عدل فاروقی رضی اﷲ عنہ کے چند اہم واقعات

سیدنا صدیق اکبرؓ کو جب اپنی وفات کا یقین ہوگیا توآپؓ نے سیدنا حضرت عمرؓ کو اپنا جانشین نامزد فرمایا بعض صحابہ رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے آپؓ کے سامنے اشکال پیش کیا کہ ہمیں اپنے بعد اس کے سپرد کرکے جارہے ہیں جو بہت سخت ہے آپؓ نے ارشاد فرمایاجب بارِ خلافت کا بوجھ عمرؓ کے کندھوں پر آپڑے گا تو وہ نرم ہوجائیں گے ۔

بعض صحابہؓ حضرت عمرؓ کی خلافت پر راضی نہ تھے انہیں پتہ چلا کہ حضرت ابوبکرصدیق ؓنے حضرت عمرؓ کو اپنا جانشین نامزد کیا ہے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی خدمت میں حاضرہوئے ان میں سے ایک شخص نے عرض کیا!
’’آپ ؓ اپنے پروردگار کو کیا جواب دیں گے اگر عمر رضی اﷲ عنہ کو خلیفہ بنائیں گے حالانکہ آپؓ ان کی سخت مزاجی دیکھ چکے ہیں ۔حضرت سیدنا ابوبکرؓ نے فرمایا مجھے بٹھا دو جب بیٹھ گئے تو فرمایا :
’’کیا تم مجھے خدا سے ڈراتے ہو؟سنو میں خداسے کہہ دوں گا کہ میں تیرے بندوں پر تیرے بہترین بندے کو خلیفہ بنا آیا ہوں‘‘

امور خلافت ہاتھ میں لیتے ہی آپؓ کی سختی نرمی میں بدل گئی لیکن اپنے فطری جلال وشکوہ کو یکسر ختم نہ کرسکے ان کے خدا داد رعب وقار سے ہر شخص متاثر ہوتا تھا اس کے باوجود آپؓ کے قلب مبارک میں رقت اور نرمی کوٹ کوٹ کر بھرئی ہوئی تھی۔ آپؓ کے خوف آخرت کے بارے علیحدہ باتیں جمع کی گئیں تو بڑی بڑی ضیخم کتب تدوین ہوئیں ۔آپؓ کو نرم پسندی نہ صرف عام انسانوں پر بلکہ جانوروں کے حق میں بھی ظہور پذیر ہوئیں محاسبہ اور آخرت کے خوف کا یہاں تک خیال تھا ہر وقت ان کی زبان پر یہ کلمہ رہتا کہ اگر دریائے فرات کی موجوں میں بکری کا بچہ بھی مر گیاتو عمر سے باز پرس ہوگی ،عمال و ولادت پرحضرت عمرؓ کے انصاف اور عدل کا اتنا اثر تھا آپ ؓ کی نسبت کسی کو شک وشبہ کاموقع نہ ملتا تھا سب آپؓ سے خوفزدہ رہتے تھے اور حصول نیک نامی کی کوشش کاکوئی وقیقہ اٹھانہ رکھتے تھے ۔اکثر گورنروں کی تقرری کے موقع پر گورنر بنا کر مخاطب ہوتے ۔

’’یاد رکھو!تم کوانسانوں پر ظالم اور سخت گیربنا کر نہیں بھیج رہا بلکہ تم کو رہنمااور امام ہادی بنا کر بھیج رہا ہوں تاکہ لوگ تم سے ہدایت حاصل کریں اور تمہارے نقش قدم پر چلیں تم مسلمانوں کے حقوق ادا کرنا ان کیلئے اپنے دروازے بند نہ کرنا ان کو مارپیٹ کرذلیل اور رسوا نہ کرنا ان سے اپنے آپ کو ممتاز خیال نہ کرنا ،اگر تم نے ان پر ظلم کیا اور مجھے معلوم ہوگیا تو تم خسارہ اٹھانے والے بن جاؤں گے ۔حاجت مندوں کیلئے ہر وقت دروازہ کھلا رکھنا چاہے آدھی رات ہی کیوں نہ ہو ‘‘

ایام حج پر ہر سال اعلان عام فرماتے میرے کسی عامل یا گورنر سے کوئی شکایت ہو تو وہ بیان کرے چنانچہ ایسے شواہد کتب تاریخ میں موجود ہیں آپ ؓ نے ایام حج پر لوگوں کو جمع کرکے عام اعلان کیا میرے عمال یا گورنر سے کوئی شکایت ہو تو بیان کرو چنانچہ بعض لوگوں نے گورنروں کی شکایت کی توآپ ؓنے بروقت ان کا احتساب فرمایا۔

