کہتے ہیں کے ’’شادی‘‘ایک ایسا ’’لڈو ‘‘ ہے
جو کھائے وہ بھی پچھتائے اور جو نہ کھائے وہ بھی پچھتائے۔جب مرد یا عورت
جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں یعنی بالغ ہو جاتے ہیں تو پہلا سوال جو
زہن میں آتا ہے وہ یہ ہوتا ہے کے اب شادی کب ہو گی اور ہمارے ماں باپ کہتے
ہیں کے بیٹا پہلے اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جا پھر کر لینا شادی،بچہ دل میں
سوچتا ہے کے میں اپنے پاؤں پر نہیں تو کیا دوسروں کے پاؤں پر کھڑا ہوں ،ہمارے
ماں باپ آج کل یہ بھی سوچتے ہیں اگر شادی کر دی تو یہ ہمیں پوچھے گا بھی
نہیں بیوی کا ہو جائے گا ،جتنا خرچہ ہم نے اس کو کھلانے پلانے جوان کرنے
اور پڑھائی میں کیا وہ پورا ہو جائے تب کریں گے بیٹے کی شادی ،اچھا کچھ
ایسی سوچ لڑکی کی بھی ہوتی ہے لیکن وہاں بھی بڑوں کی سوچ ہوتی ہے کے لڑکا
جیسا بھی ہو فیملی کھاتی پیتی ہونی چاہئے تا کہ ہماری بیٹی خوش رہے اچھااب
کون صحیح ہے کون غلط یہ بات ہمیں شریعت محمدی بتائے گی۔
۱) شادی کرنے کی شریعت محمدی میں بہت زیادہ تاکید ہے تا کہ انسان اپنے نفس
کو گناہ گار ہونے سے بچا سکے آج کل نیٹ،کیبل کا دور ہے پہلے والا ماحول
ابھی کسی بھی گھر میں نہیں رہا پیار محبت چیٹنگ فون اتنا عام ہو گیا ہے کے
انسان اچھی چیزوں کو بھی برے کاموں کے لئے استعمال کر رہا ہے۔
۲)رہی بات یہ کے ماں باپ بچوں کی شادیاں لیٹ کرتے ہیں تا کہ وہ کما لے اچھی
طرح پھر کریں گے اب اگر وہ ۳۰ یا ۳۲ سال تک کمانے کے قابل ہوا تو اُسی وقت
اُس کی شادی کی جاتی ہے یہ سوچ بھی غلط ہے کیوں کے رسول ؐ کی حدیث ہے:تم
شادی کرو اگر تم فقیر بھی ہو تو اﷲ تمہیں غنی کر دے گا کیوں کے اولاد مرد
کی قسمت سے ہے اور پیسہ عورت کی قسمت ہے۔تو انسان ہمت کرے اور شادی کرے ایک
اچھا معاشر ہ تشکیل پائے گا کیوں کے جب گناہ ہی نہیں ہوں گے تو معاشرے کو
تو اچھی ہونا ہی ہے۔
۳)اورماں باپ کا یہ سوچنا کے ہمیں پوچھے گا نہیں بیوی کا ہو جائے گا تو اس
کا بہترین حل یہ ہے کے ہر ماں باپ اپنے گریبانوں میں جھانکیں اگر انہوں نے
کسی کے لڑکے کو اُس کے ماں باپ سے جدا کیا ہے تو یقیناً یہ وقت آپ کو بھی
دیکھنا ہے لیکن اگر آپ نے ایسا نہیں کیا ہے تو بے فکر ہو جائیں بے شک اﷲ
احسان کا بدلہ احسان سے دیتا ہے ،اور دوسری بات ماں باپ کے اپنے حقوق ہیں
اور بیوی کے اپنے آپ نے دونوں کو ساتھ لے کر چلنا ہے نہ ماں کے لئے بیوی کو
برا کہنا ہے نہ بیوی کے لئے ماں کو برا کہنا ہے ،دونوں کا خیال رکھنا بیٹے
اور شوہر پر واجب ہے۔
۴)اور لڑکی والوں کا یہ سوچنا کے لڑکا جیسا بھی ہو بس فیملی کھاتی پیتی
ہونی چاہئے یہ بھی غلط ہے کیوں کے شادی کے بعد صرف کھانا پینا گھومنا پھرنا
ہی نہیں ہوتا دوست ،رشتہ دار،وغیرہ سب ہوتے ہیں ،شوہر پیسے والا ہے لیکن
کردار کا اچھا نہیں ہے تو ایسے پیسے کا کیا فائدہ،اس لئے شریعت کا اُصول ہے
کے شادی کرتے وقت لڑکے کا کردار اچھا دیکھو چاہے وہ تھوڑا کم کماتا ہو شادی
کے بعد اﷲ رزق کو بڑھا دیتا ہے ،دوسری بات لڑکے کی ماں کو دیکھو کیوں کے
باپ تو سارا دن گھر میں ہوتا ہی نہیں ماں کی تربیت میں بچے پروان چڑھتے ہیں
اگر ماں اچھی ہو گی تو بیٹا بھی اچھا ہو گا اور بیٹی بھی اور اگر ماں اچھی
نہ ہو تو تربیت میں کہیں نہ کہیں ضرور غلطی کرے گی اس لئے ہمیں اپنی
اولادوں کی شادیاں بہت دیکھ بھال کر کرنی چاہئیں تا کہ طلاق کا رجحان بھی
کم ہو۔ |