محمداعظم عظیم اعظم کا حج 2016 کا آنکھوں دیکھا حال

حج 2016کے سعودی و پاکستانی حکومتوں اور حج وزارتوں کے انتظامات و اقدامات ..... ،سعودی و پاکستانی حکومتیں اور وزارتِ حج اِن مشوروں اور تجاویزات پر بھی نظرثانی کریں سعودی حکومت اور مکتب معلم اپنے جاری کردہ کارڈ پر چارکالم بوسہ حجرِاسود ،نفلِ حطیم ،حاضری روضہ رسولﷺاورنوافل ریاض الجنتہ درج کرائے اور اِن مقامات کی ایک بار زیارت کرنے والے کے کارڈ پر مطلوبہ مقامات کو ہول پنچ کرے تاکہ اِن مقامات کی زیارت کرنے والا دوبارہ یابارباراِن مقامات پر نہ جاسکے اِس عمل سے دوسروں کو موقعہ ملے گا
الحمدُﷲ ،مجھ حقیر فقیر بے توقیر کوپچھلے ماہ آٹھ ، نو اگست 2016پیر منگل کی درمیانی شب نجی حج ٹورآپریٹرپولی فلائی کراچی کے گروپ لیڈرضیاء بیگ اور زعیم صدیقی جیسے اِس شعبے میں کہنہ مشق اور مشتاق نوجوانوں کے ساتھ حج بیت اﷲ کے لئے سعودی عرب کے سفر کی سعادت نصیب ہوئی جہاں راقم الحرف نے تقریباََ 43/44دِن سرزمینِ مقدس میں گزارے اِس دوران اِن نوجوانوں ضیاء بیگ اور زعیم صدیقی نے اپنے ساتھ آئے حجاج اکرام کی قدم قدم پرضرورت سے کہیں زیادہ بڑہ کر رہنمائی کی اور کسی بھی حاجی کو کسی بھی قسم کی درپیش تکلیف کافوری ازالہ کرنا اپنا دینی اور اخلاقی فرض سمجھادُعاہے کہ اﷲ تعالیٰ اِن کے کاروبار میں برکت اور اِنہیں اور زیادہ ہمت اور طاقت عطافرمائے کہ یہ اﷲ کے مہمانوں کی خدمت کرتے رہیں آمین ثمہ آمین۔

اگرچہ مجھے دوسرے صحافیوں اور کالم نویسوں کی طرح سعودی فرمانرواشاہ سلمان بن عبدالعزیز یا سعودی وزارتِ ثقافت و اطلاعات کی دعوت پر شاہی مہمان کی حیثیت سے فریضہ حج کی ادائیگی کی سعادت تو حاصل نہ ہوئی مگر اِس کے باوجود بھی اگر یہاں میں اپنے مشاہدات میں آئے سعودی حکومت اور سعودی وزارتِ حج کے حجاج اکرام کوحج کے دوران بالخصوص سب سے زیادہ رش اور خطرے والے مقام جمرات سمیت دیگرمقامات پرحجاج اکرام کو مثالی سیکیورٹی فراہم کرنے سمیت دیگر حج اقدامات اور انتظامات کی تعریف نہ کروں تو یہ میرے حق و سچ لکھنے والے قلم کے ساتھ بڑی زیاتی ہوگی ہر قسم کے لغوسے بالاتر اِس سال سعودی حکومت اور سعودی وزارتِ حج نے ایامِ حج کے اجتماع میں خصوصی طور پرنظم وضبط برقراررکھنے اوردہشت گردوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کے ساتھ ساتھ حجاج اکرام کی جدیدخطوط پر سیکیورٹی فراہم کرنے سمیت تمام ترسہولیات بہم پہنچانے کے لئے ہر اقدامات کویقینی بنانے میں کوئی کسر نہیں رکھ چھوڑی تھی ایسا کرناسعودی حکومت اور وزارتِ حج کے لئے یوں بھی