تحریر و تحقیق :حمیرا
لیاقت......................... انتخاب : ایم اے لودھی
5000 سال پہلے ’’الحجر‘‘ کے مقام پر قومِ ثمود آباد تھی۔ جن کو ’’اصحاب
البحر‘‘ (حجر والے) بھی کہتے تھے۔ اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے اس قوم پر اﷲ
کا عذاب نازل ہوا اور وہ دنیاسے نیست و نابود ہوگئے۔ اب یہ مقام حضرت صالح
علیہ السلام کے نام سے منسوب ہو کر مدین صالح ؐ کہلاتا ہے۔ سعودی عرب میں
قبل از اسلام کی یہ آثار قدیم العلاء سیکٹر میں ہے۔ یہ ایک غیر معمولی مقام
ہے جسے 1970ء میں سعودی عرب کا یونیک تعمیراتی خزانہ قرار دیا گیا۔ 2008ء
میں UNESCO نے اسے سعودی عرب کی پہلی World Heritage Site قرار دیا۔ مدین
صالح ؐ مدینہ منورہ سے 380 کلومیٹر شمال مغرب میں ہے جبکہ اردن کی سرحد
یہاں سے 500 کلومیٹر جنوب مشرق میں ہے۔ یہ کھلا اور وسیع مقام الحجاز کے
پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایسے عذاب زدہ مقام پر نہیں
جانا چاہیے جبکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ عبرت حاصل کرنے کے لیے ایک دفعہ ضرور
جانا چاہیے۔ ہمیں بھی ایک دفعہ اس عبرت کدہ کو دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ مدین
صالح ؐکا حال جاننے کے لیے ا س کے ماضی میں جھانک لیتے ہیں۔
قوم ثمود
قرآن پاک کی 15 سورتوں میں 26 مقامات پر قوم ثمود کا ذکر آیا ہے۔ حضرت صالح
ؐ کی یہ قوم مدینہ اور تبوک کے درمیان وادی القریٰ میں آباد تھی۔قومِ ثمود
کی جانشین تھی۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا ۔ وادی
میں موجود بڑے بڑے پہاڑوں اور بڑی بڑی چٹانوں کو تراش کر بڑے اطمینان سے ان
میں اپنی پرتکلف رہائش گاہیں تعمیر کرتے تھے۔ یہ سنگ تراشی اور کاریگری
انہیں اﷲ تعالیٰ نے سکھائی تھی مگر اہل ثمود بڑی رعونیت سے کہا کرتے تھے کہ
ہم سے زیادہ کوئی طاقتورہے؟ اگرچہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں پتھر تراشنے کی خاص
صلاحیت اور قوت عطا فرمائی تھی پھر بھی یہ لوگ ایک اﷲ کی بجائے بتوں کی
پوجا کرتے تھے۔ ثمودیوں کی ہدایت کے لیے اﷲ رب العزت نے ان کے قبیلے اور
خاندان میں حضرت صالح ؐ کو نبی بنا کر بھیجا۔ انہوں نے کہا ’’اے میری قوم
ایک اﷲ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، اسی نے تمہیں زمین
پر پیدا کیا اور اسی نے اس زمین پر بسایا ہے بس تم اس سے معافی طلب کرو اور
اس کی طرف رجوع کرو بے شک میرا رب قریب ہے اور دعائیں قبول کرنے والا ہے۔‘‘
قوم ثمود نے کہا ’’اے صالح ؐ اس سے پہلے تو تجھے سے ہم بہت امیدیں لگائے
ہوئے تھے کیا تم ان کی عبادت سے روک رہے ہو جن کی عبادت ہمارے باپ دادا
کرتے چلے آرہے ہیں۔ ہمیں تو اس دین پر حیران کن شک ہے جس کی طرف تم ہمیں
