مولوی الیاس گھمن کا قضیہ ، کیا حقیقت کیا فسانہ
(Syed Abdul Wahab Sherazi, Islamabad)
یہ معاملہ انتہائی سنگین اور گھمبیر
صورتحال کی طرف جارہا ہے۔ اگرایک طرف معروف ومشہور شخصیت ہے تو دوسری طرف
پورا خاندان ہی پوری دنیا کا مشہور ومعروف حسنی سید خاندان ہے۔ مفتی زین
العابدین رحمہ اﷲ جن کا نام بانی تبلیغی جماعت مولانا الیاس رحمہ اﷲ کے بعد
پاکستان سے بیرون پوری دنیا میں تبلیغ کی محنت کو زندہ کرنے والے بانی کے
طور پر مشہور ہے۔ جنہوں نے اپنی زندگی میں باون(52) حج کیے۔ یہ بات لکھنا
اور منہ سے کہنا آسان ہے ورنہ جو ایک بار حج کرلے ساری زندگی حاجی صاب
کہلاتا ہے۔ مفتی صاحب کے یہ سارے حج کے سفر دراصل تبلیغی محنت کو زندہ کرنے
اور پوری دنیا سے آئے ہوئے حاجیوں کے مکہ میں تبلیغی جوڑ کے سلسلے میں ہوتے
تھے چنانچہ اس طرح انہوں نے پوری دنیا میں پچاس ساٹھ سال محنت کرکے تبلیغ
کی محنت کو زندہ کیا۔ پھر جس خاتون کا معاملہ ہے وہ ان کی واقعتا چہیتی اور
لائق بیٹی ہیں، بلکہ فیصل آباد میں تبلیغ کی محنت سے جڑی خواتین کی امیر
بھی ہیں۔ ہندوستان کے تبلیغی بزرگان سمیت حاجی عبدالوہاب صاحب جب بھی فیصل
آباد آتے اپنی اس بچی کے گھر بھی ضروری آتے تھے۔
یہ معاملہ تقریبا تین سال پرانا ہے ،اس معاملے کا مجھے ایک ہفتہ قبل ایک
پوسٹ سے پتا چلا، جس میں مولانا الیاس گھمن صاحب کو برا بھلا کہا گیا
تھا۔چنانچہ غیرت ایمانی کا تقاضا سمجھتے ہوئے میں نے پوسٹ لکھنے والے سے
میسج میں بحث شروع کردی۔ چونکہ اس شخص کا تعلق میری معلومات کے مطابق جماعت
اسلامی سے تھا تو جماعت اسلامی کیذمہ داران کو بھی شکایت کی کہ آپ کی جماعت
کا بندہ علماء کے خلاف اس طرح پروپیگنڈہ کررہا ہے اسے منع کریں۔ چنانچہ ان
صاحب نے مجھے میسج میں کچھ خطوط، استفتاء اور اس کے جواب میں مفتی زرولی
خان صاحب کا فتوی۔ ہندوستان کے مشہور عالم مولانا ابوبکر غازی پوری کا خط
اور مولانا سلیم اﷲ خان صاحب کا جواب۔ اور وفاق کے میگزین کااشتہار بھیج
دیا۔ ان صاحب کو جواب دینے کے لئے اب میرے پاس کچھ نہیں تھا۔چنانچہ اب اس
معاملے کی تحقیق کے لئے فریقین سے رابطہ کرنے کا ارادہ کیا۔
سب سے پہلے میں نے الیاس گھمن صاحب کے سیکرٹری سے رابطہ کیا تو انہوں نے
جواب دیتے ہوئے کہا یہ بات مجھ سے پوچھنے کی نہیں۔ میں نے کہا اس کا مطلب
ہے میں اسے سچ سمجھوں تو تب انہوں نے کہا کہ بھیا یہ پروپیگنڈا ہے۔
اس کے بعد میں نے دوسرے فریق سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا، چونکہ مفتی صاحب
کی بیٹی سے میری وائف کا پرانا تعلق تھا(ہمارا اور ان کا خاندان ایک ہی
یعنی سید ہے)البتہ کافی عرصہ سے کوئی رابطہ نہیں ہوا تھا، آخری بار رابطہ
الیاس گھمن صاحب کی شادی کی مبارک باد دینے کے لئے ہوا تھا۔اس لئے تین چار
گھنٹے کی سرتوڑ کوشش کے بعدوائف کا بذریعہ فون رابطہ ہوگیا۔ چنانچہ سب سے
پہلے فیس بک پر گردش کرتے خط کے بارے پوچھا تو مفتی صاحب رحمہ اﷲ کی بیٹی