بہت ضروری تھاکہ گزشتہ سال 2015 میں دوران حج جمرات کے مقام پر پیش آئے واقع اوررواں سال رمضان المبار ک کے آخری عشرے کے آخری روز یعنی کہ عیدالفطر سے صرف ایک دن پہلے مسجدبنوی کے احاطے اور حضرت محمد مصطفی ﷺ کے روضہ اقدس کے باہردہشت گردی کی ہونے والی واردات نے بھی امسال سعودی حکومت اور وزارتِ حج کواِن جیسے بہت سے خطرات اور چینلجز سے قبل ازوقت نمٹنے کے لئے جدیدخطوط پر منصوبہ بندی کرنے کے لئے کمربستہ کررکھاتھاجس میں بیشک سعودی حکومت اور وزارتِ حج سوفیصد کامیابیوں سے ہمکنار ہوئی ہے اور کہیں سے بھی کوئی ایسا واقعہ رونماہونے کی اطلاع نہیں ملی جیسا کہ پچھلے دِنوں اور گزشتہ سال رونماہوئے تھے یقینا اِس ساری کامیابی کا سہراسعودی حکومت اور سعودی وزارتِ حج کے سر ہے جنہوں نے اپنی اعلیٰ حکمت عملی اور دن رات کی محنت اور جانفشانی سے دنیابھر سے آئے فرزندانِ توحید کو بے مثال سیکیورٹی فراہم کی اور حجاج اکرام کی قدم قدم پر رہنمائی کی اَب کیا یہ اُمیدبھی کی جانی چاہئے کہ سعودی حکومت اورسعودی وزارتِ حج آئندہ بھی اپنے ایسے ہی بے مثال اور لاثانی وآفاقی اور اِس سے بھی بہتر اقدامات کو یقینی بنا کر حجاج اکرام کی خدمات کرتی رہے گیں۔

یہاں میں یہ عرض کرتاچلوں کہ میں اپنے اِسی کالم کی اگلی سطور میں اپنے مسلم بردار ملک سعودی عرب اور اپنی پاکستانی دونوں ممالک کی حکومتوں اور سعودی و پاکستانی وزارتِ حج کودوایک مشورے بھی دیناچاہوں گاکہ کم ازکم اگرسعودی حکومت اور سعودی وزارت حج اگلے عمرے سیزن سے ہی میرے دیئے ہوئے مشورے پر عمل کرناشروع کردے تو بہت سے حجاج اکرام کو بہت سی سہولیات میسر آسکتی ہیں یقینی طور پر اِس پر سعودی حکومت اور سعودی وزارتِ حج کی ایک پائی بھی خرچ نہیں ہوگی مگر ایساکرنے سے اتناضرورہوگاکہ آئندہ عمرے اور حج کی نیت سے سعودی عرب آنے والے ایسے بے شمار کمزورو بیمار اور معذور عازمین عمرہ اور حجاج اکرام کوسہولیات میسر آسکیں گی۔

بہر حال ،اِس میں شک نہیں کہ میں اِس سفرپر خود نہیں گیاتھابلکہ مجھے کروڑوں لوگوں میں سے چُن کر اور پسند کرکے میرے اﷲ اور اُس کے پیارے حبیب حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے بلایااور اپنامہمان بنایاتھا یوں اِس اِن کی رضااور خوشنودی کے آگے بحیثیت اِن کا بندہ اور غلام اپنا سرتسلیم خم کرتے ہوئے اپنے رب اور اِس کے پیارے حبیب حضرت محمد مصطفیﷺ کے درپر حاضرہو گیااور مجھے یقین ہے کہ میرااﷲ اور میرے پیارے آقاحضرت محمد مصطفیﷺ مجھے جتنی مرتبہ بھی بلائیں گے میں جاتارہوں گاکیونکہ اﷲ کے بندے اور اِس کے پیارے حبیب حضرت محمد مصطفیﷺ کے غلاموں کی یہی شان وپہچان ہے کہ جب مالک اور آقاﷺبلائے بندہ اور غلام اپنی دنیاو جہاں کی تمام مصروفیات اور مال واولاد کی محبتوں کو خیر باد کہہ کر اپنے اﷲ اور آقائے دوجہاںﷺ کے دربار میں حاضرہوجائے۔

