طلباء کے تین دشمن

ہر انسان ہمیشہ اپنے دشمنوں سے آگاہ و بیدار رہتا ہے تاکہ کسی بھی امکانی حالات ،مشکلات اور پریشانیوں کا بر وقت سامنا کرسکے۔دنیا میں بسنے والے ہر شخص کو اپنے دشمن سے خطرہ لاحق رہتا ہے۔دشمن سے لاحق خطرات کے پیش نظر ہی انسان ہر دم اپنے دشمن سے بچاؤ کی تدبیریں کرتا رہتا ہے۔دانشوروں کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو شخص دنیا کو فتح کرنا چاہتا ہے اس کو سب سے پہلے اپنی ذات کوفتح کرنا ضروری ہوتا ہے۔ہر شخص فطری طور پر خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ کامیاب انسا ن سے مراد ہر گز وہ شخص نہیں ہوتا ہے جس میں کوئی کوتاہی اور خامی نہ پائی جائے ۔بلکہ کامیاب انسان سے مراد وہ شخص ہوتا ہے جو اپنی خوبیوں کو نمایا ں کرنا اور خامیوں اور کوتاہیوں پر قابو پانا سیکھ لیتا ہے۔کامیاب شخص کی خوبیاں اس کی کوتا ہیوں پر ہمیشہ غالب رہتی ہیں۔اپنی زندگی میں کامیابی کے متمنی طلباء کے لئے سب سے پہلے اپنی ذات کے کمزور اور تاریک پہلوؤں کا جائزہ لینا اور اس کی اصلاح کرنا ضروری ہوتا ہے۔طلباء اپنی کمزور یوں سے پہلو تہی کرتے ہوئے نہ صرف تعلیمی سفر میں بلکہ ایک کامیاب زندگی گزارنے میں بھی یکسر ناکام ہوجاتے ہیں۔شخصیت یا ذات کے تاریک پہلوؤں پر طلباء جب اپنی توجہ مرکوز کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تب ان کی شخصیت میں تواز ن اور نکھار پیدا ہوجاتا ہے۔طلباء کی کمزوریاں ،طاقت میں بدل جاتی ہیں۔اس کے برخلاف طلباء اپنے تاریک پہلوؤں اور کمزوریوں سے جب قطع نظر کرتے ہیں تب وہ خود کو کئی مسائل ،کمزوریوں اور پریشانیوں میں گرفتارپاتے ہیں۔طلباء یا کسی بھی شخص کا تین قسم کی کمزوریوں سے ہمیشہ سامنا ہوتا رہتاہے جنھیں شخصیت کے دشمن کہا جاتا ہے۔ طلبا ء کا بھی ان تین دشمنوں سے ایام طالب علمی میں ہر گھڑی سامنا ہوتا رہتا ہے ۔اگر طلباء ان شخصیت دشمن عناصر سے آگہی حاصل کرلیتے ہیں ان سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کر لیتے ہیں تب وہ زندگی میں نامرادی ،مایوسی اور ناکامی سے خود کو محفوظ رکھنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔طلباء بلکہ ہر شخصیت کے جو تین دشمن ہوتے ہیں وہ یہ ہیں۔(1)طلباء یا کسی بھی شخص میں پائے جانے والے جبلتی یا فطری دشمن جیسے خوف(Fear)،تناؤ(Tension) اور احساس مایوسی و محرومی(Anguish) (2)حاصل کردہ (aquired enemy) اکتسابی یا تحصیل شدہ دشمن جیسے غصہ (Anger) اور احساس کمتری(Inferiority Complex)اور چڑچڑاپن (3)دلکش اور خوشنما دشمن (Attractive Devils/enemy)جیسے سستی (Laziness)،کاہلی(Procrastination) اور عدم توجہ(Lack of Attention) ۔

