محرم الحرام …… مذہبی و معاشرتی ذمہ داریاں

مولانا محمد الیاس گھمن
امیر: عالمی اتحاد اہل السنت والجماعت

اسلامی سن کا آغاز:
اقوامِ عالَم کا شروع سے دستور چلا آ رہا ہے کہ وہ اپنی تاریخ کو محفوظ کرتے ہیں اور اپنے ماہ وسال کو کسی شخصیت سے وابستہ کرتے ہیں۔ مثلاً یہودیت کو دیکھ لیجئے وہ اپنے سن کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے فلسطین پر تخت نشین آراء ہونے کے واقعے سے منسوب کرتے ہیں۔ عیسائیت، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے یوم ولادت پر اپنے سن کو موسوم کرتے ہیں۔ بِکرمی سن؛ بِکرماجیت کی پیدائش اور رومی سن؛ سکندر اعظم کے یوم ولادت سے منسوب ہیں۔ جبکہ اسلامی سن کسی شخصیت سے منسوب ہونے کے بجائے ایسے حالات سے متعلق ہے جس میں چاروں اطراف سے گھِرجانے، مصائب وآلام کے شکنجے میں کَسے جانے، اپنے قریبی رشتہ داروں کے ہاتھوں قتل کے منصوبے اور حق کی نِدا ء کو دبانے کے لئے باطل کی سازشوں کے جال بچھے ہوں تو اعلائے کلمۃ اﷲ کے فریضے کو ببانگ دہل اداکرکے’’ہجرت‘‘ کے حکمِ ربی پر لبیک کہہ دیاجائے اور ہجرت بھی ایسی جو اپنے اندر عالم بے بسی میں ثابت قدمی، صبرواستقامت کاراز چھپائے ہوئے ہے، اس سے اسلامی سن کا آغاز کیا جائے یعنی سن ہجری۔
امام ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں ذکر کیا ہے کہ 17ہجری میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہ جوکہ یمن کے گورنر تھے انہوں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ کی اس طرف توجہ مبذول کرائی کہ آپ کے جوسرکاری خطوط اور گرامی نامے ہماری طرف آتے ہیں ان پر تاریخ درج نہیں ہوتی مناسب ہوگااگر تاریخ کے اندراج کا اہتمام بھی کرلیا جائے۔ چنانچہ صحابہ کرام کے باہمی مشورے سے یہ طے پایا کہ اسلامی سن کا آغاز واقعہ ہجرت کو بنایا جائے۔
نیزمورخین کی وضاحت کے ساتھ یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ صحا بہ رضی اﷲ عنہم کا اس با ت پر بھی اتفاق ہوا کہ سال کی ابتدا ء ماہ محرم سے کی جا ئے۔ چنانچہ محرم ہی سے اسلا می سال کا آغاز ہونے لگا۔
ماہ ِمحرم کے فضائل:
ماہ محرم اپنی فضیلت وعظمت ، حرمت و برکت اور مقام و مرتبہ کے لحاظ سے انفرادی خصوصیت کا حامل ہے۔ اسی وجہ سے شریعت محمدیہ علیٰ صا حبہا الصلوٰۃ والسلام کے ابتدائی دور میں اس کے اعزازو اکرام میں قتال کو ممنوع قرار دیا گیا۔ چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ربا نی ہے: اس میں قتال کرنا بہت بڑا گنا ہ ہے۔
اسے حر مت والے مہینوں میں سے بھی شمار کیا گیا ہے۔ارشاد با ری ہے: مہینوں کی گنتی اﷲ تعالیٰ کے نزدیک با رہ مہینے ہے …ان میں چا ر مہینے ادب کے ہیں۔
صحیح بخاری میں حضرت ابو بکرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: زمانے کی رفتا ر وہی ہے جس دن اﷲ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو پیدا فرمایا تھا۔ ایک سال بارہ مہینو ں کا ہو تا ہے ان میں سے چا ر مہینے حرمت والے ہیں جن میں سے تین مہینے مسلسل ہیں یعنی ذوالقعدہ ، ذوالحجہ، محرم اور ایک مہینہ رجب کا ہے۔
محرم کے روزوں کی فضیلت:
یوں تو اس ماہ میں کی جا نے والے ہر عبادت قابل قدر اور با عث اجر ہے مگر احادیث مبارکہ میں محرم کے روزوں کی خصوصی ترغیب دی گئی ہے۔ چنانچہ صحیح مسلم میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان مبارک موجود ہے : رمضا ن کے رو زو ں کے بعد سب سے بہتر ین روزے اﷲ کے مہینہ’’محرم ‘‘ کے رو زے ہیں۔