بیت المال کے مال کو امانت سمجھ کر اس کی حفاظت کی ایک ایک پائی تک کی نگرانی فرمائی، بیمار اور خارش زدہ اونٹوں کے زخم پر اپنے ہاتھوں سے دوائی لگاتے اور فرماتے مجھے ڈر ہے اس مال کے بارے میں دن قیامت سوال نہ ہو ۔سیدنا علی کرم اﷲ وجہہ فرماتے ہیں سیدنا عمر ؓ کو ایک دن سخت دھوپ میں تیز دوڑتے ہوئے دیکھا میں نے پوچھا امیر المومنین ! کہاں جارہے ہیں؟آپؓ نے فرمایا میرے ساتھ آئیں میری نصرت کریں ’’میں نے کہا !کسی غلام کو حکم دیا ہوتا وہ اونٹ پکڑ لایا ‘‘آپؓ نے فرمایا اس ذات کی قسم ! جس نے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو نبوت بخشی اگر دریائے فرات کے کنارے ایک بکری بھی مال زکوٰۃ کی غائب ہوگئی تو قیامت کے دن اس کے بارے عمرؓ کی گرفت ہوگی پھر حضرت علی کرم اﷲ وجہہؓ رو پڑے اور کہا: ’’عمرؓ! تو نے آنے والے خلفاء کو مشکل میں ڈال دیا خدا کی قسم وہ تیرے نقش قدم پر نہیں چل سکیں گے ‘‘۔

کتاب الشاقعیہ مصنفہ شیخ الوہاب سبکی ؒ میں ہے کہ حضرت عمرؓ کے مبارک دور میں ایک بار مدینہ منورہ میں زلزلہ آیاآپؓ نے اﷲ تعالیٰ کی حمدو ثنا کی تو زمین ہل رہی تھی پھر اس پر درہ مارا اور فرمایا : ’’بس بس !قرار پکڑ کیا تجھ پر عمرؓ عدل نہیں کرتا؟‘‘

تو پھر ٹھہر گئی پھر زمینِ مدینہ پر زلزلہ نہ آیا ۔ قیصر روم نے حضرت عمرؓ کی خدمت میں ایک قاصد بھیجا تاکہ حالات کا جائزہ لے وہ مدینے شریف میں آیا لوگوں سے دریافت کیا :’’تمہارا بادشاہ کون ہے ؟‘‘

لوگوں نے جواب دیا ہماراکوئی بادشاہ نہیں ہمارا ایک امیر ہے جسے ہم امیرالمومنین کہتے ہیں ، وہ کہیں باہر چلا گیا ہے ،قاصد مدینہ منورہ کے باشندے کو لے کر حضرت کی تلاش میں نکلا تو تپتے ہوئے میدان میں کھجور کی چھاؤں میں درہ سر کے نیچے رکھ کر سورہے ہیں پسینہ پیشانی سے گر کر زمین کو تر کر رہا ہے ، یہ دیکھ کر قاصد رعب کی وجہ سے کپکپانے لگا معاًبول اٹھا :
’’عمرؓ تو نے عدل کیا لہٰذا بے خوف ہوکر سویا ہمارابادشاہ ظلم کرتا ہے تمام رات بے چین اور خوف زدہ رہتا ہے یہی حال آج کل کے حکمرانوں کا ہے ظلم کی وجہ سے انہیں رات بھر نیند نہیں آتی خوات بن جبیر رحمہ اﷲ فرماتے ہیں ایک سال امساک باراں کی وجہ سے قحط پڑ گیا لوگ امیر المومنین حضرت عمرؓرضی اﷲ عنہ کو میدان میں لے آئے دورکعت نماز پڑھ کر دعا کی ’’یا اﷲ ! ہم تیرے سے مغفرت اور بخشش مانگتے ہیں اور تیرے بندے عمرؓ کے عدل کے طفیل بارش مانگتے ہیں لوگ دعا کر ہی رہے تھے کہ بارش شروع ہوگئی (ازالۃ الخلفاء جلد 4مصنفہ شاہ ولی اﷲ دہلوی رحمہ اﷲ )

عرب میں ایک قحط پڑ ا جس سے آپؓ اکثر فاقہ میں رہنے لگے لوگوں کی تنگی اور تکلیف کو دیکھ کر آپؓ نے گھی دودھ کا استعمال ترک کردیا تیل کھاتے تھے ۔جس سے آپ کا رنگ سیاہ پڑگیا ابن سعدؓ فرماتے ہیں ہم اکثر کہا کرتے تھے اگر خدانے قحط جلد دور نہ کیا تو عمرؓ مسلمانوں کی تکلیف کے دکھ میں مر جائیں گے ۔

مبارک بن فضالہ کہتے ہیں حضرت عمرؓ اور ایک شخص کے درمیان کسی معاملہ میں پر گفتگو ہورہی تھی اس شخص نے مخاطب ہوکر کہا :’’امیر المومنین !خدا سے ڈر ‘‘ایک شخص نے کہا یہ امیر المومنین ہیں ۔حضرت عمرؓ نے یہ الفاظ سنے تو فرمایا :’’جانے دو جو کچھ کہہ رہا ہے مجھے کلمہ خیر کہہ رہا ہے ‘‘۔