خوف و تفکرجیسے عناصر ہر فرد میں پیدائشی طور پر بلکہ اس کی سرشت میں پائے جاتے ہیں۔ان عناصر کی سرشت میں موجودگی کی وجہ سے انھیں داخلی،جبلتی یا شخصی عناصر سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ اپنے زندگی کے تجربات کی روشنی میں انسا ن اس بات کا ادرا ک کر تا ہے کہ بچے خوف کی وجہ سے روتے اور بلکتے ہیں۔بچے اپنی عمر کے ابتدائی سالوں میں غصہ اور احساس کمتری کے جذبات سے بالکل عاری ہوتے ہیں۔بچوں کی عمر میں جوں جوں اضافہ ہوتا جاتا ہے وہ اپنی ناکامیوں ،عدم اطمینان،اردگرد کے ماحول اور لوگوں کے غیر پسندیدہ برتاؤ اور رویوں کی وجہ سے اضطراب اور بے چینی کی کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں اور یہی اضطراب اور بے چینی ان میں غصہ کی پیدائش کا سبب بنتی ہے۔طلباء کی شخصیت کا تیسرا دشمن نہایت ہی دلکش اور خوبصورت ہوتاہے۔سستی ،تساہل اور کاہلی ہر انسان کی فطرت میں پنہاں ہوتی ہے۔انسانی سرشت میں موجود یہ عناصر نہایت ہی دلفریب ،خوش نما اور کیف آور ہوتے ہیں۔طلباء اگر ان عناصر پر قابو پالیں تو ایک متوازن اور کامیاب شخصیت ابھر کر آتی ہے۔سستی اور کاہلی کا راست تعلق آرام پسندی اور آرام طلبی سے ہوتا ہے ۔ عظیم کامیابیاں ہمیشہ آرام پسندی اور آرام طلبی کے خول سے باہر آکر ہی حاصل کی جاتی ہیں(All Success lies out side the comfort Zone)۔نہ صرف طلباء بلکہ اکثر افراد سستی اور کاہلی کے دلدادہ ہوتے ہیں۔طلباء کھلی آنکھ سے اپنی کاہلی اور سستی کی وجہ سے صرف خواب دیکھتے رہتے ہیں اور اپنی آرام پسندی کی وجہ سے کبھی ان کو شرمند ہ تعبیر نہیں کر پاتے ۔ آرام طلبی کی عادت ثانیہ کی وجہ سے طلباء اہم مسائل پر توجہ بھی مرکوز نہیں کر پا تے ہیں۔سستی اور کاہلی ایک ایسا نشہ ہے جس کے نقصانات سے طلباء واقف ہونے کے باوجو د بھی تضیع اوقات کو برا تصور نہیں کرتے ۔اکثر طلباء سستی اور کاہلی کو تو پسند کرتے ہیں لیکن ان کے مضمرات یعنی نقصانات سے متنفر رہتے ہیں جو خود فریبی کی ایک عمدہ مثال ہے۔

احقر کے بیان کردہ مذکور ہ بالا تینوں مفروضات ہوسکتا ہے کہ علمی اور نفسیاتی کلیات کے اصولوں پر پورے نہ اتریں اور نفسیات کی حقیقی اور سچی تصویر بھی پیش کرنے میں ناکام رہیں لیکن یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ طلباء اپنی کمزوریوں پر قابو پاتے ہوئے ایک بہترین اور کامیاب زندگی کی بنیاد ڈال سکتے ہیں۔انسان کو کسی بھی کمزوری کو طاقت میں بدلنے کے لئے سب سے پہلے اپنی کمزوریوں ،کوتاہیوں اور خامیوں کا جائزہ لینا ضروری ہوتا ہے۔جب انسان اپنی کمزوریوں ،کوتاہیوں اور خامیوں کا از خود جائزہ لیتا ہے تب وہ اپنے آپ کو خود فریبی کے اس جال سے آزاد کرنے کی نہ صرف کوشش کرتا ہے بلکہ آزاد کر بھی لیتا ہے۔طلباء کا ان دلکش اور پر کیف عادات سے راہ فرار اختیار کرنا ضروری ہوتا ہے۔روح تعلیم بھی انسانوں سے مسائل کا رونا رونے کے بجائے مسائل کے حل اور اس کے تدارک پر توجہ مرکوز کرنے کا تقاضہ کرتی ہے۔اس ضمن میں معروف ماہر نفسیات گارنالڈ ورتھنگٹن (Gernold Worthington)کا قول نقل کرنے کے لائق ہے۔’’