بلارہے ہو۔‘‘ اہل ثمود کہنے لگے کہ ہم ایسے شخص کی فرمابرنبرداری کریں تب
تو ہم غلطی اور دیوانگی میں پڑے ہوں گے کیا ہمارے درمیان صرف اسی پر وحی
اتاری گئی؟ انہوں نے حضرت صالح ؐ کو جھٹلایا اور کہا ’’تم اس قبیلے کے فرد
ہو اور ہمارے جیسے انسان ہو اگر تم سچے ہو تو پھر کوئی معجزہ لاؤ۔‘‘
ناقۃ اﷲ (اﷲ کی اونٹنی)
قوم ثمود نے حضرت صالح ؐ سے مطالبہ کیا کہ پتھر کی چٹان سے ایک اونٹنی نکال
کر دکھاؤ جسے نکلتے ہوئے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ حضرت صالح ؐ نے ان سے
عہد لیا کہ ان کے مطالبہ پورا ہونے کے بعد اگر وہ ایک اﷲ پر ایمان نہ لائے
تو ہلاک کر دیے جائیں گے۔ چنانچہ اس تنبیہ کے بعد ان کی تمام شرائط کے عین
مطابق ان کی نظروں کے سامنے اﷲ تعالیٰ نے ایک اونٹنی بطور معجزہ ظاہر کر دی
چونکہ یہ اونٹنی اﷲ کے حکم سے معجزانہ طورپر خلاف عادت طریقے سے ظاہر ہوتی
تھی ۔ اسے کسی نے جنم نہیں دیا تھا اس لیے اس اونٹنی کو ناقۃ اﷲ کہا جاتا
ہے۔ اہل ثمود نے ایسی دیوہیکل اونٹنی پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ اونٹنی کے
بابت ان کو تاکید کی گئی کی ایسے زمین پر کھاتی چھوڑ دو اور اسے ایذا نہ
پہنچاؤ، ورنہ فوری عذاب تمہیں پکڑ لے گا۔ قوم ثمود اور اونٹنی کے درمیان
پانی پینے کا دن مقرر کر دیا گیا۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ’’پانی ان کے درمیان
تقسیم شدہ ہے۔ ایک دن اونٹنی کا اور ایک دن اہل ثمود کا ہوگا۔ جس دن اونٹنی
پانی پینے آئے گ اہل ثمود کو گھاٹ پر آنے کی اجازت نہیں ہوگی اور جب اہل
ثمود کے پانی لینے کا دن ہوگا تو اونٹنی گھاٹ پر نہیں آئے گی۔‘‘ ایک عرصہ
تک یہ اونٹنی اسی طریقہ سے ان کے درمیان رہی۔ قوم ثمود اس اونٹنی کا دودھ
دوہتی ، جو سب کے لیے کافی ہوتا اور ایک مدت تک اس کے دودھ اور مکھن سے
فائدہ اٹھاتی رہتی۔ لیکن اس معجزے کے بعد بھی بہت کم لوگوں نے حضرت صالح ؐ
کا ساتھ دیا اور باوجود اس بات کے کہ وہ اونٹنی اﷲ کی قدرت کی نشانی اور
پیغمبر کی صداقت کی دلیل تھی قوم ثمود ایمان نہ لائی اور کفر و شرک کے
راستے پر گامزن رہی۔ ان کی سرکشی اتنی بڑھی کہ قدرت کی اس زندہ نشانی کو
قتل کر نے کا ارادہ کرلیا۔ ان میں ایک بد بخت جس کانام مفسرین قدار بن
سالغے بتلاتے ہیں سب سے بڑا شقی القلب بن گیا اس نے پہلے اونٹنی کی کوچیں
کاٹیں پھر اسے قتل کر دیا۔ اہل ثمود اس جرم اور گناہ میں برابر کے شریک
تھے۔
عذاب الٰہی
اس قوم میں نو سردار تھے۔ جو زمین پر فساد پھیلاتے تھے۔ اونٹنی کے قتل کے
بعدا نہوں نے آپس میں بڑی قسمیں کھا کھا کر عہد کیا کہ رات کو حضرت صالح ؐ
اور ان کے گھر والوں کو قتل کر دیں گے اور ان کے وارثوں کو صاف کہہ دیں کہ