غنیۃ الطا لبین میں شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اﷲ نے حضرت ابن عبا س رضی اﷲ عنہ سے روا یت ذکر فرمائی ہے : جو محرم کے ایک دن کا روزہ رکھے ا س کو ایک مہینہ کے روزوں کا ثواب ملے گا۔
عاشوراء کا روزہ :
پھر اس ماہ کے تمام ایام میں سے اﷲ رب العزت نے ’’ یوم عاشوراء ‘‘کو ایک ممتاز مقام عطا ء فرمایا ہے۔ یہ دن بہت سے فضائل کا حامل اور نیکیوں کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔ صحیح مسلم میں ارشاد نبوی ہے: جو شخص عاشورا کے دن کا روزہ رکھتا ہے تو اﷲ تعا لی اس کے گزشتہ سال کے (صغیرہ) گناہ معاف فرما دیتے ہیں۔
صحیح بخاری میں حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ کا یہ فر ما ن ہے:حضور اقدس صلی اﷲ علیہ و سلم رمضان المبارک کے مہینہ اور دس محرم کے دن روزہ رکھنے کا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔
کفار کی مشابہت سے ممانعت:
شریعت اسلامی نے اہل ایمان کو کفار کی مشابہت سے بچنے کا تاکیدی حکم دیا ہے ،اس تناظر میں ہمیں اس بات کا خاص خیال رکھنا ہوگا کہ دسویں محرم کا روزہ چونکہ یہود بھی رکھتے ہیں اس لئے ہم دسویں تاریخ کے ساتھ نویں یا گیارہویں تاریخ کا رو زہ بھی رکھیں تا کہ سنت بھی ادا ہو جائے اور شریعت کے مقتضا پر عمل بھی ہو جائے ،چنانچہ مسند احمد میں حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ کی روایت موجود ہے:تم عاشورہ کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو اور اس سے ایک دن پہلے یا بعد کا روزہ بھی رکھو۔
اہل وعیا ل پرمالی و سعت :
دسویں محرم کے دن اپنی استطا عت کے مطا بق حلال آ مدنی سے اپنے اہل و عیال پر کھا نے پینے میں وسعت کر نا بر کت رزق کا ذریعہ اور فقرو فاقہ سے نجات کا سبب ہے۔امام ابن عبدالبر مالکی رحمہ اﷲ نے الاستذکار میں حضرت جا بر رضی اﷲ عنہ سے نقل کیا ہے کہ رسول پا ک صلی اﷲ علیہ و سلم نے فرمایا: جوشخص اپنے آپ پر اور اپنے گھر والوں پر عاشوراء کے دن ( کھا نے پینے میں ) وسعت کرے گا اﷲ تعا لی اس پر پورے سال وسعت فرما ئیں گے۔
جلیل القدر صحا بی حضرت جا بر ، مشہور محدث یحیٰ بن سعید اور معروف فقیہ سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں کہ ہم نے اس کا تجربہ کیا تو اس کو درست اور اسی طرح پا یا۔
تحمل و بردباری :
محرم الحرام کا شمار ان مہینوں میں ہوتا ہے جن کی عظمت و تقدس قرآن وحدیث اور معتبر تاریخ سے ثابت ہے۔ یہ عبادت ، مالی وسعت ،فراخ دلی اورتحمل برداشت کا مہینہ ہے۔اس لیے محرم الحرام کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہم سب نے مل کر اس نئے اسلامی سال کا خیر مقدم کرنا ہے اور یہ عزم کرنا ہے کہ فرقہ واریت ، دہشت گردی ، تخریب کاری اورعدم برداشت کی حوصلہ شکنی کر کے اتحاد و اتفاق ، امن و امان اور تحمل کو فروغ دیں گے۔
مذہبی رہنماؤں سے گزارش:
جہاں تک ہمارا ذاتی مشاہدہ ہے سابقہ سال محرم الحرام مجموعی طور پر پْر امن رہا جس کی وجوہات انتظامیہ کی غیر جانبدارانہ امن پالیسی ، تمام مکاتب فکر کے ذمہ دار سنجیدہ مذہبی رہنماؤں کی محنت اور عوام میں بڑھتے ہوئے اخلاقی شعور نے کئی عشروں پر مشتمل محرم کی ناگفتہ بہ صورتحال کو یکسر بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس بار بھی ہمیں امید ہے کہ انتظامیہ ، علماء اور عوام مل کر محرم الحرام کے تقدس کو پامال ہونے سے بچائیں گے۔ لڑائی جھگڑا ،خون خرابہ اور باہمی تشدد پر قابو پائیں گے۔ اور پْر امن طریقے سے گزارنے کی مضبوط حکمت عملی کو اپنائیں گے۔ اس سے یقیناً ملک سے بدامنی ، فرقہ واریت ، دہشت گردی اور تخریب کاری ختم ہو سکتی ہے۔ اﷲ تعالی ہمارے اس پیارے ملک کو اندرونی و بیرونی سازشوں سے محفوظ فرمائے اورسالمیت و استحکام عطا فرمائے۔آمین یارب العالمین



