14،اگست 2016 کو ٹی وی کے ایک
پروگرام میں ،میزبان طلعت حسین کو اپنی رائے دیتے ہوئے ایک تعلیم یافتہ
نوجوان نے کہاکہ معاشرتی علوم کے مضمون کو نصاب سے خارج کردینا چاہیئے
کیونکہ معاشرتی علوم کے مضمون کا ہماری مستقبل کی اعلی پیشہ ورانہ تعلیم
کوبہتر بنانے میں کوئی کردار نہیں ہے ۔پروگرام کے میزبان طلعت حسین نے
نوجوان کو منطقی دلیل دیکر قائل کیا اور بتایا کہ بچوں کو معاشرتی علوم
پڑھاناکیوں ضروری ہے لیکن سوچنے کا مقام یہ ہے کہ آج کا نوجوان تعلیم کا
حصول دراصل نوکری کا حصول سمجھتا ہے وہ اپنی تعلیم و تربیت کو تاریخی حوالے
سے ڈھالنے کو بے سود سمجھ رہاہے۔ پہلے میں یاد دلانا چاہتا ہوں وزارت کا
تاج سر پر سجائے، مسند وزارت پر براجمان وزیرتعلیم کو کہ آئین پاکستان نے
آرٹیکل 25(A) میں تعلیم کو ہر شہری کا بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیا ہے۔
دستور میں واضح لکھا گیا ہے کہ ’’ ریاست پانچ سے سولہ سال تک کی عمر کے
تمام بچوں کیلئے مفت تعلیم دینے کا بندوبست کرے جیسا کہ تعلیم کے حق کے
سلسلے میں قانون کی شقوں میں درج ہے "لیکن اس کے باوجود ستم ظریفی دیکھئے
کہ کیسے غیر محسوس طریقے سے تعلیم کو کاروبار کی شکل دے دی گئی ہے۔ دنیا
پاکستان میں بڑھتی دہشت گردی کی روک تھام کیلئے تعلیم کی ترقی کو خصوصی
اہمیت دے رہی ہے ۔ پاکستان میں بھی USAIDاساتذہ کی بھرتی،تربیت ، وظائف ،اسکولوں
کی تعلیم اورHEC سمیت تعلیم کے کئی شعبے میں فنڈنگ کررہی ہے اس کے باوجود
پاکستان میں تعلیم کے شعبے میں بہتری ہوتی نظر نہیں آرہی ہے ۔دوئم میں
بتاناچاہوں گا اُن والدین کو جو شعوری یا غیر شعوری طور پہ تعلیم کو نوکری
کے حصول کا ذریعہ جیسی محدود سوچ اپنے بچوں میں پروان چڑھاتے ہیں اسطرح
ڈگریوں کی ریس میں ہم اعلیٰ تعلیم یافتہ توکہلا رہے ہیں، لیکن بطور انسان
چھوٹے ہوتے جارہے ہیں۔ ہمارے لئے تشویش اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ
پاکستان میں انسان سازی کا کوئی تربیتی ادارہ قائم نہیں ہے جہاں یہ تربیت
دی جا سکے کہ ایک بہترین قوم بننے کے لئے سب سے اہم عنصر، اس قوم کا تاریخی
پس منظر ہوتا ہے جس کے ذریعے اُس قوم کی تربیت موثر انداز میں ہوسکتی ہے
قوموں میں ارتقاء کا عمل تاریخ سے سبق سیکھنے کے بعد ہوتا ہے اگر کسی قوم
کی تعمیر تاریخی و ثقافتی حوالے سے نہ ہو تو وہ قوم ،قوم نہیں بلکہ ٹولیوں
میں بٹا ایک اجتماع کہلاتا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم نہ تو تاریخ اور
ثقافت کے لحاظ سے اپنی قوم کی تربیت کر رہے بلکہ ہم اپنے اسلاف کی ناقابل
فراموش تاریخ کو فراموش بھی کر چکے ہیں ۔ بہترین قوم بنانے کا واحد راستہ
یکساں تعلیمی نصاب ونظام ہے۔ طبقاتی تعلیم کا خاتمہ اور تعلیم کا عام کرنا
ناگزیر ہوگیا ہے تعلیمی نظام اور تعلیمی اداروں میں بدعنوانی کو گناہ عظیم
سمجھنا ہوگا کیونکہ تعلیم ہی وہ ڈھال ہے جو منفی سو چ کی تیز دھار تلوار وں
کے وار کو روک سکتی ہے اور تربیت ہی وہ دروازہ ہے جہاں سے اخلاقی پہلووں کی
راہیں کھلتی ہیں تعلیم کے ساتھ تربیت کا وہی رشتہ ہے جو نماز کے ساتھ وضو
کا ہونا ضروری ہوتاہے۔ |