جب میں کسی نو تعلیم یا فتہ گرایجویٹ سے نوکری کے ضمن میں انٹرویو کرتا ہو تو اس سے اس کی معلومات ،اور امتحان میں حاصل کردہ نشانات و گریڈ کے متعلق نہیں پوچھتا ہوں بلکہ اس کو آسان سے فرضی حالات پر مبنی واقعات و مسائل کو تفویض کرتا ہوں اور ان کے حل اور تدارک کے بارے میں ان کے ردعمل کو نوٹ کرتا ہوں۔جو امیدوار صرف حالات کا رونا روتے ہیں اور مسائل کے حل اور تدارک کے امکانات پر غور نہیں کرتے ہیں میں ان کو نیک خواہشات کے ساتھ رخصت کردیتا ہوں۔جو امیدوار مسائل کا جائزہ لیتے ہوئے ان کے تدار ک اور حل کے امکانات کو تلاش کرتے ہیں میں ان کو فی الفور نوکری کی پیش کش کردیتا ہوں۔‘‘یہ قول ہم کوتعلیم کے مقصد سے واقف کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ وہ تعلیم بے سود اور بے فیض ہوتی ہے جو انسانوں کو مسائل سے تو واقف کردے لیکن اس کے تدارک اور حل کے امکانات پیش کرنے میں ناکام رہے۔

کیف آور مضر مرحلے؛۔انسان اپنی تحقیق سے یہ پتہ لگانے میں کامیاب ہوگیا ہے کہ حیوانات کے مقاصد وقتی(وقتی ضرورت کے مطابق) اور دورس نتائج کے حامل نہیں ہوتے ہیں۔حیوانات کے مقاصد اپنی ذاتی ضروریات کی تکمیل جیسے حقیر مفادات پر مبنی ہوتے ہیں۔حیوان دورس فکر سے عار ی اور دائمی اور دیر پا قائم رہنے والے انعامات اور نوازشات سے بالکل آگاہ نہیں ہوتے ہیں۔اسی وجہ سے وقت طلب افعال اور نوازشات سے ان کو کوئی سروکار نہیں ہوتا ۔ اس کے بر خلاف انسان ہمیشہ دیر پا قائم، دائمی انعامات اور نوازشات کا متمنی اور متلاشی ثابت ہوا ہے۔لیکن آج بھی چند انسان حیوانات کی مذکورہ فطر ت کے حامل ہوتے ہیں وہ اپنے وقت کو وقتی لطف و سرور اور آرام و سکون میں بسر کرتے ہوئے زندگی کے اعلی مقاصد کا خون کردیتے ہیں۔طلباء اگر سماج میں ایک نمایا ں اور ممتاز مقام حاصل کرنا چا ہتے ہیں تب ان کو حیوانوں کے اس طرز عمل سے اجتناب کرتے ہوئے وقتی آرام و لذت کے دلکش خول سے باہر آنا ضروری ہوگا۔مندرجہ ذیل چار دلکش اور پرفریب عادات سے طلباء خود کو محفوظ رکھتے ہوئے عظیم کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔(1)مستقبل سے رو گردانی کرتے ہوئے عارضی خواہشات و خوشیوں کو فوقیت دینا؛۔اﷲ رب العز ت نے اس دنیا کو ایک نظام کے تحت قائم کر رکھا ہے اگر کوئی بھی اس نظام میں دخل اندازی کرے گا اس کے نتائج بہت ہی تباہ کن اور ہولنا ک ہوں گے۔طلباء ایام طالب علمی میں صرف حصول علم کو مدنظر رکھیں فضول اور لایعنی افعال سے اجتناب کریں۔اگر یہ زمانہ خرافات کی نظر ہوگیا تب دنیا کوئی بھی طاقت ان کو ذلت رسوائی اور ناکامی سے نہیں بچا سکتی ۔حصول علم میں وقتی آرام و آسائش ،لطف و سرور بہت بڑی رکاوٹ ہوتے ہیں اگر طلباء ان رکاوٹوں سے خود کو بچا نے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تب ان کو مستقبل کی تمام خوشیاں اور راحتیں میسر آتی ہیں اور یہ خوشیاں وقتی نہیں بلکہ دیر پا ثابت ہوتی ہیں۔پڑھائی کے دنوں میں حد سے زیادہ تفریح ،کھیل کود اور دیگر تفریحات سے جب طلبا اپنا دامن بچاتے ہیں تب ان کے جلو میں زندگی کی دائمی خوشیاں اور کامیابیاں محو سفر رہتی ہیں۔