ماہ محرم کیسے گزاریں ؟؟
ابو جندل قاسمی
یوم عاشوراء زمانہ جاہلیت میں قریشِ مکہ کے نزدیک بڑا محترم دن تھا، اسی دن خانہ کعبہ پر نیا غلاف ڈالا جاتا تھا اور قریش اس دن روزہ رکھتے تھے، قیاس یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کچھ روایات اس کے بارے میں ان تک پہنچی ہوں گی، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا دستور تھا کہ قریش ملتِ ابراہیمی کی نسبت سے جو اچھے کام کرتے تھے، ان کاموں میں آپ ان سے اتفاق واشتراک فرماتے تھے، اسی بنا پر حج میں بھی شرکت فرماتے تھے، اپنے اس اصول کی بنا پر آپ قریش کے ساتھ عاشورہ کا روزہ بھی رکھتے تھے؛ لیکن دوسروں کو اس کا حکم نہیں دیتے تھے، پھر جب آپ مدینہ طیبہ تشریف لائے اور یہاں یہود کو بھی آپ نے عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا اور ان کی یہ روایت پہنچی کہ یہ وہ مبارک تاریخی دن ہے، جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو اﷲ تبارک وتعالیٰ نے نجات عطا فرمائی تھی اور فرعون اور اس کے لشکر کو غرقاب کیا تھا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس دن کے روزے کا زیادہ اہتمام فرمایا اور مسلمانوں کو بھی عمومی حکم دیا کہ وہ بھی اس دن روزہ رکھا کریں۔
بعض حدیثوں میں ہے کہ آپ نے اس کا ایسا تاکیدی حکم دیا جیسا حکم فرائض اور واجبات کے لیے دیا جاتا ہے؛ چنانچہ بخاری ومسلم میں سلمہ بن الاکوع رضی اﷲ عنہ اور ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یوم عاشورہ کی صبح مدینہ منورہ کے آس پاس کی ان بستیوں میں جن میں انصار رہتے تھے، یہ اطلاع بھجوائی کہ جن لوگوں نے ابھی تک کچھ کھایا پیا نہ ہو وہ آج کے دن روزہ رکھیں اور جنہوں نے کچھ کھاپی لیا ہو وہ بھی دن کے باقی حصے میں کچھ نہ کھائیں ؛ بلکہ روزہ داروں کی طرح رہیں، بعد میں جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو عاشورہ کے روزہ کی فرضیت منسوخ ہوگئی اور اس کی حیثیت ایک نفل روزہ کی رہ گئی۔
لیکن اس کے بعد بھی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا معمول یہی رہا کہ آپ رمضان المبارک کے فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزوں میں سب سے زیادہ اسی روزہ کا اہتمام فرماتے تھے، جیساکہ حدیث آگے آرہی ہے ۔
یومِ عاشورہ کی تاریخی اہمیت:
یوم عاشورہ بڑا ہی مہتم بالشان اور عظمت کا حامل دن ہے، تاریخ کے عظیم واقعات اس سے جڑے ہوئے ہیں؛ چنانچہ مورخین نے لکھا ہے کہ:
(۱) یوم عاشورہ میں ہی آسمان وزمین، قلم اور حضرت آدم علیہما السلام کو پیدا کیاگیا۔
(۲) اسی دن حضرت آدم علیٰ نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام کی توبہ قبول ہوئی۔
(۳) اسی دن حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا گیا۔
(۴) اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ہولناک سیلاب سے محفوظ ہوکر کوہِ جودی پر لنگرانداز ہوئی۔
(۵) اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ،،خلیل اﷲ‘‘ بنایا گیا اور ان پر آگ گلِ گلزار ہوئی۔
(۶) اسی دن حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔
(۷) اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کو قید خانے سے رہائی نصیب ہوئی اور مصر کی حکومت ملی۔
