پاکستانی انسان جو پیچھے رہ گیا

عالمی اداروں کی رپورٹیں جب شائع ہوتی ہیں تو پاکستانی لوگوں کو سہولتوں کے لہاظ سے بہت پیچھے دکھاتی ہیں۔چنددن پہلے چھپنے والی رپورٹ میں پاکستان کو تعلیمی لہاظ سے50سال پیچھے دکھایا گیا تھا۔اور اب ایک رپورٹ صحت کی سہولتوں کو سامنے رکھ کر مرتب کی گئی ہے۔اس میں ہم148ممالک سے پیچھے ہیں۔کل ہی خبر تھی کہ ایک معروف عالمی ادارے کی یونیورسٹی رینکنگ شائع ہوئی اور پہلی6سو نیورسٹیوں میں پاکستان کی کوئی بھی یونیورسٹی نہ تھی۔جبکہ بھارت،ملائشیاء،سعودی عرب اور ترکی اس فہرست میں جگہ پانے میں کامیاب رہے تھے۔انسانی ترقی کے دیگر اشارے بھی پاکستان جیسے بڑے ملک کوبہت پیچھے ہی ظاہر کرتے ہیں۔وزیر اعلیٰ سندھ نے خود تسلیم کرلیا ہے۔کہ دیہاتوں میں بہت سے پرائمری سکول بند پڑے ہیں۔جو کھلے ہیں انکی کارکردگی بھی برائے نام ہی ہوتی ہے۔فاٹا تودہائیوں سے تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم ہی نہیں کررہا۔لوگ جب اپنے وطن سے ہی نقل مکانی پر مجبور ہوں تو تعلیم وصحت کی سہولیات فراہم کرنا بہت ہی مشکل ہوجاتا ہے۔سوات والوں کی واپسی2009ء میں بہت جلد ہوگئی تھی۔صحت وتعلیم اور رفاہی سرگرمیاں جلد بحال ہوگئیں تھیں۔ وزیرستان کے علاقوں کی طرف واپسی میں بہت عرصہ لگا۔ابھی بھی یہ کام صرف80۔فیصد ہی ہوا ہے۔سہولیات اورخدمات کی بحالی ابھی دور کی بات ہے۔جو کچھ ہورہا ہے وہ ہمارے فوجی جوانوں کی محنتوں کا نتیجہ ہے۔موجودہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں سے توقع تھی کہ وہ انسان کو فوکس کرے گی۔ایسے شعبوں کو ترجیح دی جائے گی جس سے انسان زیادہ سے زیادہ سہولیات میں زندگی گزار سکے۔لیکن موجودہ لوگوں نے آکر اپنی پوری توجہ صرف انفراسٹرکچر کی طرف لگادی۔ایسے تمام منصوبوں کا فائدہ توہوتا ہے۔شرح نمو بڑھتی ہے۔معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔لیکن اس کے مثبت اثرات عوام تک دیر سے پہنچتے ہیں۔پاکستان میں اگرچہ غربت کی شرح سرکاری طورپر کئی سالوں سے بتائی نہیں جارہی۔لیکنU.N.D.Pوالے شدید غربت کی شرح27.4۔فیصد بتاتے ہیں۔دیکھاجائے تو یہ ایک بڑی تعداد ہے۔کیا بے نظیر انکم سپورٹ کے ذریعے یہ انکی غربت ختم کی جاسکتی ہے۔؟۔اس پروگرام کو شروع کئے اب نواں سال جارہا ہے۔لیکن غربت میں بڑا Dentنہیں پڑ رہا۔محترم جناب وزیراعظم صاحب کو اس پورے پروگرام کاجائزہ لینا ضروری ہے۔اس پروگرام پر اب سالانہ100۔ارب سے بھی زیادہ رقم خرچ ہورہے ہیں۔انسانی ترقی کے اشاریہ والی رپورٹ میں 187ممالک کو دکھایا گیا ہے۔اور ہمارا نمبر145پر ہے۔پوری دنیا میں نیچے چند ممالک ہی رہ گئے ہیں۔ H.D.I رپورٹ میں جن شعبوں کو سامنے رکھ کر رپورٹ بنائی جاتی ہے۔ان میں مرد ۔عورت کی سہولتوں کے درمیان امتیاز میں کمی لانا۔غربت،ماحول کی صفائی،قدرتی آفات کے اثرات کو گھٹانا۔تعلیم وصحت میں بہتری،آبادی پر کنٹرول اور معیشت میں بہتری جیسے شعبے شامل ہوتے ہیں۔عورتیں ابھی صرف23۔فیصدلیبر فورس کا حصہ شمارہوتی ہیں۔شدید غربت جیسا کہ پہلے بھی بتایا گیا27.4۔فیصد ہے اور پینے کا صاف پانی صرف55۔فیصد لوگوں کو میسر ہے۔ابھی چند دن پہلے وزیر اعظم نے پورے ملک میں200۔ارب روپے سے ہسپتال قائم کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔لیکن ایسی سہولیات کی فراہمی کا معیار اس وقت قائم ہوتا اگر وفاقی حکومت آتے ہی ایسا اعلان کرتی۔