(2)وقتی صورتحال سے طلباء کی نبر د آزمائی میں ناکامی بڑے مسائل کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے؛۔طلباء جب وقتی مسائل کو حل نہیں کرتے ہیں تب یہ تساہل ناگہانی خطرناک حالات کی پیدائش کا سبب بنتا ہے۔بروقت مسائل کے حل سے نہ صرف طلباء بلکہ ہر انسان ایک آسودہ اور مطمین زندگی بسر کرسکتا ہے۔حصول علم کے زمانے میں طلبا ء اگر مطالعہ نہ کریں اور دوسری غیر ضروری سرگرمیاں جن میں ان کو لطف و سرور حاصل ہوتا ہے انجام دینے لگیں تب و ہ ایک بہتر مستقبل کی ہرگز امید نہیں کرسکتے ۔(3)وقتی خرابی کی عدم اصلاح کے سبب مستقبل کے فوائد سے محرومی؛۔وقت کے تقاضوں کی تکمیل کے بجائے جب طلباء لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہیں تب وہ مستقبل کے فوائد سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔بہتر طور پر تعلیم پر توجہ مر کوزکرتے ہوئے طلباء مستقبل میں اچھی ملازمت اور بہتر پیشہ کے حصول کو ممکن بنا سکتے ہیں۔طالب علمی کے زمانے مین فن گفتگو کو فروغ دینے والے عوامل سے عدم التفات،انگریزی زبان و بیان اور الفاظ ومعنی کا روزمرہ زندگی میں استعمال سے گریز کے علاوہ مستقبل میں آسودہ اور مطمئین زندگی بسر کرنے کے لئے خود کو ایام طالب علمی میں تیار نہ کر پانا مستقبل کے فوائد سے محرومی کا سبب بنتے ہیں۔(4)وقتی راحت کے بدلے مستقبل کی پریشانیوں سے بے خبری؛۔طلباء اپنی لاعلمی اور فطری تجربہ کی کمی کے وجہ سے ایسے افعال انجام دینے لگتے ہیں جن سے ان کو وقتی راحت ،سکون اور مسرت حاصل ہوتی ہے۔سگریٹ نوشی اور دیگر نشہ آور ادویات اور مشروبات کے استعمال میں طلبا ابتدا میں اسی کیفیت کی وجہ سے گرفتار ہوتے ہیں اور اسی مسرت و لطف کی وجہ سے وہ مستقبل کے مضمرات سے بے خبر بھی ہوجاتے ہیں ۔یہی وقتی لطف و سکون ان کو دائمی عوارض کا شکار بنادیتا ہے۔طلباء وقتی راحت ،مسرت اور سکون کے بجائے اپنے مستقبل کی تعمیر میں مصروف رہیں۔حضرت علی کا فرمان ہے کہ ’’جانور میں خواہش اور فرشتے میں عقل ہوتی ہے۔مگر انسان میں یہ دونوں ہوتے ہیں۔اگر وہ عقل کو دبالے تو جانور اور اگر خواہش کو دبالے تو فرشتہ بن جاتا ہے ۔‘‘طالب علم اب طئے کریں کہ ان کو کیا بننا ہے۔چھوٹے چھوٹے افعال کی انجام دہی میں چستی سے طلباء کی شخصیت نکھر جاتی ہے ۔طلباء توجہ اور دلچسپی سے اپنے ہر کام کو انجام دیں۔ایک وقت پر ایک ہی سرگرمی انجام دیں۔ترجیحات کے تعین میں احتیاط سے کام لیں اور اس ضمن میں اساتذہ سے مشاورت نہایت سود مند ثابت ہوتی ہے۔ایک آدمی جنگل میں رہائش پذیر ایک بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا’’حضرت لوگ کہتے ہیں کہ آپ کے پا س ایک ایسی اشرفی ہے وہ جس کے بھی پاس ہوگی وہ کبھی ملول نہیں ہوگا۔ ‘‘اور پوچھنے لگا کہ’’ کیا یہ بات درست ہے؟‘‘بزرگ نے مسکراتے ہوئے اشرفی دکھائی۔