یقیناسرزمینِ سعودی عرب پر ہر سال فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے جمع ہونے والے لاکھوں فرزندانِ توحید کایہ دنیا کا سب سے بڑااورکئی لحاظ سے منفرد اور واحد اجتماع منعقد ہوتاہے جس میں دنیاکے کئی ممالک سے تعلق رکھنے والے مختلف رنگ و نسل ، زبان وتہذیب کے لاکھوں کی تعداد میں اِنسان (جن میں مرد و خواتین بچے بوڑھے جوان سب ہی شامل ہیں) ایک اﷲ کی وحدانیت کا ورد کرتے جمع ہوتے ہی یہاں سب ایک دوسر ے سے شانے سے شانہ ملاکر کھڑے ہوتے ہیں اِس دوران نہ کوئی بادشاہ ہوتانہ کوئی فقیر نہ کوئی امیر ہوتاہے اور نہ غریب مٹی کے گاڑے سے بنے فرزندانِ توحید ایک دوسرے سے جڑکراورگوند کردنیا کے اِنسانوں اور دیگرادیان کے پیروکاروں کو ملی یکجہتی اخوت و مساوات بھائی چارگی اور امن و آشتی اور عفوردرگزرکا ایک ایسالافانی درسِ عام دیتے ہیں کہ جس کی مثال دین اسلام کے علاوہ دیگر ادیان کُل میں کہیں نہیں ملتی ہے۔

ایامِ حج میں فرزندانِ توحید ذاتِ باری تعالیٰ اﷲ رب العزت کے احکامات اور رسول ﷺ کی سُنت و اسوہ حسنہ اور کتابِ مبین قرآن کریم کی تعلیمات کی رسی کو تھامے بس’’ لبیک اللھم لبیک لاشریک لکَ لبیک، انالحمدونعمتَ لکَ ولملک، لاشریک لکــ‘‘ کی صدائیں بلند کرتے اپنے وحدہ لاشریک اﷲ کی وحدانیت کا ورد کرتے ہیں یہ دنیا جہاں سے بے خبر صرف دوسفید بغیر سیلی ہوئی چادروں کو زیب تن کئے تین دن منیـ کے خیموں ، ایک دن دھوپ و گرمی سے بے نیازاپنے رب کی رضا کے لئے میدانِ عرفات میں کھلے آسمان تلے بعدنمازِ عصرتامغرب وقوفِ عرفات کرتے ہیں حجاج اکرام اِس دوران اپنے خالقِ کائنات اﷲ رب العزت کے حضور پیش ہوکر گڑگڑاگڑگڑاکر مناجات پیش کرتے ہیں اور اپنے ظاہر باطن اور صغیریٰ اور کبیریٰ گناہوں کی معافی مانگے ہیں اوراُمت ِ مسلمہ اور دین ِاسلام کی سربلندی اوراپنی دنیاوی اور آخروی زندگیوں کی کامیابیوں کے لئے دُعاکرتے ہیں یہاں وقوفِ عرفات میں حجاج اکرام دُعائیں کرتے ہیں تواِدھراﷲ آمین آمین کہتاہواحجاج اکرام کی ساری مانگی جانے والی ہر چھوٹی بڑی دُعاوں کو قبول کرتاجاتاہے جبکہ مدذلفہ کے کھلے میدان میں ایک رات گزارنے کے بعد جب بعدنماز فجر سے سورج طلوع ہونے تک حجاج اکرام وقوفِ مدذلفہ کرتے ہیں اور حجاج اکرام اِدھر بھی روروکر دُعائیں