شاید کے اتر جائے تیرے دل میں کھری بات

’’اورجب ہم نے حکم دیا فرشتوں کو کہ سجدہ کرو آدم کو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے ۔اس نے انکار کیا او رتکبر کیا اور ہو گیا کفار کے (ٹولہ) میں ۔ اور ہم نے فرمایا اے آدم! رہو تم اور تمہاری بیوی اس جنت میں اور دونوں کھاؤ اس سے جتنا چاہو ،جہاں سے چاہو اور مت نزدیک جانا اس درخت کے ۔ورنہ ہو جاؤ گے اپنا حق تلف کرنے والوں سے ۔پھر پھسلا دیا انہیں شیطان نے اس درخت کے باعث اور نکلوا دیا دونوں کو وہاں سے جہاں موجود تھے اور ہم نے فرمایا اُتر جاؤ تم ایک دوسرے کے دشمن رہو گے ۔اور اب تمہارا زمین میں ٹھکانا ہے اور فائدہ اُٹھانا ہے وقت مقررہ تک ۔پھر سیکھ لئے آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے چند کلمات تو اﷲ نے اس کی توبہ قبول کی ہے ۔بے شک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم فرمانے والا ۔ہم نے حکم دیا اتر جاؤ اس جنت سے سب کے سب ۔پھر اگر آئے تمہارے پاس میری طرف سے (پیغام) ہدایت تو جس نے پیروی کی میری ہدایت کی انہیں نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے اور جنہوں نے کفر کیا اور جھٹلایا ہماری آیتوں کو تو وہ دوزخی ہوں گے۔ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔‘‘(البقرہ 39.34)

اﷲ تبارک و تعالیٰ جو اس پوری کائنات کا بلا شرکت غیرِ خالق اور مالک ہے وہ ایمان والوں سے دوستی و محبت کرتا ہے ۔فرمایا ! اللّٰہ ولی الذین اٰمنو۔ ’’اﷲ ایمان والوں کا دوست ہے ۔‘‘

اﷲ تعالیٰ نے اپنے آپ کو ایمان والوں کا دوست قرار دیا ہے اور خیر خواہ دوستوں کی طرح اس نے انہیں ان کے ازلی دشمن سے بھی اچھی طرح متعارف کرایا ہے تاکہ جملہ اہل ایمان اس کے سبز باغوں کے پیچھے اپنا ایمان برباد نہ کر لیں ۔شیطان کی انسان دشمنی سے اہل ایمان کو یوں آگاہ فرماتا ہے :یاٰیھا الذین اٰمنو اادخلوا فی السلم کافۃ ولا تتبعو ا خطوات الشیطٰن انہ لکم عدو مبین ۔’’اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔‘‘زیر بحث آیات میں بھی اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کو ابلیس لعین کے کردار (ابلیسی کردار) سے آگاہ فرما رہا ہے اور اسکی انسان دشمنی کی وجہ بیان فرمارہا ہے ۔نیز اسکے ساتھ ساتھ فرشتوں اور حضرت آدم علیہ السلام کے رویہ کا ذکر بھی فرما رہا ہے ۔جو کہ اﷲ تعالیٰ کا پسندیدہ رویہ ہے ۔

اﷲ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم فرمایا :اسجد و ا لادم ۔کہ آدم کو سجدہ کرو ۔فسجد وا ۔انہوں نے سجدہ کیا ۔یہاں پر قابلِ غور بات یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو ملائکہ یعنی فرشتوں کے سامنے مٹی سے پیدا فرمایا ۔جب کہ فرشتے اﷲ تعالیٰ کی نورانی مخلوق ہیں ۔انہوں نے یہ نہ دیکھا کہ آدم علیہ السلام کو مٹی سے تخلیق فرمایا اور انہیں نور سے ۔چونکہ نور مٹی سے افضل و برتر ہو تا ہے اس لئے ہم آدم علیہ السلام کو سجدہ کیوں کریں اور انہیں بظاہر اپنی بڑائی اور آدم علیہ السلام کی کمزوری کا گمان بھی نہ گزرا ۔انہوں نے حکم الہٰی پر سر تسلیم خم کرتے ہوئے گردن جھکادی ۔

