مشاہیر کے ایام پر تعطیل ؟
(M.Jehan Yaqoob, Karachi)
جمہوری معاشرے کا حسن ہے کہ اس میں مشاہیر
کوخراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ان کے ایام ولادت ووفات کو
منایاجاتاہے۔پاکستان میں بھی اس کے قیام کے بعد سے تاہنوز یہ سلسلہ جاری ہے
۔مشاہیر کے دنوں کو منانے کی وطن عزیزمیں ایک سب سے زیادہ رائج صورت یہ ہے
کہ ان کے ایام وفات وولادت پر عام تعطیل کا اعلان کیا جاتاہے۔اس دن تعلیمی
اداروں سمیت دفاتر کو تالالگتاہے۔یوں مشاہیر کے یہ ایام تفریح وآرام یا میل
ملاقات کے ایام بھی بن جاتے ہیں کہ چھٹی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملازمت پیشہ
لوگ اس دن اپنے بچوں کے ساتھ تفریح پر نکل جاتے ہیں یااپنے جاننے والے دوست
احباب اور بزرگوں سے ملاقات کی غرض سے ان کے ہاں چلے جاتے ہیں۔ان ایام میں
چھٹی کایہ اضافی فائدہ ہے ،ورنہ اس کا جو اصل مقصدہے یعنی مشاہیر کو خراج
عقیدت پیش کرنا،یہ بھی کسی نہ کسی حد تک یوں پوراہوجاتاہے کہ ان کی شخصیت
اور خدمات کے حوالے سے ٹی وی چینلز پروگرام نشر کرتے ہیں،مذاکرے اور
سیمینارزمنعقد کیے جاتے ہیں ،تقریبات کا اہتمام ہوتاہے،اور کم ازکم درجے
میں اتنا توضرور ہوتاہے کہ خلاف معمول چھٹی ہوجانے پر بچے اپنے بڑوں سے
پوچھتے ہیں کہ آج ویک اینڈ بھی نہیں ،پھربھی چھٹی کیوں ہے؟جس کے جواب میں
انھیں چھٹی کی وجہ بننے والی شخصیت سے متعارف کرادیاجاتاہے۔چھٹی کے ان
فوائد کے پیش نظر ان کی کسی نے مخالفت نہیں کی اور وطن عزیزکے ہر طبقے سے
تعلق رکھنے والے لوگ ان چھٹیوں کے قائل ہیں ۔
ذوالفقار علی بھٹو کے بعدمیاں محمد نواز شریف وطن عزیزکے وہ دودسرے
جہاندیدہ وانقلابی سربراہ ہیں جن کا نام تاریخ میں جہاں دوسرے متعددحوالوں
سے یاد رکھاجائے گا،وہاں چھٹیوں کے حوالے سے بھی ان کی ’’اصلاحات‘‘بھلائی
نہ جاسکیں گی۔یہ میاں صاحب کی خوبی ہے کہ انھوں نے دوسرے ایشوزکی طرح اس
معاملے میں بھی اصلاحات فرمائیں۔ورنہ دوسرے حکم رانوں نے اس جانب توجہ نہ
دی۔اپنے پہلے دورحکومت میں میاں صاحب نے جمعے کی چھٹی ختم کرکے اس کی جگہ
اتوار کی عام تعطیل کافیصلہ کیا۔اس پر کئی حوالوں سے اعتراضات بھی کیے گئے
۔ایک قوی اعتراض تویہ سامنے آیاکہ چوں کہ جمعے کی چھٹی ذوالفقار علی بھٹوکا
کارنامہ ہے،جس کی وجہ سے وہ تاریخ میں یاد رکھے جاتے،اس ڈر سے میاں صاحب نے
اس کارنامے کی شکل مسخ کردی ہے۔مذہبی ودینی طبقات کی طرف سے جمعۃ المبارک
کے تقدس واحترام اور فضیلت وانفرادیت کو سامنے رکھتے ہوئے اعتراضات کیے
گئے۔قصہ کوتاہ ہرقسم کے اعتراضات ہوامیں تحلیل ہوکر رہ گئے اور میاں صاحب