بے تابی سے وہ شخص کہنے لگا ’’حضر ت یہ اشرفی مجھے دے دیجیئے میں اس کی منہ مانگی قیمت دوں گا۔‘‘بزرگ نے کمال مروت سے انکار کردیا۔رات زیادہ ہوچکی تھی بزرگ نے آدمی سے رات وہیں بسر کرنے کو کہا۔آدمی رات بھر اشرفی کی تلاش میں مصروف رہا۔علی الصبح جب بزرگ اپنی جھونپڑی سے باہر نکلے تب وہ پوری چھونپڑی میں اشرفی کو تلاش کرنے لگا حتی کہ بزرگ کے اور اپنے بستر میں بھی اشرفی کو ڈھونڈا لیکن ناکام رہا۔جب بزرگ واپس لوٹے وہ ان سے عاجزی کرتے ہوئے اشرفی کا پتہ پوچھنے لگا۔بزرگ نے اس شخص کے تکیے کو سرکا یا جہا ں اشرفی موجود تھی۔بزرگ نے اس شخص سے کہا کہ اشرفی تمہارے تکیے کی نیچے تھی اور تم اسے ڈھونڈ نہیں سکے بالکل اسی طرح سکون اور کامیابی انسان کے اندر ہی بستی ہے لیکن وہ اسے دوسروں میں اور دوسری جگہ پر ڈھونڈ کر اپنا وقت اور زندگی برباد کر لیتا ہے۔طلباء اپنی ذات کا جائزہ لیتے ہوئے نہ صرف اپنی شخصیت کی اصلاح کر سکتے ہیں بلکہ فقید المثال کامیابیوں کو اپنا مقدر بنا سکتے ہیں۔

عادت اور مسرت؛۔ہر انسان اپنی زندگی کے ایا م خوشی اور اطمینان سے بسر کرنا چاہتا ہے۔ اچھی زندگی کی آرزؤ تو کی جائے لیکن اچھی زندگی بسر کرنے کے لئے عملی اقدامات نہ کئے جائیں تب آرزؤئیں حسرتوں میں اور حسرتیں غموں میں بدل جاتی ہیں۔صحت مند فکر کے حامل افراد ہمیشہ چھوٹے چھوٹے افعال کی انجام دہی کے ذریعہ ایک مطمین اور پر مسرت زندگی کی بنیارکھتے ہیں۔وہ محنت کشی اور جانفشانی کے جذبے سے ہمیشہ سرشاررہتے ہیں۔وقت پر ہر کام کی انجام دہی کو اپنا شعار بنالیتے ہیں ۔تساہل ،سستی اور کاہلی سے ابتدا میں مسرت اور آرام تو حاصل ہوتا ہے لیکن اس کے پیچھے ناکامیوں ،محرومیوں اور بربادیوں کا ایک طاقتور دستہ لاپرواہ اور تساہل پسند وں کی گھات میں رہتا ہے۔طلباء ابتدا سے ہی اپنے ہر کام کو دلجمعی اور دلچسپی سے انجام دینے کی عادت قائم کر لیں۔بعض عادتیں لمحاتی مسرتیں تو فراہم کرتی ہیں لیکن ان کے ساتھ زندگی بھر کی ناکامی مایوسی اور محرومیاں حاصل ہوتی ہیں۔طلباء کے لئے مطالعہ ایک بور اور ٹیلی ویژن دیکھنا ،کھیل کود و دیگر تفریحات ایک پر مسرت عمل لگتا ہے۔ ایک کسان کو مانسون کی آمد سے قبل اپنی زمین کو نرم کرتے ہوئے اپج کے لائق بنا نا ضروری ہوتا ہے۔اگر کسان مانسون کی آمد سے پہلے کام سے جی چرائے یا پھر فصل کی داخت پرداخت میں لاپرواہی سے کام لیے تب وہ اپنی فصل سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔اسی طرح طلباء ایام طالب علمی میں لغو تفریحات اورتعلیم سے دلچسپی کم کرنے والے مشاغل سے تعلق پیدا کرلیں تب کسان کی طرح اپنی مستقبل سے ہا تھ دھو بیٹھتے ہیں۔کسان کا نقصان پھر بھی ایک موسم اور ایک فصل تک محدود ہوتا ہے لیکن طلباء ایسے نقصانات سے دوچار ہوجاتے ہیں جس کی پابجائی وہ چاہا کر بھی زندگی بھرنہیں کر پاتے ہیں۔طلبا ء کے لئے ضروری ہے کہ وہ سنت اﷲ اور قانون فطرت کا احترام کریں اور ہر پل اپنے آپ کو اﷲ کے بتائے ہوئے راستے پر گامزن رکھیں۔