے خاندان تباہ کردیتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے ان علاقوں میں بہت سے قدرتی وسائل پیدا کیے ہیں لیکن تاحال ان قدرتی وسائل سے کوئی خاظرخوا فائدہ نہیں اٹھایا گیاجس کی بنیادی وجہ ہماری حکومتوں کی نااہلی اور وہاں پر عوام کے نام پرووٹ لینے والے قبائلی ایم این ایز ہے جنہوں نے اپنے آپ کو اسلام آباد میں مضبوط اور بہتر تو کیا ہے لیکن قبائلی عوام کے مسائل کو پس پشت ڈالا ہے۔ غربت اور تعلیم نہ ہونے سے عام آدمی مشکلات کا شکار ہے۔ اربوں کھربوں فنڈز دینے کے باوجود وہاں تعلیمی ادارے تو دور کی بات ، علاج معالجے کی بنیادی سہولتیں بھی دستیاب نہیں ، پورے قبائلی علاقے میں کوئی ایک بڑا ہسپتال موجود نہیں ، مریضوں کو پشاور اور خیبر پختونخوا کے دوسرے ہسپتالوں میں لایا جاتا ہے۔ علاقہ پہاڑی ہونے کی وجہ سے آبادی کومشکلات اور ایک دوسرے ایجنسی سے بہت زیادہ فاصلہ ہونے کی وجہ سے بہت بڑی آبادی کو مشترکہ فائدہ نہیں پہنچایا جاسکتا ، اس لئے ہر ایجنسی میں ہسپتال ، اسکول ، کالجز اور یونیورسٹی الگ سے بنانے کی ضرورت ہے۔ اس طرح ہر علاقے کے مسائل اور مشکلات بھی جدا جدا ہے جس طرح پہلے فاٹا کے ان علاقوں میں آپس کے لڑائی جھگڑے ہوتے تھے جس میں بے گناہ مرتے تھے اب کم ازکم اس طرح تو نہیں ہے لیکن دہشت گردی کی جنگ کی وجہ سے ان علاقوں کا رسم ورواج سمیت بہت سی تبدیلی رونما ضرور ہوئی ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ قبائلی سسٹم اب اس طرح نہیں رہا جس طرح پہلے ہوا کرتا تھا تو غلط نہ ہوگا۔دہشت گردی کی جنگ اور قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کی موجود گی کی وجہ سے جہاں پر امریکا کی طرف سے ڈرون حملے ہوتے رہے ہیں وہاں پر تقریباً تمام ایجنسیوں میں پاک فوج کی جانب سے آپریشنز نے بھی قبائلی عوام کو بہت زیادہ متاثر کیا۔ اب حالات آہستہ آہستہ بہتری کی طرف جارہے ہیں ، قبائلی عوام کو بھی معلوم ہوا کہ یہ لوگ اسلام کے نام پر استعما ل ہوئے جس کی قیمت دوسروں کے ساتھ خود ان قبائلی عوام نے بھی اٹھا ئی ہے۔ اب وقت کا تقاضاہے کہ مستقبل میں ان علاقوں کو محفوظ بنانے اور دوبارہ دہشت گردوں اور شدت پسندوں کامسکن سے چھٹکارہ حاصل کرنے کیلئے حکومت کچھ بڑے فیصلے کرے تاکہ آئندہ ایسی نوبت نہ آئے ۔ قبائلی عوام کو اعتماد میں لینے اور ان کو وسائل دینے سے بہت حد تک مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ قبائلی عوام کا دیرینہ مطالبہ کہ قبائلی علاقوں کو حقیقی معنوں میں خود مختاری دی جائے جس میں انگریز کے کالے قانون ایف سی آر کا خاتمہ شامل ہے۔ اب حکومت نے فیصلہ کیا کہ قبائلی عوام کو خودمختاری دی جائیں گی اوران کو صوبہ خیبر پختونخوا میں شامل کیا جائے گا۔ وفاقی حکومت نے یہ فیصلہ چند لوگوں کی مشاورت سے گیا ہے لیکن حقیقت میں قبائلی عوام اپنے لئے الگ صوبہ چاہتے ہیں جو تمام سات ایجنسیوں پر مشتمل ہو جہاں ان کا اپنا وزیراعلیٰ اور نمائندے ہو ۔موجود ہ فیصلے کو زیادہ تر قبائلی عوام درست نہیں کہتے وہ چاہتے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں شامل ہونے سے ان کے مسائل حل نہیں ہوں گے ان کے مسائل اورمشکلات اسوقت حل ہوسکتے ہیں جب ان کو مکمل خود مختاری دی جائے اور الگ صوبہ دیا جائے۔