قومی دولت کی ایک ایک پائی کی حفاظت قومی فریضہ سمجھ کر خوف خدا اور خوفِ آخرت کو پیش نظر رکھ کر فرمایا آج کل کی بڑی بڑی سلطنتوں کے فرمانروا صوابدیدی فنڈ کے نام پر جمہوری یاشخصی حکومتوں کے وزراء مرکزی وزرا ہوں یاصوبائی قومی دولت کو تعیشات اور راحت کوشی پر کیف اور پرسرورزندگی پر صرف کرتے ہیں لیکن فارس وعجم کسریٰ اور نوشیرواں کی حکومتوں کو الٹنے والا بارعب پر حشمت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ عوام کی خون پسینہ کی کمائی کا کس حد تک خرچ کرنے کاروادار تھا ؟وہ قومی خزانہ سے قوت لایموت مشاہرہ حاصل کرتا اور تن ڈھانپنے کیلئے سال میں دو جوڑے حاصل کرتا ایک لباس موسم سرما کیلئے اور دوسرا موسم گرما میں کفایت کرتے کپڑے پھٹ جاتے تو ان پر پیوند لگادیے جاتے ،رعایا کی خوش حالی اور دیکھ بھال کیلئے ساری ساری رات گشت کرتے مسکینوں ، بیواؤں کی ہر وقت خبر گیری کرتے ۔ حضرت طلحہ رضی اﷲ عنہ نے ایک اندھی بوڑھی عورت کو دیکھا دل میں سوچا اس معذور بوڑھی عورت کی خدمت کرکے خداوند تعالیٰ کی رضا حاصل کی جائے آپؓ نے اس بوڑھی سے پوچھا تیرے پاس کون آتا ہے ؟وہ بولی ایک شخص کئی مدت سے میری خبر گیری کرتا ہے میری تمام ضروریات پوری کرتا ہے میں دوسرے دن بہت صبح اس بوڑھی کے پاس گیا ،دیکھا حضرت عمرؓ اس نابینا بوڑھی عورت کو کھاناکھلارہے ہیں ۔میں نے دل میں کہا اے طلحہؓ!تجھے تیری ماں روئے تو عمرؓ کے ساتھ کیسے مقابلہ کرسکتا ہے ؟

زید بن اسلم روایت کرتے ہیں کہ ایک رات حضرت عمرؓ گشت کررہے تھے میں بھی آپؓ کے ہمراہ تھا ،دیکھا ایک خیمے میں ایک عورت کے بچے رورہے ہیں ایک چولہے پر آگ جل رہی ہے ۔ہنڈیا آگ پر رکھی ہے اس میں پانی ہے آپ ؓ نے خیمے کے سامنے کھڑے ہوکر کہا :’’اﷲ کی بندی!یہ بچے کیوں رو رہے ہیں ،عورت نے کہا ان بچوں کا رونا بھوک کی وجہ سے ہے حضرت عمرؓ نے پوچھا یہ ہنڈیا چولہے پر کیوں رکھی ہے ؟اس نے کہا یہ خالی پانی ہے جس سے بچوں کو بہلا رہی ہوں تاکہ انہیں تسلی ہو ہمارے اور عمرؓ کے درمیان اﷲ ہے آپ نے فرمایا!اﷲ کی بندی!اﷲ تجھ پر رحم کرے عمرؓ کو تیرے حال کا کیا پتا؟‘‘

بولی ہمارا حاکم ہوکرہم سے غافل ہو یہ کیسے ہوسکتا ہے آپ بیت المال آئے ایک بوری آٹے کی نکالی دیگر سامان اپنے اوپر رکھا میں نے عرض کیا یا امیر المومنین !میرے اوپر لاددیجئے آپؓ نے فرمایا قیامت کے دن میرا بوجھ تو اٹھائے گا؟ہم دونوں اس عورت کے پاس آئے سامان اتارا آگ جلائی حتیٰ کہ حریرہ پکا کر بچوں کو کھلادیا حتیٰ کہ بچے سیر ہوگئے وہ کہنے لگی امور خلافت کے لائق تو آپؓ تھے آپؓ نے عورت کو کہا امیر المومنین کے پاس مسجد نبوی آنا مجھے وہاں پاؤ گی صبح کو وہ عورت آئی تو آپ نے اس کو بیت المال سے بہت سا مال دے کر خوش کردیا ۔

ایک دفعہ آپ ؓنے مسجد نبوی میں خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے لوگوں سے پوچھا اے لوگو!اگر عمرؓ نے حق سے اعراض کیا تو کیا ہوگا؟حضرت حذیفہؓ اٹھ کھڑے ہوئے کہنے لگے واﷲ!اگر ہم نے آپؓ کو حق سے برگشتہ پایا تو ہم آپ کو سیدھا کردیں گے آپ نے فرمایا :خدا کاشکر ہے جس نے مجھے ایسے دوست عطا فرمائے اگر میں ٹیڑھا ہوجاؤں تو وہ سیدھا کردیں گے۔
Salman Usmani
About the Author: Salman Usmani Read More Articles by Salman Usmani: 182 Articles with 157591 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.