انگریزی کا معروف قول ہے "As winter tests trees leaves, Summer tests the rivers, Vices tests human beings."(جہاں سرما درختوں کوان کے پتوں سے ،گرما دریاؤں کو روانی سے محروم کردیتا ہے ، اسی طرح عادتیں انسانو ں کو بھی آزمائشوں میں مبتلاکر دیتی ہیں)۔تما م عادتیں خراب اور بری نہیں ہوتی ہیں ۔عادتو ں کی بھی دو اقسام پائی جاتی ہیں،اچھی اور بری۔صبح کی چہل قدمی ،باغبانی ،کتب بینی،جسمانی ورزش وغیرہ اچھی عادتوں میں شمار کی جاتی ہیں۔اس کے برخلاف وہ افعال جو جسمانی اور ذہنی صحت پر خراب اثرات مرتب کرتے ہیں خراب عادتیں کہلاتی ہیں۔نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی طلباء سگریٹ نوشی ،تعلیم سے بے رغبتی ، روزمرہ کی تعلیمی افعال کی انجام دہی میں لاپرواہی ، تساہل پسندی سے کام لیکر،آج کے کام کو کل پرموخر کرتے ہوئے، بے راہ روی اور اسی طر ح کی دیگر خراب عادتوں کو اپنا کر اپنے بڑے ہونے کا اعلان کر نا چاہتے ہیں۔ابتدا میں یہ عمل مسرت اور لطف کے حصول کیلئے انجام دیا جاتا ہے لیکن ان افعال کو لگاتار انجام دینے کی وجہ سے یہ افعال جڑ پکڑنے لگتے ہیں اور عادت ثانیہ یا پھرایک لت کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ چائے نوشی ،سگریٹ نوشی اور دیگر نشہ آور ادویات و مشروبات کا استعمال ابتدا میں اضطراب میں کمی اور آسودگی کے حصول کا ذریعہ سمجھاجاتا ہے لیکن جب یہ افعال عادت ثانیہ کا روپ دھار لیتی ہیں تب انسان اپنی عظمت سے محروم ہوکر ذلیل و خوار ہوجاتا ہے۔ بر ی عادات کی وجہ سے انسان اپنی صحت ،عزت و ناموس ،وقار اور بعض مرتبہ اپنی زندگی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔طلباء جن کی ایک بڑی تعداد نوجوانوں پر مشتمل ہوتی ہے اپنی زندگی کے ابتدائی دور میں جہا ں مستقبل کی بنیادیں ڈالی جاتی ہیں تعلیمی مقاصد سے عدم تعارف کی صورت میں سراب کو حقیقت سمجھ لیتے ہیں اور کھوکھلی خوشیوں کو دائمی خوشیوں پر ترجیح دینے کی وجہ سے زندگی بھر خوشیوں اور اچھی زندگی کی تلاش میں سرگرداں اور پریشاں رہتے ہیں ۔ طلباء کی شخصیت کی بنیا دیں ان کی طالب علمی کے زمانے میں رکھی جاتی ہیں۔اسی لئے طالب علمی کے دور کو بڑی اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔طلباء کی روشن و سنہر ے مستقبل کی سمت پیش قدمی کو جاری رکھنے کے لئے ان کو شخصیت کے دشمن عناصر سے واقف کرناضروری ہوتا ہے۔ اس مضمون کے ذریعہ طلباء کو ان کی شخصیت کے تین دشمنوں سے سرسری طور پر متعارف کیا گیا ہے۔ان شاء اﷲ اگلے مضامین میں ہر دشمن کے بارے میں تفصیلی روشنی ڈالی جائے گی تا کہ طلباء اپنی شخصیت کو سنوار اور نکھارکربہتر مستقبل کو ممکن بنا سکیں۔
farooq tahir
About the Author: farooq tahir Read More Articles by farooq tahir: 131 Articles with 236723 views I am an educator lives in Hyderabad and a government teacher in Hyderabad Deccan,telangana State of India.. View More