قبائلی عوام کا یہ مطالبہ غلط بھی نہیں ہے ،اب جبکہ پورے ملک یعنی صوبہ پنجاب ، بلوچستان ، سندھ اور خیبر پختونخوا میں عوام اپنے اپنے علاقوں میں الگ صوبہ چاہتے ہیں توان حالات میں قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا میں شامل کرنا ، حقیقت کی آئینہ داری نہیں کرتا۔ میں بالکل اس حق میں نہیں ہوں کہ صوبوں کو نسلی ، لسانی بنیادوں پر تقسیم کیا جائے لیکن میں اس بات کی پر زور حمایت کرتا ہوں کہ صوبوں کو انتظامی بنیادی پر تقسیم کرنا وقت کا تقاضا ہے۔اس طرح قبائلی علاقوں کو انتظامی بنیادی پر الگ صوبے کی حیثیت دی جائے نہ کہ خیبر پختونخوا میں شامل کیا جائے ۔ اگر آج وفاقی حکومت اس فیصلے پر عمل کرتی ہے اور فاٹا کو خیبر پختونخوا میں شامل کرتی ہے تو کل نہیں تو برسوں قبائلی عوام اپنے لئے الگ صوبے کا مطالبہ شروع کر یں گے۔ و فاقی حکومت حقائق کا ادراق کرتے ہوئے قبائلی علاقوں کو الگ صوبے کی حیثیت دیں، تاکہ قبائلی عوام کا دیرینہ مطالبہ بھی پورا ہوجائے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ہمارے ان جمہوری پسندوں کو وسائل اور اختیارات نیچے منتقل کرنے سے کیا پریشانی ہے۔جب تک ہمارے حکمران اختیارات کو انتظامی سطح پر نیچے منتقل نہیں کرتے اس وقت تک ملک کے مسائل حل نہیں ہوسکتے جتنے چھوٹے یونٹس ہوں گے اتنی ہی آسانی سے اس کوسنبھال جاسکتا ہے۔ قبائلی عوام کاا پنا صوبہ ہونے سے وہاں حکومت اور انتظامیہ عوام کو جوابدے ہوں گے اور فنڈز کا درست استعمال ہوگا۔دوسرا اہم معاملہ جو دہشت گردی کا ہے اس کی روک تھام بھی خود قبائلی حکومت اور عوام کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ کسی فرقے ، گروپ یا غیر ملکی کو اجازت نہ دے جو شدت پسندی اور دہشت گردی کو پروموٹ کرتا ہو۔ قبائلی علاقوں کو خیبرپختونخوا میں شامل کرنا وقتی حل ہوگا۔ اپنے حقوق اور قبائلی علاقوں کو الگ صوبے کی حیثیت دینے کیلئے قبائلی عوام اور عمائدین کو سڑکوں پر آنا ہوگا اورمشترک حکمت عملی بنانی ہوگی۔ تب جاکر وفاقی حکومت اپنی فیصلے پر نظر ثانی کرسکتی ہے وگرنہ حکومت فیصلہ کر چکی ہے ،قبائلی کو اپنا صوبہ نہیں بلکہ خیبرپختونخوامیں شامل کیا جائے گاجس سے بحیثیت صوبہ خیبر پختونخوا کو فائدہ اور قبائلی عوام کو نقصان ہوگا۔
Haq Nawaz Jillani
About the Author: Haq Nawaz Jillani Read More Articles by Haq Nawaz Jillani: 268 Articles with 203209 views I am a Journalist, writer, broadcaster,alsoWrite a book.
Kia Pakistan dot Jia ka . Great game k pase parda haqeaq. Available all major book shop.
.. View More