قدسیہ مدثر، روالپنڈی
جس معاشرے میں غربت ایک گالی بن گئی ہو،غریب فاقوں کے سبب خود کشی کر
لے۔غربت کا مارا بچہ والد کے انتقال کے بعد خاندان کا واحد کفیل بن کر
دیہاڑی کے چند روپے کمائے تا کہ بیمار ماں کا علاج کروا سکے مگر دواؤں کی
قیمتوں میں اضافے کے سبب وہ علاج نہ کروا سکے اور بے بسی کی تصویر بنے ماں
کو قبر میں اتار دے تو اس کا قصوروار کون ہے؟
تھر میں خوراک اور علاج کی ناقص سہولیات کی وجہ سے موت کی آغوش میں جانے
والے بچوں کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہو۔ سرکاری ہسپتال چوہوں کی
آماجگاہ بن چکے ہیں اور آئے روز بچوں کے ہاتھ ناک کاٹ رہے ہوں۔سرکاری
ہسپتال میں معزور بچی کی بھی عزت محفوظ نہ ہو اور حکومت ان سب پر عملا
خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہو تو سمجھاؤ کس کا گریبان پکڑیں قصور وار کون ہے؟
یہی تک نہیں بلکہ فیصل آباد الائیڈ ہسپتال میں خراب مشینری کے سبب ماہ میں
ہزار وں بچے جاں بحق ہو جائیں۔ بہاولنگر ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹر اسپتال میں بچوں
کی ہلاکت سامنے آئے۔ لاہور میں صحت۔تعلیم۔نکاسی آب کی اسکیمیں فنڈز کی
منتظر ہوں اور لاہور کے کسی سرکاری ہسپتال میں کالے یرکان اور بون سکین
ٹیسٹ کی سہولت میسر نہ ہو۔اور عوام بے بسی اور لاچاری سے حکمرانوں کی طرف
سوالیہ نشان بنے دیکھ رہے ہوں تو بتائیں قصور وار کون ہے؟
ملک میں بڑھتی مہنگائی اور بیروزگاری کے سبب ایک دیہاڑی دار مزدور مجبور
باپ جب خالی ہاتھ گھر لوٹے اور بچوں کی منتظر نگاہیں باپ کے ہاتھوں میں پھل
اور گوشت تو دور کی بات سوکھی روٹی کو ترس رہے ہوں تو سمجھائیں قصور کس کا
ہے ؟
ملک کے ایسے سنگین معاشی اعداد و شمار کے بعد جب یہ خبر پڑھنے کو ملے کہ
ملک کے وزیراعظم نے خاندان سمیت غریب عوام کا پیسہ بیرونی ممالک کے اکاؤنٹس
میں جمع کروا رکھا ہے، بینام ناموں سے بزنسز کمپنیاں قائم ہو چکی ہیں اور
جس کے بچے چند سالوں میں اربوں کے مالک بن گئے ہوں جبکہ دوسری طرف غریب
عوام 3 سالوں میں مزید 500 ارب قرضوں میں پھنس چکے ہوں تو ایسی نااہل اور
عیاش حکومت قوم کا مقدر بنی رہے تو قصور وار کون ہے؟
قوم کو تعلیم اور علاج سے محروم رکھ کر اسے میٹرو کی لال بتی کے پیچھے
لگاتے ہوتے حکمران خود معدے جیسی معمولی بیماری کے علاج کے لئے بھی بیرون
ملک فرار ہو جاتے ہیں جو اس بات کی علامت ہے کہ یہ جمہوریت نہیں بادشاہت ہے
مگر سوال یہ ہے کہ بادشاہت کس کے کندھوں پر قائم ہے؟
کیا یہ المیہ نہی ہمارے حکمرانوں کے اثاثہ جات پانامہ لیکس میں عیاں ہو رہے
ہیں جن کی جائیدادیں دنیا کے بہت سے ممالک میں اپنے ملک کی لوٹی ہوئی دولت
کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔جن کے خاندان اور وزراء کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ جن
کے لئے اپنے ملک کی قدر چند میٹرو بسیں۔اور سڑکیں بنانے کے سوا کچھ نہی۔۔
تو ذرا غور تو کرنا چاہئے نا کہ یہ سب کس کی بدولت ممکن ہو رہا ہے کون قصور
وار ہے؟
اس کا قصور وار کوئی اور نہیں یہی مجبور بیبس، عزتیں لٹواتی ، تعلیم سے
محروم ،علاج سے محروم عوام ہے جو بار بار ان سانپوں کو دودھ پلاتی ہے جو
بعد میں اسی عوام کا خون چوستے ہیں۔ اس لئے اب سب کچھ بے نقاب ہو چکا ہے
چور اور ڈاکوں کے چہروں سے ماسک ہٹ چکا ہے اب بھی اگر میرے وطن کی عوام
مسیحا کی تلاش میں پھر انہی حکمرانوں کو مسیحا سمجھے تو میں کس کا گر یبان
پکڑوں اور کس سے اپنے ملک کی شکستہ خالی کا رونا روؤں۔؟؟ |