نے اپنے فیصلے کو برقراررکھا۔اسی طرح گزشتہ سے پیوستہ برس انھوں نے ترجمان
حقیقت علامہ محمد اقبال ؒ کے یوم ولادت کی عام تعطیل ختم کرنے کا اعلان
کیا۔اس اعلان کو جانے کیوں ٹھنڈے پیٹوں ہضم کیا گیا اور سیاسی ایوانوں میں
کوئی ہلچل نہیں ہوئی،شاید اس لیے کہ علامہ اقبال ؒ کے نظریات کے برعکس آج
کل سیاست دانوں کی اکثریت لبرل ازم کی دل دادہ ہے۔خیر وجہ یہ تھی یا کوئی
اور،بہر حال یہ فیصلہ بھی نافذالعمل ہوگیا۔اس موقع پر پیپلز پارٹی اپنے
بانی قائد کو بھی بھول گئی،کہ یوم اقبال ؒ کی تعطیل بھی ان کا فیصلہ تھا۔سب
سے پہلے بھٹو صاحب نے 1977 کو سالِ اقبال ؒکے طور پر منانے کا فیصلہ کیاتھا،
پاکستان میں یوم اقبالؒ کی تقریبات اس وقت تک 21اپریل کویعنی شاعر مشرق کے
یوم وفات پر ہوا کرتی تھیں ،مگر قومی سطح پر فیصلہ ہوا کہ اب 9نومبر کو یوم
اقبال کے طور پر منایا جائے گا۔ہم یہ عرض کررہے تھے ’’وسیع ترقومی
مفاد‘‘میں پی پی کویہ بات یاد نہ رہی اور اس نے میاں صاحب کے اس فیصلے
کی،جوانھوں نے امرکاواپسی کے فوری بعد کیا تھا،قبول کیا۔چھٹیوں کے حوالے سے
تیسری انقلابی اصلاح جومیاں صاحب نے کی ،وہ گزشتہ برس قلیتو ں کے مذہبی
تہواروں پرچھٹی کی قراردادکی منظوری ہے،اب وطن عزیزمیں یوم پاکستان،یوم
دفاع،یوم قائداعظم کی طرح ہولی،ایسٹر اوردیوالی بھی قومی دن ہیں ،ان میں
بھی تعطیل کی جاتی ہے اور ذرائع ابلاغ ان تہواروں کے حوالے سے معلوماتی
پروگرام نشر کرتے ہیں۔اس قراردادپر بحث کرتے ہوئے اوروں کے ساتھ ساتھ وفاقی
وزیراطلاعات جناب پرویز رشید کابھی یہ مانناتھا کہ پاکستان میں چھٹیوں کی
تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔اس کایہ حل نہ نکالاگیاکہ اس قراردادکومسترد
کیاجاتا،بلکہ یہ انوکھاحل پیش کیاگیاکہ پاکستان میں چھٹیوں کے معاملہ پر
نظرثانی کرکے اقلیتوں کے تہواروں کی چھٹیوں کے لیے راہ نکالی جائے،سووہ راہ
نکالی گئی اور اس کی زد میں مسلمانوں کے بڑے مذہبی تہواریعنی عیدین کی
چھٹیاں آئیں۔
جب بھی دین اسلام کی کسی اہم شخصیت کے ایام ولادت یاوفات وشہادت قریب آتے
ہیں تویہ آواز اٹھتی ہے کہ ان کے دن کو بھی سرکاری سطح پر منایاجائے اور
عام تعطیل کااعلان کیا جائے۔اٹھارہ ذی الحجہ حضرت سیدنا عثمان غنی ؓکا یوم
شہادت ہے۔اس مناسبت سے ایک بار پھر یہ آواز اٹھائی گئی۔مطالباتی جلوس نکالے
گئے۔ریلیاں نکالی گئیں۔اگرچہ مطالبہ کرنے والے بھی بخوبی یہ بات جانتے ہیں
کہ ان کے اس مطالبے کو وفاقی حکومت کبھی بھی منظور نہیں کرے گی۔اس کی
وجوہات کیاہیں؟یہ بات نہیں کہ حضرت عثمان غنی ؓ کی شخصیت اس کا استحقاق
