فون،بھوکا،کھانا،راستہ بھولنا ،دوستی (سو لفظوں کی پانچ کہانیاں 11-15)
(Talib Ali Awan, Sialkot)
٭ فون
’’آج میری دکان پر ایک سفید ریش بزرگ تشریف لائے ‘‘،میرے دوست امداد نے
بتایا۔
’’ کیا پہلی بار کوئی بزرگ تشریف لائے تھے؟‘‘، میں نے ہنستے ہوئے پوچھا ۔
’’ نہیں یار ! تم ہر بات مذاق سمجھتے ہو ، وہ فون صحیح کرانے آئے تھے ۔
میں نے فون دیکھا تو وہ بالکل ٹھیک تھا ‘‘،امداد تھوڑا جذباتی اندا ز سے
بولا ۔
’’ تو پھر ۔۔۔۔۔؟‘‘، میں نے دریافت کیا۔
امداد کہتا ہے کہ میں نے کہا ،’’ بابا جی ! آپ کا فون تو بالکل ٹھیک ہے ۔‘‘
’’ اگر یہ ٹھیک ہے تو پھر میرے بچوں کا ’فون ‘کیوں نہیں آتا ؟‘‘، بابا جی
نے کانپتی ہوئی آواز سے کہا۔
٭ بھوکا
گزشتہ چند دنوں سے راستے میں ایک اجنبی بزرگ نظر آرہے تھے ، جن کی لمبی
زلفیں ،بڑی ہو ئی داڑھی اور گھنی مونچھیں تھیں ۔
کبھی وہ بس سٹاپ پر کھڑے ہوتے تو کبھی بازار میں گھوم رہے ہوتے ،
کبھی چوک میں ایک طرف بیٹھے ہوتے تو کبھی سڑک کنارے لیٹے ہوتے تھے ۔
اکثر راہگیر باباجی کو دیکھتے اور گزر جاتے ۔
ایک دن جب میں نے بابا جی کو سڑک کنارے لیٹے دیکھا تو تھوڑا ہچکچاتے ہوئے
انکے پاس گیا اور حسب ِ عادت سوال کیا :
’’ بابا جی ! آپ مسلمان ہیں یا کافر ؟‘‘
’’ بھوکا ہوں صاحب ‘‘، بابا جی نے جواب دیا۔
٭ کھانا
سسر نے سکول سے پوتے ،پوتیوں کو لانے کے بعد بہو سے کہا :
’’ بہو ! کھا نا ملے گا؟‘‘
’’ لوگ ایک وقت کے کھانے کو ترستے ہیں اور یہاں ۔۔۔۔۔‘‘، بہو ناک چڑھاتے
ہوئے بولی۔
’’ دل گھبرا رہا تھا ۔۔۔۔۔،چلو کوئی پھل وغیرہ ہی دے دوَ‘‘،سسر پھولی ہوئی
سانس کے ساتھ بولا ۔
’’ اس عمر میں لوگ پانی بھی نہیں نگل سکتے اور یہ ۔۔۔۔۔‘‘،بہو نے کچن میں
برتن کو پٹختے ہوئے کہا۔
اسی رات سسر کا انتقال ہو گیا ۔
رسم قل پر 5،دسواں پر 30اور چالیسواں پر 4دیگوں اور طرح طرح کے پھلوں سے
مہمانوں کی تواضع کی گئی ۔
٭ راستہ بھولنا
میری دادی امی مجھے ہر رات کہانی سنایا کرتی تھیں ۔
ایک دن میں نے دن میں کہانی سننے کی ضد کی ۔
’’ بیٹا ! دن میں کہانی نہیں سناتے ہیں ‘‘، دادی امی ۔
’’ کیوں ؟‘‘، میں نے دریافت کیا ۔
’’ دن میں کہانی سنانے سے مسافر راستہ بھول جاتے ہیں ‘‘،دادی ۔
’’ دادی جی ! چلیں کسی راستہ بھولے ہوئے مسافر کی ہی کہانی سنا دیں ؟‘‘،
میں نے گزارش کی ۔
’’ اچھا تو پھر سنو!
ایک مسافر پیسے کمانے دور کے دیس گیا ، اس کے بھتیجے کو اس کی دادی نے دن
میں کہانی سنائی اور وہ راستہ بھول گیا۔
کئی برس گزر گئے ،وہ واپس نہیں آیا۔‘‘
٭ دوستی
ہم چاروں دوستوں نے اکٹھے اسلامیات کا لیکچر سنا ۔
اکٹھے یونیورسٹی سے نکلے ،شاپنگ کی ،
پارک میں تھوڑی دیر کے لئے اکٹھے کرکٹ کھیلی ،
اکٹھے اردو بازار سے چندکتابیں خریدیں ، صنعتی نمائش کے مختلف سٹالز کی سیر
کی ،
موبائل فونز پر سیاسی پوسٹس شیئر کیں، انوار کلب میں سٹیج ڈرامے سے محضوظ
ہوئے ۔
واپسی پر اذانیں ہونے لگیں ۔
نماز کی ادائیگی کے لئے گاڑی کو سڑک کے ساتھ پارکنگ ایریا میں کھڑا کیا ۔
میں گاڑی سے اتر کر بریلویوں کی مسجد میں چلا گیا ۔
انصر اہلحدیث کی مسجد میں ۔
ولید دیو بندیوں کی مسجد میں ۔
علی شیعوں کی مسجد میں ۔ |
|