(۸) اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کی حضرت یعقوب علیہ السلام سے ایک طویل عرصے کے بعد ملاقات ہوئی۔
(۹) اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم واستبداد سے نجات حاصل ہوئی۔
(۱۰) اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توریت نازل ہوئی۔
(۱۱) اسی دن حضرت سلیمان علیہ السلام کو بادشاہت واپس ملی۔
(۱۲) اسی دن حضرت ایوب علیہ السلام کو سخت بیماری سے شفا نصیب ہوئی۔
(۱۳) اسی دن حضرت یونس علیہ السلام چالیس روز مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے بعد نکالے گئے۔
(۱۴) اسی دن حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی توبہ قبول ہوئی۔
(۱۵) اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔
(۱۶) اور اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں کے شر سے نجات دلاکر آسمان پر اٹھایاگیا۔
(۱۷) اسی دن دنیا میں پہلی بارانِ رحمت نازل ہوئی۔
(۱۸) اسی دن قریش خانہ کعبہ پر نیا غلاف ڈالتے تھے۔
(۱۰) اسی دن کوفی فریب کاروں نے نواسہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اور جگر گوشہ فاطمہ رضی اﷲ عنہما کو میدانِ کربلا میں شہید کیا۔
(۲۰) اور اسی دن قیامت قائم ہوگی۔
(نزہۃ المجالس ۷۴۳/۱،معارف الحدیث ۸۶۱/۴)
یومِ عاشورہ کی فضیلت:
مذکورہ بالا واقعات سے تو یوم عاشورہ کی خصوصی اہمیت کا پتہ چلتا ہی ہے، علاوہ ازیں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے بھی اس دن کی متعدد فضیلتیں وارد ہیں؛ چنانچہ:
:1 حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں : میں نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کوکسی فضیلت والے دن کے روزہ کا اہتمام بہت زیادہ کرتے نہیں دیکھا، سوائے اس دن یعنی یومِ عاشوراء کے اور سوائے اس ماہ یعنی ماہِ رمضان المبارک کے۔
مطلب یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ نے آپ کے طرزِ عمل سے یہی سمجھا کہ نفل روزوں میں جس قدر اہتمام آپ یومِ عاشورہ کے روزہ کا کرتے تھے، اتنا کسی دوسرے نفلی روزہ کا نہیں کرتے تھے۔
(۲) حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:روزہ کے سلسلے میں کسی بھی دن کو کسی دن پر فضیلت حاصل نہیں؛ مگر ماہِ رمضان المبارک کو اور یوم عاشورہ کو (کہ ان کو دوسرے دنوں پر فضیلت حاصل ہے)
(۳)حضرت ابوقتادہ رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ عاشوراء کے دن کا روزہ گذشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔
ان احادیث شریفہ سے ظاہر ہے کہ یوم عاشوراء بہت ہی عظمت وتقدس کا حامل ہے؛ لہٰذا ہمیں اس دن کی برکات سے بھرپور فیض اٹھانا چاہیے۔
ماہِ محرم کی فضیلت اوراس کی وجوہات:
یوم عاشوراء کے ساتھ ساتھ شریعت مطہرہ میں محرم کے پورے ہی مہینے کو خصوصی عظمت حاصل ہے؛ چنانچہ چار وجوہ سے اس ماہ کو تقدس حاصل ہے:
پہلی وجہ تو یہ ہے کہ احادیث شریفہ میں اس ماہ کی فضیلت وارد ہوئی ہے؛ چنانچہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے کسی شخص نے سوال کیا کہ ماہ رمضان المبارک کے بعد کون سے مہینہ کے میں روزے رکھوں؟ تو حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے جواب دیا کہ یہی سوال ایک دفعہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے بھی کیا تھا، اور میں آپ کے پاس بیٹھا تھا، تو آپ نے جواب دیا تھا کہ یعنی ماہ رمضان کے بعد اگر تم کو روزہ رکھنا ہے تو ماہِ محرم میں رکھو؛ کیونکہ وہ اﷲ تعالیٰ (کی خاص رحمت) کا مہینہ ہے، اس میں ایک ایسا دن ہے جس میں اﷲ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی اور آئندہ بھی ایک قوم کی توبہ اس دن قبول فرمائے گا ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے: نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ماہ رمضان المبارک کے روزوں کے بعد سب سے افضل روزہ ماہ محرم الحرام کا ہے۔اسی طرح ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص محرم کے ایک دن میں روزہ رکھے اور اس کو ہر دن کے روزہ کے بدلہ تیس دن روزہ رکھنے کا ثواب ملے گا۔