نے اس خط کی تصدیق کی کہ وہ میرا ہی خط ہے اور میں نے ہی یہ خط مفتی زرولی
خان صاحب کو فتویٰ پوچھنے کے لئے بھیجا تھا۔اور اسی طرح کے خطوط کراچی،
لاہور ملتان، فیصل آباد، راولپنڈی، اسلام آباد، اکوڑ خٹک بھی بھیجے گئے
تھے۔ اب مجھے نہیں معلوم یہ زر ولی صاحب والا فتویٰ اتنے عرصے بعد کس نے
فیس بک پر دے دیا، میں اگر چاہتی تو دو سال پہلے ہی میڈیا کو بلا کر رسوا
کردیتی لیکن میں نے تو اپنا معاملہ اﷲ کے سپرد کیا ہوا ہے،اﷲ خود انتقام لے
گا۔ خواتین کی اس تفصیلی گفتگو کو میں نے خود سنا۔
بہرحال اس کے دو دن بعد یعنی کل مفتی ریحان کا ایک مضمون سوشل میڈیا پر
گردش کرنے لگا۔ چونکہ کئی باتیں مجھے خود اس خاتون کے ذریعے معلوم ہوچکی
تھیں اس لئے جب اس مضمون کو پڑھا تو آدھے سے زیادہ باتیں وہی تھیں جو خاتون
نے بتائی تھیں البتہ کچھ باتیں نئی تھیں، مثلا دو لڑکوں والا معاملہ، اسی
طرح گھریلو ملازمہ والا معاملہ۔ چنانچہ آج پھر دوبارہ مفتی ریحان کے بارے
تحقیق شروع کی تو خاتون کا کہنا تھا میں اسے نہیں جانتی کون ہے، اور نہ ہی
ایسا کوئی انٹر ویو ہوا ہے۔اور نہ ہی لڑکوں والے معاملے کی تصدیق یا تردید
کی۔
اس معاملے میں میراخیال اور وجدان یہ کہتا ہے کہ یہ مفتی ریحان فرضی نام ہے
اصل میں یہ مضمون جیونیوز کے سابق رپورٹر سبوح سید جو آج کل غالبا بول ٹی
وی میں ہیں ان کا لکھا ہوا ہے۔ یاد رہے موصوف غامدی مکتبہ فکر سے تعلق
رکھتا ہے اورایبٹ آباد کے ایک جید عالم دین کا بیٹا ہونے کا شرف بھی حاصل
ہے۔ اس مضمون میں موصوف نے چند باتیں اصل خط والی لکھ کر ساتھ مرچ مصالحہ
اپنی طرف سے لگا دیا ہے۔ آج سے تقریبا چار سال قبل کی بات ہے ایک تقریب جس
میں، میں بھی شریک تھا سبوح سید نے اس وقت تقریر کرتے ہوئے الیاس گھمن کو
امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کا خاص ایجنٹ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ریمنڈڈیوس
کی ڈائری سے الیاس گھمن کا نمبر ایجنسیوں کو ملا ہے۔ چنانچہ سبوح سید کو
الیاس گھمن یا دیگر علمائے کرام سے خصوصی نفرت ہے چنانچہ اس قسم کے چٹکلے
وہ اپنے مضامین میں اکثر چھوڑٹے رہتے ہیں۔بہرحال مضمون میں خط سے زیادہ
اپنی طرف سے اضافہ بھی کیا گیا ہے۔
مضمون میں مردان کی جس خاتون کا ذکر کیا گیا ہے مفتی صاحب کی بیٹی نے اس کی
بھی تصدیق کی اور بتایا کہ پٹھانوں نے قتل کی دھمکی دی تھی اور کہا تھا ہم
بولی نہیں گولی کی زبان سمجھتے ہیں۔، البتہ معافی والی بات صرف مضمون میں
ہی لکھی ہوئی ہے۔
چونکہ یہ معاملہ دو سال پرانا ہے اس لئے اس دوران علماء کے اندر ہی اندر
کئی حالات وواقعات پیش آئے، بے شمار ایسے علماء جو مولانا الیاس گھمن کی
جماعت کے تھے انہیں چھوڑ گئے۔وہ جید اور ممتاز علماء کرام جو الیاس گھمن
صاحب کی جماعت کے سرکردہ رکن تھے اور اب دو تین سال کے دوران ایک ایک کرکے
گھمن صاحب کو خدا حافظ کہہ چکے ہیں یہ ہیں:
مولانا منیر احمد منور۔مولانا انور اوکاڑوی۔علامہ عبدالغفار ذھبی۔مولانا
محمود عالم صفدر ۔مولانا عبدالشکور حقانی۔مولانا عبداﷲ عابد ۔مولانا شفیق
الرحمان۔مولانا محمد رضوان عزیز۔مولانا مقصود احمد ۔مولانا محمد عرفان
بھیروی۔مولانا محمد بلال جھنگوی۔مولانا عبداﷲ معتصم۔مولانا عبدالغنی
طارق۔مولانا امداد اﷲ انور۔قاری محمد رفیق صاحب جدہ۔قاری محمد اسامہ رفیق
جدہ۔ڈاکٹر محمد الیاس فیصل مدینہ منورہ ۔مولانا محمد ابو بکر
اوکاڑوی۔مولانا شاھد طوفانی۔مولانا انصر باجوہ۔مولانا محمد بلال منڈی
بہاؤالدین۔شیخ سجاد الحسن الحجانی مردان۔
یہ تمام حضرات ان کے جماعت کے تھے اور معاون بھی تھے ان سب حضرات نے گھمن
صاحب سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور ان کے ہر قسم کے قول و فعل سے اعلان
برا?ت کر چکے ہیں۔اس لسٹ میں چند نہایت ہی نامور شخصیات ہیں جنہیں ہر آدمی
جانتا بھی نہیں۔اس کے علاوہ مولانا سلیم اﷲ خان اور وفاق المدارس کا اعلان
برات تو وفاق کے میگزین میں آپ نے دیکھ لیا ہوگا۔
اب جہاں تک اس معاملے کی حقیقت کا ذکر ہے تو خاتون کی طرف سے تو مکمل
خاموشی ہے جیسا کہ انہوں نے فون پر کہا بھی کہ میں نے اپنا معاملہ اﷲ کے
سپرد کیا ہوا ہے اﷲ خود انتقام لے گا میں تو دو سال سے خاموش ہوں، بس اپنے
رب سے اس معاملے میں رابطہ ہے۔ جبکہ دوسری طرف احناف میڈیا سروس کے لوگ
پوری طرح گالم گلوچ کی تیروں اور برچھوں سمیت مختلف پوسٹوں پر کمنٹ کررہے
ہیں۔ کبھی کہتے ہیں یہ عورت کئی مردوں سے دوستی رکھتی تھی اور کبھی کہتے
ہیں اس نے چالیس لاکھ روپے مانگے تھے جس سے اختلاف پیدا ہوا۔ اور کبھی کہتے
ہیں اس واقعہ کی کوئی حقیقت نہیں ایسا کچھ نہیں ہوا یہ مماتیوں کا
پروپیگنڈا ہے۔
ہمارے لئے اس میں یہ ہے کہ سنی سنائی باتوں پر کان نہ دھریں۔ یہ وہ حقیقت
ہے جو ایک متاثرہ فریق سے براہ راست خود معلوم کی گئی ہے۔ اب آگے کا معاملہ
وفاق المدارس اور اکابرین کے حل کرنے کا ہے۔ بعض لوگ کہہ رہے ہیں کہ علماء
کی بدنامی ہورہی ہے اسے دبا دینا چاہیے۔ بھائی دبانے سے بدنامی ختم نہیں
ہوتی۔ آج سے دیڑھ سو سال پہلے سپیکر کی حرمت پر جو فتویٰ دیا گیا تھا وہ آج
تک سیکولر اور لبرل لوگ علماء کو طعنے دے رہے ہیں کہ تم تو وہ ہو جنہوں نے
سپیکر کو حرام قرار دیا تھا۔ حالانکہ ایک صدی سے بھی پرانا واقعہ ہے، اسی
طرح یہ واقعہ بھی اگر اسی طرح چھوڑ دیا گیا تو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے الزام
دینے کے لئے باقی رہے گا۔ اکابرین دونوں فریقوں کا موقف سننے کے بعد مجرم
کا تعین کریں۔ وہ کوڑے تو نہیں لگا سکتے لیکن تعین کرکے بتا تو سکتے ہیں کہ
فلاں مجرم ہے اس کا علماء سے کوئی تعلق نہیں۔ جرائم معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں
ہوتے رہتے ہیں لیکن اگر جرم کی سزا مل جائے تو دھبے دھل جاتے ہیں ورنہ
ہمیشہ یاد باقی رہتی ہے۔
اﷲ تعالیٰ ہم سب کی شیطان کے شر سے حفاظت فرمائے۔ |
|