مانگتے ہیں توتب بھی ربِ کائنات اﷲ رب العزت اِن کی پچھلے دِنوں اور آج کی مانگی جانے والی ہر دُعاپر آمین کہہ کراِن مانگی ہوئی ہر دُعاپر مقبولیت کی مہر لگادیتاہے سبحان اﷲ اِن مقامات پر بھی فرزندانِ توحید باکثرت ذاتِ باری اﷲ رب العزت کے واحد اور لاشریک ہونے کی گواہی دیتے ہیں اِس طرح یہ اپنے خالق ومالک اﷲ رب العزت کو راضی کرتے ہیں اوریوں حج کے اِن ایامِ خاص میں فرزندانِ توحیدذاتِ باری کی جانب سے جھم جھم برستی انوار و برکات اور رحمتوں کی بارش سے اپنے ظاہر و باطن کوایسے پاک کرتے ہیں کہ جیسے یہ ابھی ابھی پیداہوئے ہوں فریضہ حج کی ادائیگی کے مقدس سفرکے دوران جہاں حرم شریف و مسجدبنوی اوربارگاہِ رسالت مآبﷺ کے روضے اور ریاض الجنہ کی زیادت نصیب ہوئی تووہیں مکے اورمدینے میں موجود دیگر مقدس مقامات پرجانے اور اِن کا دیدارکرنے سے بھی روح کی بالیدگی کابھی احساس ہوا۔

اِس میں شک نہیں کہ حج اِنسان کی انفرادی عبادت کا مجموع ہے جس میں صبروبرداشت اور تحمل کا مظاہرہ کرناہوتاہے راقم الحرف کا خام وقوی خیال یہ ہے کہ ہماری ذراسی جلدبازی یا بھگڈرسے نظم وضبط بگڑسکتاہے جیساکہ پچھلے سال ہوااور جمرات کے مقام پر کسی ملک کی شرارت اوراسلام دشمن عناصر کی سازش کی وجہ سے بھگڈرمچائے جانے سے سیکڑوں اور ہزاروں حجاج اکرام کچل کر لقمہ اجل بنے اور شہید ہوئے یعنی یہ کہ کسی کی تھوڑی سے غلطی سے بہت سے اِنسانوں کا ’’ دم ‘‘ نکل گیااورراقم الحرف اِس ساتھ ہی یہ بھی عرض کرناچاہے گاکہ حج ایک ایسی عبادت بھی ہے جس کی ترتیب میں جلدبازی کرنے یا کسی قسم کی بڑی غلطی سرزد ہونے کی صورت میں بھی ’’دم ‘‘ لازم آتاہے جس کے ازالے کے طور پر ایک بکرا، دنبہ یا اونٹ دم کی صورت میں ذبح کرناہوتاہے بسااوقات ایسانہیں ہوتامگرایساضرور ہے کہ جیسی غلطی ویسادم دیناپڑتاہے عازمین عمرہ اور حجاج اکرام کو عمرے کی ادائیگی اور فریضہ حج کی ادائیگی سے پہلے تربیت کا حاصل کرنابہت ضروری ہے اِس کے بغیر اِنہیں پریشانیوں کا سامناکرناپڑسکتاہے۔

یہ اﷲ کا شکر ہے کہ ہمارے نجی ٹورآپریٹرپولی فلائی کراچی کے نامزدکردہ گروپ لیڈرزضیاء بیگ ، زعیم صدیقی اور اِن کے دیگر ساتھیوں اورسعودی حکومت اور سعودی وزارت حج کے جانب سے حجاج اکرام کی سہولیات کے لئے کئے جانے والے اقدامات اور انتظامات بے حد مثالی تھے مگر پھر بھی اِدھر مکے میں مجھ جیسے بہت سے بیمار معزور اور کمزورحجاج اکرام کا حجرِاسودکو بوسہ دیناتوبہت دور کی بات ہے ہماری اِس تک رسائی بھی نہ ممکن رہی ہے اِسی طرح حطیم میں جو طاقتوراور تندرست و تواناحجاج اکرام