ان کے اہل خانہ کی ہلاکت کے وقت موجود نہ تھے اور ہم بالکل سچے ہیں۔ انہوں
نے یہ قسمیں اس وقت کھائیں جب اونٹنی کے قتل کے بعد حضرت صالح ؐ نے فرمایا
’’اے قوم! میں نے تم کو پروردگار عالم کا حکم پہنچا دیا تھا۔ میں نے تمہاری
خیر خواہی کی مگر تم لوگ خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے۔ تین دن بعد تم پر
عذاب آجائے گا۔ اب تین دن تم لوگ اپنے گھروں میں رہو اور یہ وعدہ جھوٹا
نہیں۔ اﷲ کے حکم سے حضرت صالح ؐ اپنے ساتھیوں کو لے کر وہاں سے نکل گئے اور
وعدے کے عین مطابق تین دن بعد صبح تڑکے قوم ثمود کو زور کی چنگھاڑ نے آن
دبوچا۔ ایک زور دار کڑک نے ان کے دل پارہ پارہ کر دیئے پھر زلزلے نے آپکڑا
جس نے سب کچھ تہ و بالا کر دیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑھے رہ گئے
کہ گویا کبھی آباد نہ تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ـ’’ آگاہ رہو کہ قوم ثمود
نے اپنے رب سے کفر کیا ان ثمودیوں پر پھٹکار ہے۔‘‘
9 ہجری کو حضرت محمد مصطفی ﷺ مدینہ سے تبوک جاتے ہوے اس بستی کے پاس سے
گزرے تو سر پر کپڑا لپیٹ لیا۔ اور سواری تیز کر دی۔ صحابہ کرام سے فرمایا
روتے ہوئے اور عذاب الٰہی سے پناہ مانگتے ہوئے اس بستی کے پاس سے گزرو۔ آپ
ؐ نے اس بستی کے کنوؤں سے پانی لے کر آٹا گوندھا تھا ۔ آپ ؐ نے سب پھینکوا
دیا۔
گھوسٹ ٹاؤن (العلاء)
مدین صالح ؐ سے 20 کلو میٹر کے فاصلے پر العلاء کا شہر آباد ہے۔ 2000 سال
پرانے اس شہر کو سعودی عرب کا ’’گھوسٹ ٹاؤن‘‘ بھی کہتے ہیں۔ کچھ سال پہلے
تک بہت کم لوگ اس شہر کے بارے میں جانتے تھے مگر مدین صالح ؐ کو سیاحوں کے
لیے کھولنے کے بعد اس شہر کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ اب العلاء سعودی عرب کا
شاندار سیاحتی علاقہ ہے۔ چونکہ مدین صالح ؐ یہاں سے بالکل قریب ہے اس لیے
زیادہ سیاح اسی شہر میں قیام کرتے ہیں۔ سیاحوں کی سہولت کے لیے یہاں ہوٹل
اور ریسٹ ہاؤس وغیرہ بن رہے ہیں۔ سب سے بڑی ترقی یہ ہوئی کہ مدین صالح ؐ ہی
کی وجہ سے اس چھوٹے شہر میں ایک چھوٹا سا ایئرپورٹ بنایا گیا ہے جہاں ہفتہ
میں ایک بار فلائٹ آتی ہے۔
28 مئی 2014ء کی عید مناتے ہم جدہ سے مدینہ منورہ آکے رکے تھے۔ ریاض سے آئی
بھائی جان شوکت کی فیملی بھی ہمارے ساتھ تھی۔ مسجد نبوی ﷺ میں عید کی نماز
ادا کرنے کے بعد اچانک ہم سب کا العلاء جانے کا پروگرام بن گیا اور کچھ ہی
دیر میں ہم العلاء کی جانب رواں دواں تھے۔ ٹریفک بہت کم تھی۔ 400 کلومیٹر
کا یہ راستہ بہت خوبصورت تھا مگر زیادہ پررونق نہیں۔ کوئی چھوٹا بڑا شہر یا
قصبہ درمیان میں نہیں آیا۔ بس چند گھروں پر مشتمل چھوٹی چھوٹی آبادیاں تھیں
جہاں مسجد اور پٹرول پمپ تھے۔ صاف ستھری کشادہ اور دو طرفہ سڑک کے دونوں
