اہل اسلام کوسال نومبارک
(Muhammad Jehan Yaqoob, Karachi)
ہجری سال کاآغازمحرم الحرام سے ہوتاہے۔یہاں
یہ امرجانناضروری ہے کہعربوں کی اصل تقویم قمری تقویم تھی ،مگر وہ مدینہ
منورہ کے پڑوس میں آباد یہودی قبائل کی عبرانی(یہودی)تقویم کے طرزپر اپنے
تجارتی اور ثقافتی فائدے کی خاطر خالص قمری کے بجائے قمری شمسی تقویم
استعمال کرتے تھے۔ رسول اکرمﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر اس قمری شمسی تقویم
کو ہمیشہ کیلئے منسوخ فرماکر خالص قمری تقویم کو بحال رکھا ،جس کا آغاز
ہجرت مدینہ کے اہم واقعے سے کیاگیا تھا ،لہٰذا یہ تقویم ہجری تقویم کے نام
سے موسوم ہوئی ۔ اس کی ابتداخود حضوراکرم ﷺ کے حکم سے ہوئی اور حضرت عمر
فاروق رضی اﷲ عنہ نے اپنے دور خلافت میں سرکاری مراسلات میں ’’اسلامی قمری
ہجری‘‘ تاریخ کا اندراج لازمی قرار دیا،یہ ان کاایک ایساکارنامہ ہے ،جوان
کی یاددلاتارہے گا۔
انتہائی افسوس ناک امرہے کہ آج کے مسلمان اوربالخصوص نئی پودکو،جومستقبل کی
معماروصورت گرہے،اسلامی ہجری تقویم کے مہینوں کے نام تک معلوم نہیں ،اگرچہ
دفتری ضروریات کے تحت گریگورین(عیسوی) کیلندڑکااستعمال درست ہے ،تاہم
اسلامی مہینوں کے ناموں کاجاننااوران کی عظمت وفضیلت کاقائل ہونابھی فرض
کفایہ ہے۔شریعت محمدیہ ﷺمیں احکام شرعیہ مثلاً: حج و غیرکا دارومدار قمری
تقویم پر ہے۔ روزے قمری مہینے رمضان کے ہیں۔ نزول قرآن بھی رمضان میں ہوا،
عورتوں کی عدت، زکوٰۃ کے لیے سال گزرنے کی شرط وغیرہ سب قمری تقویم کے
اعتبار سے ہیں ۔عیدین یعنی عیدالفطر اور عیدالاضحی کا تعلق بھی قمری تقویم
سے ہے۔ناس ہولارڈمیکالے کے وضع کردہ نظام تعلیم کا، جس نے ہمیں اسلاف کی
دوسری زریں روایات کے ساتھ ساتھ اپنی اصل ہجری قمری تقویم بھی بھلادی۔ہمیں
اپنے بچوں کواہتمام وخصوصیت سے اسلامی سال کے مہینوں کے نام یادکرانے
چاہییں۔
قمری تقویم کی بنیاد زمین کے گرد چاند کی ماہانہ گردش پر ہے اور ہر مہینے
کا آغاز نئے چاندسے ہوتاہے ۔قمری تقویم میں تاریخ کا آغاز غروب شمس سے
ہوتاہے اورقمری مہینہ کبھی 29دن کا اور کبھی30دن کاہوتاہے۔ یوں قمری سال
عموما354دن اور بعض سالوں میں 355دن کا ہوتاہے۔ اس کے برخلاف موجودہ رائج
عیسوی تقویم میں آج کل دن کاآغاز رات بارہ بجے سے ہوتاہے اوراس میں یہ بھی
طے ہے کہ ہرسال کون سامہینہ کتنے دنوں کاہوگا، جب کہ فروری کا مہینہ عام
سالوں میں 28دن کا لیاجاتاہے اور لیپ(چارپرتقسیم ہونے ولا ہر چوتھاسال )کے
سالوں میں 29دن کا ہوتاہے۔ مہینوں کی یہ تعداد خود ساختہ ہے، کسی قاعدہ یا
ضابطہ کے تحت نہیں البتہ سب مہینوں کے دنوں میں مجموعی تعداد365اور لیپ کے
سالوں میں 366دن ہوتی ہے۔
اس کے مقابل قمری تقویم میں ابہام ہے،جس میں کئی مصلحتیں پوشیدہ
ہیں،مثلا:بعض اہم مواقع پر اس ابہام سے پیداہونے والی انتظاری کیفیت
(سسپنس)نہایت مسرت افزاہوتی ہے، اہل اسلام عید الفطرکے ہلال کی امکانی رؤیت
و عدم رؤیت سے پیدا ہونے والی انتظاری کیفیت میں چاند دیکھنے کی والہانہ
کوشش کرتے ہیں ۔بچوں ، جوانوں ، بوڑھوں ، مردوں اور عورتوں کی چاند دیکھنے