تھے وہ تو بار بار نفل نمازیں پڑھ کر آئے مگر میں ایک بار بھی رش اور دھکم پیل کی وجہ سے نہ جاسکا اور اُدھر مدینے میں ریاض الجنتہ پر بھی بہت سے طاقتور حجاج اکرام تین میں کئی کئی بار نفل نمازیں پڑھ کرآئے مگر ایک میں اور مجھ جیسے سیکڑوں ایسے بھی تھے کہ جو رش اور دھکم پیل کی وجہ سے ریاض الجنہ اور روضہ رسولﷺ پر بھی حاضر ہونے سے قاصر رہے یاد پڑتاہے کہ مدینے میں سارے قیام کے دوران صرف ایک ہی روز موقعہ ملاتھاکہ ریاض الجنہ اور روضہ رسول ﷺ پر آسانی سے اپنی حاضری ممکن بنائی جائے اور بڑی مشکلوں سے اِس میں تھوڑی دیر کوہی کامیابی ملی اور اِن مقاماتِ مقدسہ کا صرف ایک بار ہی شرف حاصل ہوامگر پیاس ابھی باقی ہے یہاں میں سعودی حکومت اور وزارتِ حج کو اپنایہ مشورہ دینا چاہوں گاکہ معلم کی جانب سے حجاج اکرام کو جو کارڈ دیاجاتاہے بس اِس کارڈ کا سائز تھوڑاسا(دو یا تین انچ)چوڑاکردیاجائے اور اِس پر ترتیب سے چار کالمز بنادیئے جائیں جیسے پہلے کالم میں نمبر1 بوسہ حجرِاسود ، دوسرے کالم میں نمبر 2 نفلِ حطیم ، تیسرے کالم میں نمبر3 حاضری روضہ رسولﷺ ا ور چوتھے کالم میں نمبر4 نفلِ ریاض الجنتہ لکھ دیاجائے اور حج و عمرے کے لئے آنے والے ہر عازمین حج و زائرعمرہ پر یہ لازقرار دیاجائے کہ وہ جب بھی حرم شریف کعبہ اﷲ اور مسجد بنوی میں نماز پڑھنے کے لئے آئے وہ معلم یا وزراتِ حج کی جانب سے دیئے گئے اِس کارڈ کو جس پر مندرجہ بالاچار کالمز بنے ہوئے ہوں اِسے ضرور اپنے گلے میں ڈال کرآئے ایسانہ کرنے والے کو حرم شریف اور مسجدبنویﷺ میں ہی داخل نہ ہونے دیاجائے اور جو داخل ہوجائے اور وہ حجرِاسود کا بوسہ دیناچاہے تو اُسے لائن میں لگا کر یہ موقعہ دیاجائے اور جب وہ حجرِاسود کوبوسہ دے چکے تو وہاں پر موجود سعودی سپاہی یا انتظامی امور پر مامور اہلکار حجرِاسودکو بوسہ دے کر نکلنے والے کے کارڈ پر درج حجرِاسود کے خانے یا کالم پر ہول پنچ سے سوراخ کردے تاکہ یہ واضح ہوسکے کہ اِس شخص نے حجرِاسود کو بوسہ دے دیاہے اوراِسی طرح حطیم میں جب بھی کوئی حاجی یا زائرہ عمرہ نماز پڑھ کر نکلے تو اِس کارڈ کے حطیم کے خانے پر بھی ہول کردیاجائے یہ سلسلہ مسجدبنویﷺ میں نماز پڑھ کر روضہ رسول ﷺ پر حاضری دینے والوں اور ریاض الجنتہ پر نوافل اداکرنے کے بعد باہرجانے والوں کے ساتھ بھی وہاں پر موجود سپاہی یا انتظامی امور پر مامور سعودی حکومت اور وزارتِ حج کے اہلکارحجاج اکرام اور زائرعمرہ کے کارڈکو ہول کرکے اپنی ڈیوٹی انجام دیں تو اِس سے اتناضرور ہوجائے گاکہ کوئی شخص ایک بار سے زائد اِن مقامات پر نہیں جاسکے گا اِس سے بڑی حدتک اِن مقدس مقامات پر رش بھی نہیں لگے گااور نہ دھکم پیل ہوگی اِس ذراسے عمل سے بہت سے مجھ جیسے کمزور،بیمار اور معزور حجاج اکرام ا ور زائرہ عمرہ کو بہت سی آسانیاں میسرآسکیں گے اور سعودی حکومت اور وزرات حج کا کام بھی آسان ہوجائے گا۔