اب جبکہ الیکشن میں صرف 1-1/2سال رہ گیا ہے۔مجوزہ کوئی بھی ہسپتال تکمیل کو نہیں پہنچ سکے گا۔یہ اعلان واضح طورپر سیاسی سا نظر آتا ہے۔تیزی سے بلڈنگیں کھڑی کرنے کا فائدہ کم ہی ہوتا ہے۔ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ2009ء میں ایک تعلیمی پالیسی بنائی گئی تھی۔اور اس میں یہ کہاگیا تھا کہ 2سال کے اندر اندر شعبہ تعلیم پر قومی آمدنی کا4۔فیصد خرچ کیاجائے گا۔لیکن اب تو 7سال گزر چکے ہیں۔تعلیم پر سرکاری خرچ اب بھی قومی آمدنی کا2۔فیصد ہی ہے۔انسانی ترقی کے بہت سے شعبے ہیں۔لیکن صحت اور تعلیم ان میں بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔اگر سابقہ جمہوری حکومت اور موجودہ حکومت کا دور دیکھا جائے تو یہ دونوں شعبےNeglectedہی نظر آتے ہیں۔اب عوام یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ان دونوں شعبوں کا تعلق حکمرانوں سے ہے ہی نہیں۔انکے بچے بھی باہر ہی رہتے ہیں۔باہر ہی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔علاج ومعالجہ کے لئے بھی یورپ اور امریکہ کے ہسپتال استعمال ہوتے ہیں۔پیپلز پارٹی،مسلم لیگ اور تیسری بڑی پارٹی پی۔ٹی۔آئی اس شعبہ میں برابر ہیں۔ماحول کی صفائی کے لئے صرف کراچی کی مثال ہی کافی ہے۔سیلاب کے برے اثرات سے ملک کا بے شمار نقصان ہوتا ہے۔آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔اور کسی کو بھی پاکستان میں موجودہ انسانوں کی تعداد کا پتہ ہی نہیں ہے۔جب تعداد کا ہی پتہ نہ ہو تو سہولیات کی فراہمی کا اندازہ تو لگایا ہی نہیں جاسکتا۔پاکستان میں انسانوں کی بڑی تعداد برے حالات کا شکار ہے۔نوجوانوں کی تعداد تو تمام ممالک کی نسبت زیادہ ہے۔لیکن اسے کارآمد بنانے کے لئے تعلیم اور صحت کے نظاموں کا معیاری ہونا ضروری ہے۔تمام پاکستانیوں کو ملک کو سیکیورٹی ریاست کی بجائے فلاحی ریاست بنانے کی طرف توجہ دینی چاہیئے۔جنگی جنون بڑھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔یہ تمام باتیں جذباتی ہوتی ہیں۔جنگوں کی وجہ سے قومیں برباد ہوجاتی ہیں۔میڈیا کو کوشش کرنی چاہیے کہ لوگوں میں جنگی جنون نہ پیدا ہو۔ہمیں اس سے پہلے کسی بھی جنگ سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔اور نہ آئندہ بھی نہیں ہوگا۔اپنے وسائل کو تعلیم اور صحت پر لگانا چاہیے۔صحت مند اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں پر مشتمل قوم ہی اپنے مستقبل کے بارے سوچتی ہے۔آگے بڑھتی ہے۔ترقی کرتی۔تعلیم سے ہی انسان تحقیق و تخلیق کی طرف بڑھتا ہے۔کچھ نیا کرنا ہی زندگی ہے۔ان پڑھ اور بیمار لوگ میٹروبس اور میٹروٹرین میں سفر کرتے اچھے نہیں لگتے۔لاہور میں میٹرو بس سسٹم گزشتہ دور میں مکمل ہوگیاتھا۔اور اب200۔ارب روپے سے میٹروٹرین چلانے کی کوشش صرف اور صرف سیاست کے لئے ہے۔تاکہ لوگوں کو ایک بڑی اور نئی شے نظر آئے۔یہ محدود وسائل کا غلط استعمال ہے۔اتنی بڑی رقم پورے صوبے کے سکولوں اور ہسپتالوں پر لگا کر معیار بلند کیاجاسکتاتھا۔پاکستان میں انسان پیچھے اور سیاست آگے جارہی ہے۔پالیسیوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
Prof Jamil Chohdury
About the Author: Prof Jamil Chohdury Read More Articles by Prof Jamil Chohdury: 72 Articles with 49822 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.