غور فرمائیں !ذرا دل کے دریچے کھول کر توجہ فرمائیں کہ ایسا کیوں ہوا؟فرشتوں نے آدم علیہ السلام کے بظاہر کمزور ہونے پر توجہ نہ کی بلکہ ان کی توجہ اور ان کا دھیان رب العالمین کی عظمت و جلالت کی طرف رہا ۔انہوں نے حکم الہٰی کو پیشِ نظر رکھا تو سرخرو ہوئے اور اس عظیم آزمائش میں کامیاب و کامران ہوئے ۔

جب کہ شیطان لعین نے حضرت آدم علیہ السلام کے خاکی وجود کو نظر حقارت سے دیکھا ۔اس میں حسد ،عداوت اور غرور و تکبر ظاہر ہو گیا ۔باوجود یہ کہ دلائل کی زبان میں حضرت آدم علیہ السلام کے علم کے سامنے عاجز آگیا تھا اﷲ تعالیٰ نے اس کے غرور و تکبر کا ذکر ان الفاظ میں کیا : ابی واستکبر و کان من الکافرین ۔ ’’معلوم ہوا کہ جانتے بوجھتے حق بات کا انکار کرنا بھی تکبر ہے ۔ ابلیس لعین اسی تکبر و استکبار کی وجہ سے احکم الحاکمین کی عظمت شان سے بے پرواہ ہو گیا اور اس نے سجدہ سے انکار کر دیا ۔جب اﷲ تعالیٰ نے اس کی وجہ دریافت کی تو اس کی گھناؤنی اور مکروہ شکل و صورت یوں سامنے آئی۔ ’’اﷲ نے فرمایا کہ اے ابلیس ! تجھے اس کو سجدہ کرنے سے کس نے روکا جس کو میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ۔آیا تو نے اب تکبر کیا ہے یا تو پہلے سے متکبرین میں سے تھا ۔ابلیس نے کہا میں اس سے بہتر ہوں۔ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے پیدا کیا ۔‘‘

یہ وہ جواب ہے جو ہر دور کے شیطان یعنی نمرود ،فرعون ، ہامان ،ابی بن خلف اور ابو جہل وغیرہ نے دیا ۔ان سب کا یہ کہنا انبیاء کرام سے کہ تمہارے ساتھ فرشتے کیوں نہیں اترتے تاکہ جو تمہاری نبوت کو نہ مانے انہیں سزادیں ۔تم تو کمزور و بے بس ہو ۔تم حکومت و اقتدار کے لئے ایسا کر رہے ہو ۔اگر اﷲ نے کسی کو نبی بنا نا ہی تھا تو شہر کے کسی رئیس کو بناتا ۔کہ انہوں نے انبیاکرام علیہم السلام کو کمزور و بے بس سمجھتے ہوئے اور خود کو افضل و اعلیٰ سمجھتے ہوئے حق کا انکار کیا ہر دور میں یہ بڑائی و کبریائی ان شیاطین کے لئے حق بات کو قبول کرنے میں رکاوٹ رہی ہے اور آج بھی ایسا ہی ہو رہا ہے ۔