یہ تو صائب مشورہ تھاسعودی حکومت اور سعودی وزراتِ حج کے لئے اَب میں آتاہوں اپنی پاکستانی حکومت اور اپنی پاکستانی وزرات حج اوراپنے وزیرحج سرداریوسف صاحب کی جانب تو جنابِ محترم عرض یہ ہے کہ الحمدﷲ، ہمارے یہاں گزشتہ سالوں سے (یعنی کہ جب سے سرداریوسف صاحب آپ کی زیرنگرانی)جتنے بھی حج اقدامات اور انتظامات کئے جارہے ہیں وہ بھی قابلِ تعریف اور لائقِ ستائش ہیں امسال بھی حکومتِ پاکستان نے سرکار ی حج پر آئے حجاج اکرام کی مثالی خدمات انجام دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے بس سوائے اِس کے کہ ہماری حکومت جتنے بھی حجاج اکرام کو حج کے لئے بھیجتی ہے حکومت اِنہیں ساراعرصہ عزیزیہ میں ہی ٹھیراتی ہے اگرچہ عزیزیزہ بھی حرم کا ہی حصہ ہے مگر حجاج اکرام کو جو کیف وسُرور کعبہ اﷲ میں نمازیں پڑھ کرملتاہے اور حاصل ہوتاہے اِس کی تو بات ہی اور ہے اَب بیچارہ پاکستانی حاجی حرم سے 6، 7کلومیٹردور رہ کر روز تو حرم نہیں پہنچ سکتاہے یہ ٹھیک ہے کہ عزیزیزہ سے حجاج اکرام کو حرم تک جانے اور وہاں سے قیام گاہ عزیزیہ تک واپس آنے کے لئے بس سروس تو ضرور مہیاکی جاتی ہے، ایام ِ حج میں یہ بس کی سہولت بھی رش بڑھ جانے کے باعث بند کردی جاتی ہے راقم الحرف کے مشاہدے میں یہ بھی آیاہے کہ رش کے باعث عزیزیزہ سے بس سروس بند ہونے سے پاکستانی حجاج اکرام فجرمیں اپنی جیب سے ٹیکسی ڈرائیوروں کے منہ مانگے مہنگے کرائے 500,400, 300 اضافی ریال اداکرکے حرم تک جاتے ہیں توپھروہ بعدنماز عشاء بھی اتناہی کرایہ ٹیکسی ڈرائیوروں کو دے کر عزیزیہ لوٹتے ہیں اور اگر عشاء کی نماز میں جاتے ہیں تو حرم میں رات گزارکرصبح فجر کی نماز کے بعد واپس اپنی قیام گاہ پر آتے ہیں میں یہاں ایک بار پھر زوردے کر یہ بات ہوں گاکہ حج کے ایام میں جب رش زیادہ بڑھ جاتاہے تو یہ پاکستانی حجاج اکرام جو عزیزیہ میں قیام پذیرہوتے ہیں اِنہیں حرم تک لے جانے والی بس سروس بھی بند کردی جاتی ہے جس کی وجہ سے حجاج اکرام کو بہت زیادہ پریشانیوں اور مشکلات کا سامنا کرناپڑتاہے اور اِنہیں عزیزیزہ کی قریبی مساجد میں ہی نماز پنچگانہ اداکرنی پڑتی ہیں بلکہ ہوناتو یہ چاہئے کہ حکومت پاکستان اور پاکستانی وزراتِ حج اپنے سرکاری حجاج اکرام کی حج درخواستیں 