کسی کی غیبت نہ کیجئے
(Muhammad Rafique Etesame, Ahmedpureast)
Backbiting
ارشاد باری تعالیٰ ہے’’تم میں سے کوئی ایک دوسرے کی غیبت نہ کرے کیا تم اس
بات کو پسند کروگے کہ اپنے مردار مسلمان بھائی کا گوشت کھاؤ، تم اس سے
کراہت کرو گے پس اللہ تعالیٰ سے ڈرو‘‘(سورہ الحجرات)۔
ان آیات کریمہ میں مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو ایک دوسرے کی غیبت کرنے سے
منع کیا گیا ہے اور اسے مردار مسلمان بھائی کا گوشت کھانے سے تعبیر کیا گیا
ہے جو کہ نہایت قابل نفرت بات ہے۔ سوال یہ ہے کہ غیبت کسے کہتے ہیں؟ تو
غیبت یہ ہے کہ کسی مسلمان بھائی بہن کا ذکر اسکی عدم موجودگی میں ان الفاظ
میں کیا جائے کہ اگر اسے وہ خود سنے تو برا محسوس کرے۔
آنحضرت ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ،وہ برائی جس کاذکر کیا گیا
ہے اگر فی الواقعی اس شخص میں موجود ہو تب بھی غیبت ہے؟ آپﷺ نے جواب دیا
تبھی تو غیبت ہے اور وہ برائی اگر اسمیں موجود نہ ہو تو پھراس پر بہتان
ہے(المشکوٰۃ المصابیح)۔
بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی کہ غیبت ایک بری چیز ہے بلکہ اسکا گناہ
یہ ہے کہ جس کی غیبت کی گئی ہے اسکی برائیاں اپنے کھاتے میں ڈالی جارہی ہیں
اور بدلہ میں اپنی نیکیاں اسے دی جارہی ہیں، کیسا گھاٹے کا سودا ہے ، چھوٹی
سی بات کا اتنا بڑا نقصان!!
ایک بزرگ کی کسی نے غیبت کی تو انھوں نے اسکے پاس مٹھائی بھیجی تو اس شخص
نے مٹھائی دینے والے سے استفسار کیا کہ بزرگوں نے مٹھائی کیوں بھیجی ہے؟ تو
اس نے جواب دیا کہ ان بزرگوں کو اس بات سے بڑی خوشی ہوئی کہ تم نے انکی
غیبت او ر اپنی نیکیاں ان کے کھاتے میں ڈال دیں اور انکی خطائیں اپنے ذمّہ
لے لیں تو اس خوشی میں انھوں نے مٹھائی بھیجی ہے لہٰذ شوق سے کھاؤ۔
آجکل دوسروں کی برائیاں بیان کرنے کا رواج ہی ہو گیا ہے ، کسی محفل میں
جہاں چار آدمی اکھٹے ہوتے ہیں تووہاں دوسروں پر تنقید اور طعن و تشنیع سے
باز نہیں آتے ۔
لہٰذا اس سے بچنا چاہئے اس سے بڑا نقصان اور کیا ہوگا کہ اپنی ٹوٹی پھوٹی
نیکیاں نماز روزہ صدقہ و خیرات وغیرہ جنہیں اللہ تبارک و تعالیٰ محض اپنے
فضل و کرم سے قبول فرماتے ہیں انہیں دوسروں کی نکتہ چینی اور غیبت میں ضائع
کر دیا جائے۔
ایک بزرگ کا مقولہ ہے کہ مجھے اپنے نفس کی برائیاں دوسروں کی عیب جوئی کی
مہلت نہیں دیتیں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے آمین۔ |
|