خالق ارض و سماء نے حضرت آدم علیہ السلام کو فرشتوں اور ابلیس کے درمیان کھڑا کیا اور سجدہ کے امتحان کے ذریعہ آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کو بتادیاکہ زمین پر دو قسم کی ممکنہ راہیں تمہارے لئے ہوں گی ۔ایک فرشتوں کی طرح حکم الہٰی کے سامنے جھک جانا خواہ اس کا مقصد بظاہر اپنے ایک بندے کے آگے جھکنا ہی کیوں نہ ہو ۔یہ وہ رویہ ہے جس میں بندہ صاحب معاملہ کی کمزوری کو نہیں دیکھتا بلکہ اس کے سر پر کھڑے حکم ربانی کو دیکھتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ بیشک وہ ایک چودھری کا بیٹا ہے یا اس کے فلاں ایم ۔این ۔اے یا فلاں ضلعی ناظم سے قریبی تعلقات ہیں جب کل اس کا آفیسر ایک غریب خاندان کا کمزور آدمی ہے لیکن میرے رب تعالیٰ کا حکم ہے کہ اپنے حکام کی اطاعت کرو اور اپنے فرائض دیانتداری سے ادا کرو ۔ وہ شخص اپنی عظمت و بڑائی بھول جاتا ہے اور حکم ربانی کی عظمت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے جملہ فرائض دیانتداری اور محنت و لگن سے سر انجام دیتا ہے ۔اگر وہ آفیسر ہے تو ما تحت کو کمزور سمجھتے ہوئے اس پر ظلم ستم نہیں کرتا اسے بے جا تنگ نہیں کرتا۔ اگر وہ معلم ہے تو اپنے پرنسپل ،ہیڈ ماسٹر یا طلباء کی کمزور ی محسوس کرتے ہوئے بھی اپنے فرائض سے غفلت نہیں برتتا ۔اگر وہ ایک شوہر ہے تو اپنی بیوی کو پاؤں کی جوتی سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ برا سلوک نہیں کرتا ۔اگر وہ بیٹا ہے تو والدین کو بڑھاپے میں تنگ نہیں کرتا ۔انہیں اولڈ ہاؤس میں سسکنے کے لئے نہیں چھوڑتا ۔الغرض ایسا شخص فریق ثانی کو نہیں دیکھتا بلکہ اس کے سر پر موجود احکم الحاکمین کی قدرت کو دیکھتا ہے اور انکے حقوق عاجزی و انکساری سے ادا کرتا ہے ۔

دوسرا رویہ ابلیس لعین کی طرح اپنے آپ کو بڑا سمجھنا ، دوسروں کو حقیر سمجھنا اور ضعیف و کمزور کے سامنے جھکنے سے انکار کردینا ہے ۔یہ وہ رویہ ہے جس میں انسان اﷲ تعالیٰ کی عظمت و بزرگی کو بھول کر اور اپنے محاسبے سے بے پرواہ ہو کر لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھنے لگتا ہے ۔اگر وہ آفیسر ہے تو اپنے ما تحتوں اور ملازموں کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کرتا ہے ۔ان پر ظلم و ستم کرتا ہے ۔اگر وہ معلم ہے تو گھنٹوں سکول سے غائب رہتا ہے وہ سکول یا کالج کی نسبت سیاسی و ڈیروں کے ڈیروں کی حاضری ضروری سمجھتا ہے ۔اگر وہ شوہر ہے تو بیوی کو حقارت سے پاؤں کی جوتی سمجھتا ہے ۔اور اس پر ظلم و ستم کے بہانے ڈھونڈ تا رہتا ہے ۔ایسے شخص کے لئے بیوی ایک خادمہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی ۔اسی طرح وہ اپنے والدین کیساتھ بھی کچھ سلوک نہیں کرتا اور بعض لوگ تو سرکش شیطان کا کردار کرتے ہوئے والدین کو زدو کوب بھی کرتے ہیں ۔(معاذ اﷲ)اگر وہ کوئی سیاستدان ہے تو غرباء کا خون چوس کر اور گورنمنٹ کی طرف سے ملنے والی گرانٹ ہضم کرکے اپنی تجوری کو بھرتا ہے ۔

الغرض ایسا شخص احکم الحاکمین کو بھول کر فریق ثانی کی طرف نظر رکھتا ہے ۔اسے فریق ثانی کمزور نظر آتا ہے لیکن وہ یہ بھول جاتا ہے کہ احکم الحاکمین اس کمزور کے ذریعے اسے آزما رہا ہے ۔اس خالق ارض و سماء کا فرمان ہے :الذی خلق الموت والحیاۃ لیبلو کم ایکم احسن عملا۔’’انسان کی پوری زندگی اسی امتحان کی رزم گاہ ہے یہاں ہر وقت آدمی کو دورویوں میں سے کسی ایک رویہ کا انتخاب کرنا پڑتا ہے ایک ملکوتی رویہ یعنی دنیا کی زندگی میں جو معاملہ بھی پیش آئے اﷲ کے حکم کی تعمیل میں آدمی حق و انصاف کے آگے جھک جائے ۔دوسرا شیطانی رویہ یعنی جب کوئی معاملہ پیش آئے تو آدمی کے اندر حسد اور گھمنڈ کی نفسیات جاگ اُٹھے اور وہ انکے زیرِ اثر آکر صاحب معاملہ کے آگے جھکنے سے انکار کر دے ۔