کی یہ مسرت آمیزمساعی ایک عجیب سماں پیدا کرتی ہیں۔ اگر عید وغیرہ کا دن
پہلے سے ہی سوفیصدیقین کے ساتھ متعین اور مقررہوتاتو یقیناہلال عید کی یہ
خوشی نصیب نہ ہوتی۔قمری مہینوں کی موسموں سے عدم مطابقت کا ایک فائدہ یہ
بھی ہے کہ بعض نہایت اہم احکام شرعیہ مثلا:صیام رمضان کی تعمیل زندگی بھر
میں تمام موسموں میں ممکن ہوجاتی ہے، مثلا:ایک شخص اٹھارہ بیس سال کی عمر
میں رمضان کے روزے رکھناشروع کرتاہے اور پچاس ساٹھ برس کی عمر تک جسمانی
صحت کے لحاظ سے روزے رکھنے کے قابل رہتاہے، تو وہ موسم گرما،موسم سرما
،موسم بہار اورموسم خزاں یعنی سال کے تمام موسموں میں روزے رکھنے کی سعادت
حاصل کرپائے گا۔ اگر اس طرح کے احکام کے لیے شمسی مہینے متعین کیے جاتے تو
ساری عمر ایسے احکام کی تعمیل ایک ہی موسم میں ہوتی ،بلکہ شمالی نصف کرہ
اور جنوبی نصف کرہ کے موسمی تضاد کی وجہ سے بعض علاقوں اور ملکوں کے لوگ
موسم گرمامیں اور دوسرے علاقوں کے لوگ موسم سرمامیں ان احکام کی تعمیل کے
لیے ہمیشہ پابندہوکررہ جاتے اور ان احکام کی بجاآوری کے سلسلے میں موسمی
تغیرات کا فائدہ نہ اٹھاسکتے،اسلامی تقویم نے ہی یہ بات ممکن بنادی ہے۔اس
کے علاوہ ماہرین نے قمری ہجری تقویم کی بعض دیگر خصوصیات بھی بیان کی
ہیں،من جملہ ان میں یہ بھی ہے کہ جب سے سن ہجری کا آغازہواہے اس وقت سے لے
کر آج تک اس میں کوئی ترمیم نہیں ہوئی، یہ خصوصیت غالباً صرف قمری تقویم ہی
کو حاصل ہے۔سن ہجری میں ہفتے کا آغاز جمعۃ المبارک کے دن سے
ہوتاہے،جوسیدالایام یعنی تمام دنوں کا سردارہے۔ہجری تقویم میں شرک ، نجوم
پرستی یابت پرستی کا شائبہ تک نہیں ہے۔ مہینوں اور دنوں کے ناموں کو ،دوسری
تقاویم کی طرح کسی بادشاہ، سیارے یا دیوی ، دیوتاسے کوئی نسبت نہیں ۔شرائع
سابقہ میں بھی دینی مقاصدکیلئے یہی تقویم مستعمل تھی بعد میں لوگوں نے اس
خالص قمری تقویم میں تحریف کرتے ہوئے اسے شمسی یا قمری شمسی تقویم میں بدل
ڈالا۔اس سال کاآغاز یکم محرم الحرام سے ہوتاہے،اورمحرم الحرام کایہ دن ہمیں
ایک عظیم اورلازوال قربانی کی یاد دلاتاہے کہ اس دن مرادرسول حضرت سیدنا
عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کوایک بین الاقوامی سازش کے نتیجے میں شہید
کردیاگیاتھا،اسی طرح اس مہینے کے ابتدائی دس دن ہمیں اہل بیت رسول ﷺکی فقید
المثال قربانی کی یاددلاتے ہیں کہ دین کی خاطرکیسی کیسی نابغہ روزگارشخصیات
کوخاک وخون میں تڑپایاگیا،لہٰذایہ دین جب بھی قربانی کا تقاضا کرے،ان عظیم
نفوس قدسیہ کی قربانیوں کویاد کرکے قربانی کے لیے بصد دل وجان تیار
ہوجانا،کہ دانہ خاک میں مل کر گل وگل زار ہوتاہے۔
اہل اسلام کونئے سال کی مبارک باد دینے کے ساتھ ساتھ ہم یہ پیغام بھی
دیناچاہتے ہیں کہ ہمیں اپنی اصل پہچان یعنی اسلامی ہجری سال کو بالکل نہیں
بھلادیناچاہیے،بلکہ اس کے نام بھی یادرکھنے چاہییں اوراسے استعمال بھی
کرناچاہیے،کہیں ایسانہ ہوکہ آئندہ چندسالوں میں ہماری نئی پودکے ذہنوں سے
یہ تصورہی محوہوجائے کہ ہم بھی ایک زندہ جاویدتہذیب وتاریخ کے امین
ہیں،ہمارابھی ایک شاندارماضی ہے،ہمارابھی ایک تشخص ہے۔
|
|