مذہبی تبلیغ کی حساسیت - Sensitivity of religious preaching
(Ahsan Sailani, FAISAL ABAD)
مذہبی تبلیغ کی حساسیت
Sensitivity of religious preaching |
|
|
تبلیغ |
|
نبی کریمﷺ نے فرمایا :''دو آدمی تبلیغ کرتے
ہیں ۔ایک حاکم کا بھیجا ہوا ۔دوسرا ریاکار ۔(بخاری شریف)''۔
کائنات کا سب سے عظیم منصب عظیم پیغام کو نسل ِ انسانی تک پہنچانا ہے ۔اللہ
تعالیٰ نے اس عظیم کا م کیلئے عظیم انسانوں کا انتخاب کیا ۔خوبصورت ،حسین و
جمیل ،عقلمند ۔طاقتور۔سردار ۔پیغمبروں میں ہر طرح کی خوبیاں تھیں۔اور ہم نے
یہ عظیم کام جاہل ملا کے ہاتھوں میں دے دیا جیسے امریکیوں نے ایٹم بم جیسی
قوت روزویلٹ کے ہاتھوں میں دے دی تو اُس کا نتیجہ یقینی تباہی نکلا ۔آئین
اسٹائین نے تیس سال ریاضی اور فزکس کا علم حاصل ــــــــــــــــمولوی کی
تقریر کے تین ہزار الفاظ کے پیچھے تین لفظوں کا مطالعہ بھی نہیں ہوتا۔ حدیث
کے الفاظ ہیں ''حاکم کا بھیجا ہوا مبلغ''۔E=m c^2 تین لفظ دئیے ۔
selective and elective gazetted prime scholar of the state
جن لوگوں کو اپنا نام تک نہیں لکھنا آتاوہ مذہبی رہنما ہیں ۔قرآن کو صحیح
تلفظ کیساتھ پڑھنا نہیں آتا وہ پیر ان ِ طریقت ہیں ۔اسی کی آغوش سے عجمی
تصوف اور جہاد کے شعبہ میں داعش اور ٹی ٹی پی پیداہوتے ہیں ۔جو کافروں کو
کم ،مسلمانوں کو زیادہ قتل کرتے ہیں ۔میں نےطالبان کے مفتی کا مناظرہ سنا
۔اُس نے کہاتم سب کافر اور مرتد ہو ۔مسلمان نےکہا اچھا میں تو ہوا کافر
۔امام ِ کعبہ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ طالبان کے مفتی نے کہا وہ
بھی مرتد ہے اور کافروں کا ایجنٹ ہے ۔اب خدا سچا ہے جو کہتاہے کہ میں ناپاک
چیز کو حرم میں داخل نہیں ہونے دیتایا طالبان کا مفتی سچا ہے جس کے نزدیک
ایک کافرپورے کرہ ء ارض کے مسلمانوں کی امامت کروا رہاہے ۔اس حساب سے پوری
دنیا کے مسلمان کافر اور مرتد ٹھہرے اورمسلمان صرف طالبان ہوئے ۔کیا بکواس
ہے ؟ یہ نتیجہ ہے جاہل ملاؤں کے ہاتھوں میں عظیم منصب دینے کا ۔ان پڑھ اور
جاہل کے سامنے دین اور حکمت ،سیاست اور سلطنت ایسے ہے جیسے گائے کے سامنے
چنبیلی کے پھول ۔یہ ہے نتیجہ ریاست کے مذہب سے جدا ہونے کا ۔ریاستی سرپرستی
اور دلچسپی ہی نہ رہی تو یہی حال ہونا ہے جو ہورہاہے ۔
مذہب آفاق گیر نظریات اور اصولوں کا مرقع ہے ۔جس کو آفاق گیر کے معنی بھی
نہیں آتے وہ خاک دین کی تبلیغ کرے گا ۔دین کی حکمت کے نفاذ اور اُس کی عصری
تشریحات
. Contemporary Interpretation
کیلئے کئی معاون عصری علوم ضروری ہیں۔سعودی حکومت نے اس طریقہ کار کو اپنا
یا ۔سٹیٹ نے مذہب کی سر پرستی کی ۔علما ئے کرام سرکاری سطح پر ایک خطبہ
تیار کرتے ہیں ۔نبی کریم ﷺ کی حدیث کی برکت سے وہاں مذہبی ہم آہنگی ہے
۔کوئی انتشار نہیں ۔میں صرف اتنا کہوں گا کہ ہمارے ہاں ان پڑھ مولویوں کی
بات مت سنی جائے بیشک وہ قرآن کی تفسیر بیان کررہے ہوں ۔ان کی تعمیر میں
تخریب چھپی ہوئی ہے بیشک وہ مخلص ہیں لیکن مخلص بیوقوف سے اجتناب ہی چاہیے
۔قرآن کی آڑ لے کر اپنی تن آسانی پر پردہ ڈالتے ہیں ۔بات حق کرتے ہیں
،اطلاق ناحق کرتے ہیں ۔میں اس ایک حدیث پر پانچ سو صفحے کی تفسیر لکھ
سکتاہوں ۔بول سکتاہوں ۔لیکن میں خاموش ہوں اور خاموش رہوں گا ۔کیونکہ میں
''حاکم کا بھیجا ہوا ''نہیں ہوں ۔ایک غلط
Interpretation
ریاستوں کو کھنڈروں میں تبدیل کردیتی ہے ۔لاکھوں لوگوں کو لقمہ ءاجل بنا
دیتی ہے ۔ |
|