ابلیس لعین بہت بڑا عبادت گزار تھا ۔اﷲ تعالیٰ کی عبادت تو اس نے بہت کی لیکن بندے کے سامنے عاجزی و انکساری نہ کرنے کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ کی لعنت کا مستحق ٹھہرا ۔اسی طرح آج اگر کوئی عبادت تو بہت کرے لیکن حُسن معاشرت کے حوالے سے صفر ہو تو اسکی عبادتیں اسکے منہ پر ماری جائینگی یا مظلوموں میں تقسیم کر دی جائیں گی۔

جیسا کہ ایک حدیث پاک میں موجود ہے کہ رسول اﷲﷺنے صحابہ کرام علیہم الرضوان سے سوال کیا کہ مفلس کون ہے؟ جواب دیا گیا کہ جس کے پاس روپیہ پیسہ نہ ہو ۔لیکن آپ ﷺ نے فرمایا !مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نیکیوں کا ڈھیر لیکر آئے گا لیکن ساتھ ساتھ اس نے کسی کا دل دکھایا ہو گا ،کسی کو گالیاں دی ہونگی ،کسی کا حق مارا ہو گا ،وہ سب اپنا حق لینے کے لئے اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں التجا کریں گے ۔اس شخص کی نیکیاں ان لوگوں میں تقسیم کر دی جائینگی لیکن حقدار باقی ہوں گے حکم ہو گا کہ ان لوگوں کی برائیاں اس شخص کے نامۂ اعمال میں منتقل کر دو ۔اس طرح یہ شخص جہنم کا مستحق ٹھہرے گا ۔

مختصر یہ کہ بندہ مؤمن کے ہر وقت پیش نظر رہے کہ تمام انسانوں کے اوپر عظیم و بر تر خدا ہے وہ آخرت میں سب سے حساب لینے والا ہے ۔دنیا میں انکے عمل کے مطابق آخرت میں انکے ابدی مستقبل کا فیصلہ کرنے والا ہے اس لئے بندہ کو چاہیے کہ انسان کا معاملہ صرف انسان کا معاملہ نہ سمجھے بلکہ اسکو اﷲ کا معاملہ سمجھے اﷲ سے تعلق کا امتحان بندوں سے تعلق کے معاملہ میں لیا جاتا ہے ۔وہی شخص اﷲ سے ڈرنے والا ہے جو بندوں کے حقوق کے معاملہ میں اﷲ سے ڈرے ۔وہی شخص اﷲ سے محبت کرنے والا ہے جو بندوں سے محبت میں اس کا ثبوت دے ۔

کسی انسانی آبادی میں اﷲ کی دعوت کا اُٹھنا بھی اسی قسم کا ایک سخت امتحان ہے ۔داعیٔ حق بھی خلیفۃ الرسول ہونے کی حیثیت سے گویا ایک ’’آدم ‘‘ ہوتا ہے جس کے سامنے سب لوگوں کو جھک جانا ہوتا ہے اگر وہ اپنے کبر و نخوت اور تعصب کی وجہ سے اس کا اعتراف نہ کریں تو گویا انہوں نے ابلیس لعین کی پیروی کی ۔اﷲ تعالیٰ اس دنیا میں سامنے نہیں آتا بلکہ وہ اپنی نشانیوں کے ذریعے لوگوں کو جانچتا ہے جس نے اﷲ کی نشانی میں اﷲ کو پایا ۔اسی نے اﷲ کو پایا ۔اور جس نے اﷲ کی نشانی میں اﷲ کو نہیں پایا وہ اﷲ سے محروم رہا ۔