7یا8ماہ قبل وصول کرے اور ایک ماہ کے اندر ہی اِن کی قرعہ اندازی کرکے کامیاب حجاج اکرام کے لئے عزیزیہ کے بجائے مکہ مکرمہ میں حرم سے نزدیک ہی واقع ہوٹلوں میں سستے داموں رہائشگاہ کا اانتظام کرے اور اِسی طرح مدینے جانے اور آنے کے بعد بھی اِسی رہائشگاہ پر قیام کا انتظام کرے اور اگر عزیزیزہ جانا بہت ضروری ہی سمجھاجائے تو پاکستانی حجاج اکرام کو حج شروع ہونے سے دوروزقبل عزیزیزہ میں ٹھیرایاجائے اور حج کے ختم ہونے کے دوتین روز مزیدعزیزیزہ میں قیام کرانے کے بعد پھر پاکستانی حجاج اکرام کو مکہ مکرمہ میں حرم سے قریب اُن ہی ہوٹلوں میں قیام دی جائے جہاں یہ حج سے پہلے رہائش اختیار کئے ہوئے تھے اِس طرح کے پاکستانی حکومتی اور وزارتِ حج کے اقدامات اور انتظامات سے پاکستانی حج اکرام کو بہت زیادہ حج سہولیات میسر آسکیں گیں اور آئندہ اِس قسم کے ہونے والے حج اقدامات سے ہر پاکستانی حاجی کو تسکین ملے گی اگر ہماری حکومت اگلے سال ایساکردیتی ہے تو ہوسکتاہے کہ راقم الحرف ایک بار پھر حج کی سعادت سرکاری حج کے طور پر نصیب کرلے گا۔

اِسی کے ساتھ ہی راقم الحرف پاکستانی حکومت اور پاکستانی وزراتِ حج کو یہ مشورہ بھی دینا چاہئے گاکہ نجی حج ٹورآپریٹرز کی بھی حد مقررکی جائے اور اِنہیں اِس بات کا بھی پابند کیا جائے کہ ہر نجی حج ٹورآپریٹر150،175یا200سے زائد حجاج اکرام کو نہ لے کرجانے پائے کیونکہ نجی حج ٹورآپریٹرز اپنی زیادہ کمائی اور منافع کے چکر میں مختلف حج ٹورآپریٹرز سے الحاق کرکے ہزاروں کی تعداد میں حجاج اکرام کو سعودی عرب لے جاتے ہیں پھر وہاں جاکر حجاج اکرام کویارومددگار چھوڑدیاجاتاہے جن کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتاہے حجاج اکرام اپنے مسائل کے فوری حل کے لئے دردر کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں کبھی اِدھر اپناسرپھوڑرہے ہوتے ہیں تو کبھی اُدھراپنے مسائل کے حل کے خاطر خاک چھان رہے ہوتے ہیں حجاج اکرام کو ایسے ٹورآپریٹرز سے بچانے کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ ہر سختی کے ساتھ نجی حج ٹورآپریٹرزکا ایک مخصوص کوٹہ مختص کیا جائے اِس حکومتی اقدام سے یقینی طور پر بہت مثبت اثر مرتب ہوگااور اِس طرح کے حکومتی اقدام سے اِس سال جن نجی حج ٹورآپریٹرز کو موقعہ نہیں مل سکاتھااِس قسم کے حکومتی اقدام سے یقینی طور پر آئندہ سال اِن نجی حج ٹورآپریٹرز کو بھی حجاج اکرام کی خدمات کرنے کا موقعہ ہاتھ لگے گا اور چیک اینڈ بیلنس کا ایک اچھاطریقہ بھی رائج ہوجائے گا پھر ایسا نہیں ہوگاکہ ایک ہی ٹورآپریٹرتو 1000،1200،1500اور 2000حجاج اکرام کولے جائے اور دوسرے کو ایک بھی نہ ملے۔