اطراف میں پہاڑ تھے۔ کہیں یہ پہاڑ سڑک کے قریب آجاتے اور کسی جگہ سڑکے سے
دور ہٹ جاتے تھے۔ درمیاں میں کھلے میدان نظر آنے لگتے۔ کسی کسی مقام پر ان
میدانوں کی مٹی اُڑ اُڑ کر سڑک کے آر پار چلتی کہ سڑک بھی نظر نہ آتی اور
دن کے وقت بھی گاڑیوں کو لائٹ جلانی پڑتی۔ آدھے سفر کے بعد کالے پہاڑ وں کا
سلسلہ شروع ہو گیا۔ یہ سفر چونکہ شمال جنوب کی طرف تھا اس لیے ہمارے سامنے
سورج کی لال طشتری اپنی آب و تاب ختم کر کے پہاڑوں کے نیچے چھپ رہی تھی۔
ابھی تک تو سڑک سیدھی جارہی تھی مگر لعلاء سے تقریباً 30 کلو میٹر پہلے
اندھیرا چھا گیا تو راستہ بھی پر خطر ہو گیا۔ سڑک تنگ اور Single ہو گی اور
کالے کالے پہاڑوں میں بل کھانے لگی۔ یہاں بے حد خطرناک موڑتھے۔ Road Lights
بھی نہیں تھیں شاید اسی وجہ سے یہاں بہت زیادہ حادثات ہوتے ہیں۔ اس ویران
اور خوفناک راستے پر سفر کرتے ہوئے لگ رہا تھا کہ زندگی کہیں دور پیچھے رہ
گئی ہے اور ہم دنیا کے آخری کونے کی طرف جا رہے ہیں۔ آبادی سے دور ان
ویرانوں کا سفر کرنے کے بعد العلاء شہر آتا ہے۔ شاید اسی لیے اس شہر کو
’’گھوسٹ ٹاؤن‘‘ کہتے ہیں۔ دور دور تک بندہ نہ بندے دی ذات ۔ کبھی کبھار
کوئی گاڑی پاس سے گزر جاتی اس کے بعد پھر وہی خاموشی اور تنہائی۔ خدا خدا
کر کے دور سے العلاء شہر کی روشنیاں نظر آئیں تو جان میں جان آئی۔ العلاء
میں ہماری قریبی عزیزہ طاہرہ اپنے شوہر شہزاد صدیقی اور چار بچوں کے ساتھ
رہائش پذیر تھی۔ رات ہم نے ان کے گھر قیام کیا۔
العلاء کی آبادی تقریباً 34 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ چاروں طرف سے پہاڑوں
میں گھرا ہوا یہ چھوٹا سا شہر بہت صاف ستھرا اور خوبصورت ہے۔ سڑکیں کشادہ
مگر اندرون شہر کوئی پبلک ٹرانسپورٹ (ٹیکسی، بس ، ویگن) بالکل نہیں ہے۔
لوگوں کی ذاتی گاڑیاں ہیں اور کچھ کی نہیں۔ العلاء میں کوی پاکستانی یا
انڈین سکول بھی نہیں ہے۔ صرف عربی سکول ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے رہنے
والے پاکستانیوں کے بچے جب بڑے ہوتے ہیں تو والدین کو بڑی دقت کا سامنا
کرنا پڑتا ہے۔ یا تو وہ کسی دوسرے بڑے شہر میں منتقل ہو جاتے ہیں یا پھر
بچوں کی پڑھائی کی خاطر واپس پاکستان چلے جائیں۔
العلاء میں حضرت موسیٰ بن نصیر ؓ کا قلعہ ہے جہاں سے تمام شہر کا نظارہ
ہوتا ہے۔ یہاں ایک چھوٹا سا عجائب گھر بھی ہے جس میں مدین صالح ؐ کی کھدائی
سے ملنے والے نوادرات رکھے گئے ہیں۔ العلاء میوزیم اس علاقے کی معاشرتی،
ثقافتی اور جغرافیائی تاریخ کا آئینہ دار ہے۔ العلاء کے پہاڑزیادہ بلند
نہیں ہیں۔ میں نے طاہرہ کے گھر کی کھڑکی سے ان پہاڑوں کی چوٹیوں کو دیکھا
جو عجیب وغریب شکل و صورت میں ڈھلی ہوئی تھیں۔ قرین قیاس یہ ہے کہ یہ علاقے
