نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
اما بعد!فاعوذباﷲ من الشیطٰن الرجیم
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
ان عدۃ الشھور عند اﷲ اثنا عشر شھرا فی کتاب اﷲ یوم خلق السمٰوات والارض
منھا اربعۃ حرم۔
وقال النبی ﷺ علی موت ابراہیم ان العینَ تدمع والقلبَ یحزن ولا نقول الا
مایرضیٰ ربنا، وانا بفراقک یاابراہیم لمحزونون۔ صدق اﷲ العظیم وصدق رسولہ
النبی الکریم ونحن علیٰ ذلک لمن الشاھدین والشاکرین والحمدﷲ رب العالمین۔
نقش قدم نبی کے ہیں جنت کے راستے
اﷲ سے ملاتے ہیں سنت کے راستے
معزز اساتذہ کرام، مہمانان عظام اورعزیز طلبہ ساتھیو! آج جس موضوع پہ میں
لب کشائی کرنے کی جسارت کرنے جارہاہوں اس کا عنوان ’’محرم الحرام کا پیغام
‘‘ ہے۔
سامعین ذی وقار! محرم الحرام کا مہینہ جب بھی آتا ہے، دو واقعات کو خاص طور
پر تازہ کرجاتا ہے۔ یکم محرم الحرام شہادت عمر فاروقؓ کی یاد دلاتا ہے تو
دس محرم الحرام حضرت حسینؓ کا واقعۂ کربلا کا نقشہ سامنے کھینچ دیتا ہے۔
سامعین کرام! یہ ۶۴۴ء کی ایک صبح تھی، وقت کے امیر المؤمنین ،خلیفۂ دوم
حضرت عمرؓ نمازکے لیے آگے ہوتے ہیں، ابھی وہ نماز کی حالت ہی میں ہوتے ہیں
کہ بدبخت ابو لؤلؤ مجوسی پیچھے سے خنجر کا وار کرکے انہیں لہولہان کردیتے
ہیں۔ حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ بقیہ ماندہ نماز مکمل کراتے ہیں۔ حضرت عمرؓ
کی حالت انتہائی نازک اسٹیج پہ ہوتی ہے۔ لیکن جب بھی ہوش میں آتے نماز کا
وقت دریافت کرتے۔ نماز کے لیے انتہائی متفکر ہوتے۔ حضرت عبد الرحمن بن
عوفؓاورحضرت عمرؓ کا طرز عمل ہمیں کیا پیغام دے رہا ہے؟
سامعین ذی وقار! ذرا آگے بڑھیے، دس محرم الحرام کا وقت یاد کیجیے ۔ حضرت
حسینؓ کو دشمنوں نے گھیرا ہوا ہے، ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ لیکن
جب نماز کا وقت آتا ہے تو حضرت حسینؓ اول فرصت میں نماز کا عمل یقینی بناتے
ہیں۔ واقعۂ کربلا کا یہ پہلو ہمیں کیا پیغام دینا چاہتا ہے؟
گرامی قدر سامعین ! ذرا غور کیجیے، دونوں واقعات کے بعد کیا ہوا؟ صحابہ
رضوان علیہم اجمعین نے صبر کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ جن اقوال وافعال
سے پیارے نبی ﷺنے منع فرمایا تھا، اس سے دل وجان سے احتراز برتا۔ پیارے نبی
ﷺ کی پیاری پیاری سنتیں ان کے سامنے تھیں۔
نبی کریم ﷺ کے صاحب زادے حضرت ابراہیم علیہ الرضوان داغ مفارقت دے جاتے
ہیں۔ انھیں دفناتے سمے آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑتے ہیں۔ صحابہ کے
تعجب پر فرماتے ہیں: ان العینَ تدمع، والقلبَ یحزُن، ولا نقول اِلا مایرضیٰ
ربُنا ، واِنا بفِراقک یا ابراھیم لمحزونون۔ آنکھ آنسو بہارہی ہے، دل غم
زدہ ہے، لیکن ہم ایسی بات منہ سے نہیں نکالیں گے جس سے ہمارے رب ناراض ہو۔
یقینا ہم تیری فراق میں انتہائی افسردہ ہیں اے ابراہیم۔
معزز سامعین! صحابہؓ نبی اکرم ﷺ کی ایک ایک ادا پہ مرمٹنے والے تھے، دل
وجان سے اس پہ عمل کرنے والے تھے۔ یہی پیغام یکم محرم الحرام کوحضرت عمر
فاروقؓ اپنی جان پہ کھیل کر ہمیں دیتے ہیں اور پھر دس محرم الحرام کو حضرت
حسینؓ اس پیغام کی تجدید فرماتے ہیں۔
آئیے دیکھتے ہیں ان ایام کے بارے میں حضورﷺ کیا ارشاد فرماتے ہیں۔ آپ ﷺ کا
فرمان ہے مجھے اﷲ جل شانہ کی رحمت سے امید ہے کہ جو شخص عاشوراء کے دن روزہ
رکھے گا تو اس کے پچھلے ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔ محرم الحرام
کے پیغام کو سمجھتے ہوئے اپنے پیارے نبی ﷺ پیارے فرامین پر عمل کریں۔ وہی
پیغام جو حضرت عمر نے یکم محرم الحرام کو ؓ اپنی جان پہ کھیل کر ہمیں دیا ،
وہی پیغام جو حضرت حسین ؓ نے تاریخ میں امر ہوکے ہمیں بتایا۔ وہ بتاگئے کہ
نقش قدم نبی کے ہیں جنت کے راستے
اﷲ سے ملاتے ہیں سنت کے راستے
واٰخر دعوانا ان الحمد ﷲ رب العالمین۔ |