راقم الحرف نے حج کے دوران جو مشاہدات کئے اور اِس عرصے میں حجاج اکرام کو درپیش جن مشکلات کا سامنارہااِن کے حل کے لئے سعودی اور پاکستانی حکومتوں اور دونوں ممالک کی وزارتِ حج کچھ مشورے بھی دیئے ہیں ا ﷲ کرے کہ دونوں ممالک کی حکومتیں اور وزارتِ حج میرے دیئے ہوئے مشوروں کو حقیقی رنگ دے ڈالیں تو آئندہ حجاج اکرام کے لئے بہت اچھاہوگا اور مزیدمشوروں اور تجاویزات کے لئے اگر دونوں ممالک سعودی عرب اور پاکستان کی حکومتیں اور وزارتِ حج راقم الحرف سے رابطہ کرناچاہیں تو کرسکتیں ہیں۔

اَب آخرمیں راقم سطوریہ بات عرض کرکے اجازت چاہئے گاکہ آج کوئی 46روزبعدمیں اپنے قارئین حضرات سے بذریعہ کالم رابطہ کرنے بیٹھاتو میں کئی گھنٹے اِس ہی استغراق میں رہاکہ کیا لکھوں اور کس خبر پر تجزیہ کروں کیوں کہ ڈیڑھ ماہ کے اخبارات میری میز پر بکھرے پڑے ہیں اور ہر اخبار کی ہر خبر اپنی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے آخرکار یہ فیصلہ کیا کہ ایسا کالم لکھوں کہ میرے قارئین کو میری غیرحاضری کی اصل وجہ بھی معلوم ہو جائے اور میرااِن سے منقطع ہونے والارابطہ بھی جڑجائے سومیں نے سوچاکہ کیوں نہ وہ لکھوں جو 46دِنوں کی غیر حاضری کے دوران میرے مشاہدے میں آیااوردوممالک (سعودی اور پاکستانی حکومتوں اور دونوں کی وزارتِ حج کو) کچھ ایسے مشورے بھی دے ڈالوں کہ آئندہ جن پر دونوں ممالک کی حکومتیں اور وزارتیں عمل کرلیں تو یقینا دنیابھر سے سعودی عرب آنے اور پاکستان سے جانے والے بہت سے حجاج اکرام اور زائرین عمرہ کو بہت سی سہولیات میسرآسکیں گیں مجھے اُمید ہے کہ آج اگر سعودی حکومت اوروزارتِ اور اِسی طرح ہماری پاکستانی حکومت اور ہماری پاکستانی وزارتِ حج بالخصوص سردار یوسف صاحب میرے مندرجہ بالامفیدمشوروں کا حقیقی معنوں میں جائزہ لینے کے بعد میرے دیئے ہوئے مشوروں پر پاکستان سمیت سعودی عرب میں بھی عمل کروائیں تو کوئی شک نہیں کہ پاکستانی حجاج اکرام اورعازمین عمرہ کو بہتر سے بہترین سہولیات مل سکیں گیں اوراِسی کے ساتھ ہی آخر میں ، میری ایک یہی دُعا ہے کہ اﷲ مجھے حق و سچ بولنے، لکھنے اور سُننے کی توفیق عطا فرمائے اور سعودی عرب اور پاکستانی حکومتوں سمیت دونوں ممالک کی حج وزارتوں کو میرے دیئے ہوئے صائب مشوروں پرپوری طرح عمل کرنے کا مو قع فراہم کرے ۔آمین ثمہ آمین :۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 972535 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.