بھی عذاب کی زد میں آیاتھا جس کی وجہ سے یہاں کے پہاڑ کالے کالے ہیں اور
چوٹیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار لیکن اب اس شہر میں پانچ وقت کی اذان گونجتی ہے اﷲ
تعالیٰ سے امید ہے کہ اس نے اپنی رحمت سے اس علاقے کو معاف کر دیا ہوگا۔ آج
کل العلاء کھجوروں اور مالٹوں کے باغات کی وجہ سے مشہور ہے۔
مقام عذاب کی روداد
صبح ناشتہ کر کے ہم لوگ مدین صالح ؐ کی طرف روانہ ہوئے دل کچھ خوف زدہ بھی
تھا کیونکہ آج وہ مقام ہم اپنی آنکھوں سے دیکھنے جا رہے ہیں جس مقام پر اﷲ
کا عذاب نازل ہوا۔ العلاء سے آگئے تھوڑا سا کچا راستہ ہے مگر اس کے بعد دو
طرفہ کشادہ اور خوبصورت سڑک شروع ہو جاتی ہے جس کے دو اطراف میں پہاڑ ہیں ۔
العلاء سے مدین صالح ؐ تک کا تمام راستہ تقریباً ایک جیسا ہے۔ انوکھی اور
نرالی شکلوں کے پہاڑ ہیں۔ جنہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ یہاں یقینا کوئی غیر
معمولی واقعہ آیا ہو گا کیونکہ نارمل پہاڑ ایسے نہیں ہوتے میں نے اپنی
زندگی میں کبھی کٹے پھٹے پہاڑ اور شکستہ حال پہاڑ نہیں دیکھے۔ سعودی حکومت
ے تو عذاب زدہ علاقہ کو صرف مدین صالح ؐ تک محدود کر دیا ہے مگر حقیقت میں
مدین صالح ؐ کے آس پاس کا تمام علاقہ میلوں تک اس عذاب کی منہ بولتی تصویر
ہے جو اس علاقہ پر نازل ہوا۔ ہزاروں سال گزرنے کے باوجودیہ پہاڑ اپنی حالت
زار سے اپنی داستان الم بیان کررہے ہیں۔
25 منٹ بعد ہم مدین صالح ؐ کے گیٹ پر کھڑے تھے عید کا دوسرا دن تھا ہمارا
خیال تھا کہ شاید وہاں کوئی نہ ہوگا ۔ ویسے بھی ہم صبح صبح آگئے تھے مگر یہ
دیکھ کر حیرت ہوئی کہ گیٹ کے سامنے گاڑیوں کی لمبی قطار لگی تھی، جس میں
دوسرے شہروں سے آئی ہوئی بسیں بھی تھیں۔
مدین صالح ؐ دیکھنے کے لیے سعودی حکومت سے آن لائن اجازت لینا پڑتی ہے
چونکہ العلاء آنے کا پروگرام اچانک بنا تھا اس لیے ہمارے پاس اجازت نامہ تو
نہیں تھا مگر شہزاد صاحب کے بڑے بھائی نیاز احمد صدیقی صاحب ہمارے ساتھ
تھے۔ نیاز صاحب کے کفیلنے مدین صالح ؐ کی کھدائی کا ٹھیکہ لے رکھا تھا۔
نیاز صاحب نے رات کو اپنے کفیل سے بات کی کہ ہمارے مہمان آئے ہوئے ہیں جو
کہ مدین صالح ؐ دیکھنا چاہتے ہیں، مگر ان کے پاس اجازت نامہ نہیں ہے ۔ کفیل
نے کہا کہ آپ گیٹ پر کھڑے شرطوں (پولیس والوں) کو میرا نام بتا دینا وہ آپ
لوگوں کو جانے دیں گے۔ چنانچہ نیاز صاحب نے گیٹ پر کھڑے شرطوں کو ہمارے
امامے دیکھائے اور اپنے کفیل کا نام بتایا تو انہوں نے گاڑی اندر جانے کی
اجازت دی۔ گیٹ کے اندر بھی دوطرفہ سڑک تھی جس کے درمیان سیاحوں کی دلچسپی
کے لیے کھجوروں کے مصنوعی درخت لگائے گئے تھے۔ یہاں کچھ موجودہ دور کی
عمارتیں تھیں۔ پختہ سڑک پر سیاحوں کی گاڑیاں آگے پیچھے بھاگ رہی تھیں چند