داعیٔ حق جب آتا ہے تو وہ ایک معمولی انسان کی صورت میں ہوتا ہے ۔اس کے گرد ظاہر ی بڑائیاں اور رونقیں جمع نہیں ہوتیں اسلئے وقت کے بڑے اس کو حقیر سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں وہ اس پر طعنہ زنی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔کیونکہ اس کی دعوت سے انہیں اپنی عظمتیں خاک میں ملتی نظر آتی ہیں اس لئے وہ اسکی راہ میں طرح طرح کے روڑے اٹکانا شروع کر دیتے ہیں ۔ اپنے کبر و نخوت میں وہ بھول جاتے ہیں کہ یہ داعی حق رب العٰلمین کی طرف سے آیا ہے اور اﷲ تعالیٰ اس حقیر بندے کے ذریعے انہیں آزما رہا ہے ۔وہ اسے حقیر و ضعیف سمجھ کر ٹھکرا دیتے ہیں مگر جب قیامت آئے گی اور اﷲ تعالیٰ کی عدالت قائم ہو گی تو وہ حیرت کے ساتھ دیکھیں گے کہ وہ شخص جس کو انہوں نے بے قیمت سمجھ کر ٹھکرا دیا تھا وہ اﷲ تعالیٰ کی عدالت میں خدائی گواہ بنا دیا گیا ہے وہی وہ شخص ہے جس کے بیان پر لوگوں کے لئے جنت اور جہنم کے فیصلے ہوں گے۔ یہ وہاں مجرم کے مقام پر کھڑے ہوں گے اور وہ خدا کی طرف سے بولنے کے مقام پر ۔ارشاد ربانی ہے :فکیف اذا جئنا من کل امۃ م بشھید وجئنا بک علی ھٰؤ لاء شھید ا۔

یہ ایسا سخت اور ہولناک لمحہ ہو گا کہ لوگ چاہینگے کہ زمین پھٹ جائے اور وہ اسکے اندر سما جائیں مگر انکی یہ شرمندگی انکے کام نہ آئیگی ۔اﷲ تعالیٰ کے یہاں ان کے قول و عمل سے لیکر انکی سوچ تک کا ریکارڈ موجود ہو گا اور اﷲ تعالی انہیں دکھا دیگا کہ حق کے داعی کا انکار جو انہوں نے کیا وہ ناواقفیت کے سبب سے نہ تھا بلکہ تکبر کی وجہ سے تھا انہوں نے اپنے آپ کو بڑا سمجھا اور داعیٔ حق کوجھوٹا جانا ۔ حقیقت کو اسکی برہنہ صورت میں دیکھنے اور جاننے کے با وجود وہ محض اس لئے سامنے منکر ہوگئے کہ اس کو ماننے میں انکی اپنی بڑائی ختم ہو تی نظر آتی تھی ۔

ممنوعہ درخت کا معاملہ بھی اسی ذیل کا ایک عملی سبق ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے بھٹکنے کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے کہ وہ شیطان کے ورغلانے میں آجائے اور اس حد میں قدم رکھ دے جس میں جانے سے اﷲ تعالیٰ نے منع کیا ہے اﷲ تعالیٰ کی منع کی ہوئی حدود میں قدم رکھتے ہی آدمی اﷲ تعالیٰ کی تائیدو نصرت سے محروم ہو جاتا ہے ۔تاہم یہ محرومی ایسی نہیں جس کی تلافی نہ ہو سکتی ہو ۔ یہ امکان آدمی کے لئے وقت کھلا رہتا ہے کہ وہ دو بارہ اپنے رب کریم کی طرف لوٹ آئے اور پنے رویہ کو درست کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ سے معافی کا طلبگار ہو جب بندہ اس طرح پلٹتا ہے تو اﷲ تعالیٰ بھی اس کی طرف اپنی رحمت کے ساتھ رجوع فرماتا ہے اور اسے اسطرح پاک کر دیتا ہے گویا اس نے گناہ کیا ہی نہیں تھا ۔
Peer Muhammad Tabasum Bashir Owaisi
About the Author: Peer Muhammad Tabasum Bashir Owaisi Read More Articles by Peer Muhammad Tabasum Bashir Owaisi: 85 Articles with 165546 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.