مندرجہ بالا احادیث شریفہ سے دوسری وجہ یہ معلوم ہوئی کہ یہ ’’شہرْ اللّٰہ‘‘ ہے یعنی اﷲ تعالیٰ کی خاص رحمتوں کا مہینہ ہے تو اس ماہ کی اضافت اﷲ کی طرف کرنے سے اس کی خصوصی عظمت وفضیلت ثابت ہوئی۔
یہ مہینہ ’’اشہر حرم‘‘ یعنی ان چار مہینوں میں سے ہے کہ جن کو دوسرے مہینوں پر ایک خاص مقام حاصل ہے، وہ چار مہینے یہ ہیں:
(1):ذی قعدہ (2) ذی الحجہ (3) محرم الحرام (4) رجب
یوم عاشوراء میں کرنے کے کام:
احادیث طیبہ سے یومِ عاشوراء میں صرف دو چیزیں ثابت ہیں:
روزہ:
جیساکہ اس سلسلے میں روایات گزرچکی ہیں؛ لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ احادیث میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کفار ومشرکین کی مشابہت اور یہود ونصاریٰ کی بود وباش اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے، اس حکم کے تحت چونکہ تنہا یوم عاشوراء کا روزہ رکھنا یہودیوں کے ساتھ اشتراک اور تشابہ تھا، دوسری طرف اس کو چھوڑ دینا اس کی برکات سے محرومی کا سبب تھا؛ اس لیے اﷲ تعالیٰ کے مقدس پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ یوم عاشوراء کے ساتھ ایک دن کا روزہ اور ملالو، بہتر تو یہ ہے کہ نویں اور دسویں تاریخ کا روزہ کھو، اور اگر کسی وجہ سے نویں کا روزہ نہ رکھ سکو تو پھر دسویں کے ساتھ گیارہویں کا روزہ رکھ لو؛ تاکہ یہود کی مخالفت ہوجائے اور ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا تشابہ نہ رہے۔ جیساکہ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ جب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یوم عاشوراء کا روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا تو بعض صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! اس دن کو یہود ونصاریٰ بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں(تو کیا اس میں کوئی ایسی تبدیلی ہوسکتی ہے جس کے بعد یہ اشتراک اور تشابہ والی بات ختم ہوجائے) تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یعنی جب اگلا سال آئے گا تو ہم نویں کو بھی روزہ رکھیں گے، ابن عباس رضی اﷲ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ اگلاسال آنے سے پہلے ہی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی۔
اہل وعیال پر رزق میں فراخی:
شریعتِ اسلامیہ نے اس دن کے لیے دوسری تعلیم دی ہے کہ اس دن اپنے اہل وعیال پر کھانے پینے میں وسعت اورفراخی کرنا اچھا ہے؛ کیونکہ اس عمل کی برکت سے تمام سال اﷲ تعالیٰ فراخیِ رزق کے دروازے کھول دیتا ہے؛ چنانچہ: حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یعنی جو شخص عاشوراء کے دن اپنے اہل وعیال پر کھانے پینے کے سلسلے میں فراخی اور وسعت کرے گا تو اﷲ تعالیٰ پورے سال اس کے رزق میں وسعت عطا فرمائیں گے۔

 
muhammad kaleem ullah
About the Author: muhammad kaleem ullah Read More Articles by muhammad kaleem ullah: 107 Articles with 108838 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.