منٹ کے بعد کھلی اور وسیع وادی آگئی اور وہ پہاڑ نظر آنے لگے جن کو تراش کر
اہل ثمود گھر بناتے تھے ۔ یہ پہاڑ کالے رنگ کے نہیں بلکہ بھورے (Light
Brown) رنگ کے تھے۔ ایک دوسرے سے کافی فاصلے فاصلے پر تھے اور ان کے درمیان
سڑکیں نئی تھیں۔ سیاح کسی ایک پہاڑ کے پاس اپنی گاڑی کھڑی کرتے اور نیچے
اترآتے۔ ہم نے سب سے پہلے قوم ثمود کا دیوان عام دیکھا جسے اس زمانے کی
عدالت انصاف بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس کا داخلی راستہ بہت چوڑا اور 8 میٹر
بلند تھا اندر تینوں اطراف میں نشست گاہیں بنی تھیں۔ جو پہاڑ کو تراش کر ہی
بنائی گئیں تھیں۔ بہت سے لوگ یہاں تصویریں بنارہے تھے۔
صبح کے 10 ہی بجے تھے مگر سورج بڑی شدت سے ہمارے سروں پر چمک رہا تھا۔ دھوپ
اتنی تیز تھی کہ پیدل چلنا دشوار تھا۔ اس لیے پھر گاڑی میں بیٹھے اور آگے
چلے۔ ایک کنویں کے پاس جا کر رکے یہاں کافی رش تھا کنواں بہت گہرا تھا
منڈیر بھی نہیں تھی۔ اطراف میں خاردار تاریں لگی تھیں تاکہ کوئی آگے نہ
بڑھے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اہل ثمود نے آب رسانی کے لیے 130 کنواں بنا رکھے
تھے مگر اب یہاں چند کنوؤں کے نشان باقی ہیں ۔ یہ کنواں بھی ان میں سے ایک
تھا۔ کنویں کے ساتھ ہی چھوٹے چھوٹے پہاڑ تھے جن میں اہل ثمود کے گھر بنے
تھے۔ ہم نے ان گھروں کو اندر سے دیکھا۔ سارے گھر ایک جیسے تھے۔ دیواروں کو
تراش کر ان میں خانے بنائے گئے تھے مگر اک ہوکا عالم تھا ان ویران گھروں
میں۔
سورۃ العنکبوت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ہم نے عادیوں او رثمودیوں کو بھی غارت کیا جن کے بعض مقامات تمہارے سامنے
ظاہر ہیں۔ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب ویران پڑے ہیں۔ بے شک دانش مندوں کے
لیے نشانیاں ہیں تا کہ بعد میں آنے والوں کے لیے شک نہ رہے۔‘‘
بے شک اﷲ تعالیٰ نے اس سنگ تراش، جفا کش ، طاقتور مگر نافرمان قوم کے گھروں
کو عبرت کے لیے محفوظ کر رکھا ہے۔
مدین صالح ؐ میں جگہ جگہ سیاحوں کی دلچسپی کے لیے معلوماتی سٹینڈ لگائے گئے
ہیں جن پر اس علاقہ کی تاریخی اور جغرافیائی معلومات درج ہیں۔
اب ہم ایک اور بہت بڑے پہاڑ کے نیچے کھڑے تھے جس کے چاروں جانب چھوٹے بڑے
گھر تھے بلکہ یہ تو ڈبل سٹوری پہاڑ تھا۔ جس کے گھروں کے اوپر بھی گھربنے
تھے۔ اہل ثمود کی یہ کاریگری دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ
نے یہاں دریافت ہونے والے تمام گھروں پر نمبر لگائے ہوئے ہیں۔ 35۔ 36۔ 37
نمبر کے گھر ہماری آنکھوں کے سامنے تھے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان تمام
گھروں کے داخلی راستے پر کوئی دروازہ نہیں شاید اہل ثمود اپنے گھروں کے