نہیں رکھتی،یہ بھی وجہ نہیں کہ وہ کوئی متنازع شخصیت ہیں،یہ وجہ بھی نہیں
کہ ان کی چھٹی منظور کرنے سے ملک کسی قسم کی انارکی کا شکار ہوجائے گا۔ایسی
کوئی وجہ نہیں،اس کے باوجودیہ چھٹی نہیں دی جاسکتی،یہ مطالبہ منظور نہیں
کیا جاسکتا،یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکتی۔
مطالبہ کرنے والوں سے اس کامدعامعلوم کریں تووہ بھی کہتے ہیں کہ ہم اسے
کوئی دین کا حصہ نہیں سمجھتے۔ہم ایک جمہوری معاشرے میں رہتے ہیں اور جمہوری
طریقے سے ایک مطالبہ پیش کرتے ہیں۔اگرشکاگوکے غیر مسلم مزدوروں کی قربانی
کوخراج عقیدت پیش کرنے کے لیے تعطیل کی جاسکتی ہے توایک خلیفہ راشد اور نبی
اکرم ﷺ کے دوہرے دامادکے لیے یہ اقدام کیوں بروئے کار نہیں لایاجاتا؟ان کی
چھٹی سے جب ملک کو معاشی طور پر نقصان نہیں ہوتایاہوتاہے مگر ان کی محبت
میں گوارا کر لیا جاتا ہے، تویہاں پیمانے کیوں بدل جاتے ہیں؟ان کی بات میں
کتناوزن ہے یہ ہم قارئین ہر چھوڑتے ہیں،ہمارانقطہ نظر مگر مشاہیر کے ایام
پر تعطیل کے حوالے سے ذرامختلف ہے،وہ یہ کہ ان کے ایام پر دفاترمیں توچھٹی
ہو،لیکن تعلیمی اداروں میں چھٹی نہ ہو،بس معمول کے تعلیمی وتدریسی عمل کو
معطل کرتے ہوئے اس دن اور اس شخصیت کی اہمیت اجاگر کی جائے۔اس سلسلے میں ہم
صرف عصری تعلیمی اداروں کی بھی بات نہیں کرتے،شکوہ ارباب وفاکے طور ہر اہل
مدارس سے بھی یہ گلہ کرتے ہیں ،کہ آپ کے ہاں بھی اس حوالے سے غفلت کی جاتی
ہے۔اگر سرکاران دینی شخصیات کے ایام پر تعطیل نہیں کرتی توآپ کے ہاں اس
حوالے سے کون سی بیداری پائی جاتی ہے؟آپ کی حب الوطنی شک وشبہ سے کوسوں
دور،لیکن یوم پاکستان،یوم دفاع،یوم قائد جیسے قومی تہواروں پر آپ کے ہاں
چھٹی کیوں نہیں کی جاتی،چھٹی نہ سہی،ان دنوں کے حوالے سے کون سی آگہی فراہم
کی جاتی ہے؟الاماشاء اﷲ!اس سال یوم پاکستان کی مناسبت سے مدارس میں ہونے
والی ہلچل کوسراہاجاناچاہیے،جونہیں ہوسکا،لیکن مدارس کو بھی اپنے طرز عمل
میں تبدیلی لانی ہوگی۔
حاصل یہ کہ حضرت عثمان غنی ؓ ہوں یاکوئی اور دینی شخصیت،ان کے ایام کو
سرکاری سطح پر منانے کااہتمام کیا جاناچاہیے۔ذرائع ابلاغ میں اس حوالے سے
معلوماتی پروگرامزاور اخبارات کے خصوصی ایڈیشن ایک اچھاآغاز ہیں،اس کے ساتھ
ساتھ تعلیمی اداروں میں بھی تقریبات منعقد کی جانی چاہییں،چاہے وہ
اسکولز،کالجز اور یونیورسٹیز ہوں یامدارس۔سیاسی جماعتوں کو بھی اس سلسلے
میں تقریبات کا انعقادکرنا چاہیے،کیوں کہ خلفائے راشدینؓ،صحابہ کرامؓ ،اہل
بیت اور بزرگان دین رحمھم اﷲ ،کسی خاص طبقے کے نہیں ،ہم سب کے ہیں ۔ |
|