باہر پردے لگاتے ہوں گے! مگر ایک قدر مشترک ان گھروں میں یہ ہے کہ ان سب
گھروں کے اوپر پیشانی پر کسی نہ کسی جانور کی تصویر بنی ہے۔ جیسے بکری،
شیر، عقاب وغیرہ۔
مدین صالح ؐ کے گیٹ کے پاس ایک بڑے بورڈ پر کچھ ضروری ہدایات عربی اور
انگریزی میں درج تھیں۔ جن میں ایک ہدایت یہ بھی تھی:
’’کہ پہاڑوں پر چڑھنا منع ہے‘‘ مگر یہاں چندسرپھرے لڑکے اوپر پہاڑی پر گھوم
کر ساری وادی کا مشاہدہ کر رہے تھے۔
نیاز صاحب ایک گائیڈ کی طرح ہمارے ساتھ ساتھ چل رہے تھے چونکہ وہ کافی عرصہ
سے یہاں کھدائی کا کام کر رہے ہیں جس وجہ سے وہ اس علاقے کے بارے میں بڑی
معلومات رکھتے تھے۔ آگے ایک کھلی اور وسیع وادی تھی جس کے اردگرد باڑ لگی
تھی۔ نیاز صاحب نے بتایا کہ اس باڑ کے اندر عام آدمی کو جانے کی اجازت
نہیں۔ اس میدان میں چھوٹے بڑے ٹوٹے پھوٹے پہاڑ تھے۔ نیاز صاحب نے باڑ کے
پاس کھڑے ہو کر اشارہ سے بتایا کہ اس پہاڑ میں اہل ثمود کی برتن بنانے کی
فیکٹری تھی۔ ایک شکستہ حال پہاڑ میں کسی شہزادے کا محل تھا۔ ایک اور ننھا
سا پہاڑ جو دور سے بالکل درخت کی مانند تھا۔ ایک پہاڑ ہاتھی کی سونٹھ جیسا
لگ رہا تھا۔ مدین صالح ؐ کے یہ عجیب و غریب پہاڑ اس عذاب الٰہی کا منہ
بولتا ثبوت ہیں جو قوم ثمود کی نافرمانیوں اور کرتوتوں کی وجہ سے اس علاقہ
میں آیا۔ انہوں نے خدا کے حکم سے سرتابی اور کر کشی کی اور صفحہ ہستی سے مٹ
کر رہتی دنیا تک عبرت کا نشان بن گئے۔
نیاز صاحب نے بتایا کہ عذاب آنے کے بعد 40 سال تک یہاں پانی بہتا رہا اور
60 سال تک پانی کھڑا رہا۔ جدید تحقیق کے مطابق اس علاقہ کی زمین میں 65
میٹر کی گہرائی میں پانی موجود ہے اور یہ سعودی عرب کا سب س زرخیز علاقہ
ہے۔
ہم جس جگہ چل رہے تھے وہاں شدید گرم ریت تھی۔ مردوں نے تو بوٹ پہن رکھے تھے
مگر میں نے اور طاہرہ نے کھلے چپل۔ گاڑی تک جاتے جاتے ریت ہمارے جوتوں میں
گھس گئی۔ سر پر تیز دھوپ اور پاؤں میں گرم ریت اور گرمی کا پارہ آسمان پر
پیاس سے ہمارے گلے خشک ہونے لگے۔ پانی بھی موجود تھا مگر اس عذاب والی جگہ
پر کچھ کھانے پینے کو دل آمادہ نہ ہوا۔
مدین صالح ؐ کا کافی حصہ ہم نے دیکھ لیا تھا اس لیے واپسی کا پروگرام بن
گیا حالانکہ ابھی بڑی تعداد میں لوگ ان پہاڑوں کے پاس گھوم پھر رہے تھے۔
گیٹ سے باہر نکلتے ہی میں نے اور طاہر ہ نے پانی پیا۔
مدین صالح ؐ کے باہر نیاز صاحب نے پتھر کا بڑا سا پیالہ دیکھایا جس میں قوم
ثمود اونٹنی کا دودھ جمع کرتے تھے۔ میں تصور کی آنکھ سے دیکھنے لگی کہ کس
طرح اﷲ کی وہ اونٹنی اس جگہ چلتی پھرتی تھی۔ وہ اونٹنی تو قدرت کا معجزہ
تھی جسے قوم ثمود نے اپنے ہاتھوں سے ہلاک کر دیا پھر خود بھی عبرت ناک
انجام کو پہنچے اور یوں تاریخ کی یہ الم ناک داستان اپنے اختتام کو پہنچی۔
|