استاد کا احترام

ہماراسکول گھر سے ڈھائی کلومیٹر دو ر تھا، ہمیں پیدل ہی دوسرے گاؤں(سکول) جانا ہوتا تھا، سکول گاؤں سے باہر تھا، سڑک اور چار دیواری کچی اور چھوٹی تھی۔ دور سے ہی استاد صاحبان اپنی اپنی سائیکل پر آتے دیکھے جاسکتے تھے۔ جونہی استاد سکول کے گیٹ کے قریب پہنچتے ، بہت سے لڑکے بھاگتے ہوئے وہاں پہنچ جاتے، وہ اپنے استاد سے سائیکل وصول کرنے وہاں جاتے تھے، استاد سائیکل سے اتر جاتے اور جو لڑکا سائیکل حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا وہ اسے سائیکل سٹینڈپر کھڑا کر آتا۔ یہ استاد کے احترام کی ایک جھلک تھی۔ اگر استاد پیدل چل رہے ہوتے تو کوئی طالب علم ان سے آگے نکلنے کی کوشش نہ کرتا۔ استاد کو سامنے سے آتا دیکھ کر راستہ بدل لیا جاتا تھا۔ احترام واجب تھا، خواہ ٹیچر کا تعلق کسی اور کلاس حتیٰ کہ کسی اور سکول سے ہی کیوں نہ ہو۔ ہم اب بھی اپنے پرانے اساتذہ سے ملتے ہیں تو احترام کا رشتہ اسی مضبوطی سے قائم ہے، اب جبکہ ہمیں تعلیمی اداروں سے فارغ ہوئے صدی بیت چکی ہے، (یا بدل چکی ہے) اب بھی کسی تعلیمی ادارے میں جانا ہوتا ہے تو استاد کی وہی عزت کرتے ہیں، جو اپنے زمانے میں کرتے تھے۔ خواہ ٹیچر خود ہماری عمر کے ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ پرانے وقتوں کی تربیت کا نتیجہ ہے۔

دنیا میں تو کل ٹیچر کا عالمی دن منایا گیا تھا، مگر پاکستان میں اس دن کو ازر اہِ عقیدت واحترام ’’سلام ٹیچر ڈے‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس سال بھی ہر سال کی طرح ہی یہ دن منایا گیا۔ بڑی بڑی تقریبات منعقد کی گئیں، اساتذہ کو سلام پیش کیا گیا، ان کی خدمات کا اعتراف کیا گیا، انہیں شیلڈیں دی گئیں، ان کی کارکردگی کو سراہا گیا۔ اچھا ہے ، چلیں سال بھر میں ایک روز ہی سہی عالمی سطح پر استاد کی قدر تو پہچانی جاتی ہے۔ بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں استاد کے احترام کی مثالیں دی جاتی ہیں، استاد کو دوسرے لوگوں پر ترجیح دی جاتی ہے، سڑک ہو یا دفتر، مارکیٹ ہو یا عدالت، ہر جگہ پر استاد کو فوقیت حاصل ہے، سرکاری سطح پر استاد محترم ہے۔ اپنے ہاں بھی استاد کا احترام موجود ہے، مگر سرکاری یا قومی سطح پر نہیں، انفرادی یا ذاتی لحاظ سے۔

استاد کے احترام کے کچھ تقاضے ہیں، تعلیم کے حصول اور ترقی کے سفر پر کامیابیاں حاصل کرنے کے لئے استاد کا احترام لازم و ملزوم ہے۔ احترام کیسے کیا جائے؟ یا کیسے کروایا جائے؟ یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ اب جبکہ ہر طرف ان تقاضوں پر روشنی ڈالنے کے لئے تقریبات منعقد ہو رہی ہیں اور اس ضرورت کو اجاگر کرنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے کہ استاد کا احترام کس قدر ضروری ہے۔ دوسری طرف اسی قسم کی محافل میں اساتذہ کے بارے میں ناقابلِ برداشت زبان استعال کی جاتی ہے، انہیں بہت بری طرح ڈانٹ ڈپٹ کی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی عزتِ نفس مجروح ہوتی ہے، بلکہ دوسروں کے سامنے ان کی اہمیت بھی ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔ مگر یہ بے عزتی پروگرام بہت تسلسل سے جاری رہتا ہے۔ ایک اعلیٰ ضلعی انتظامی افسر سے لے کر محکمہ تعلیم کے افسر تک ، سب ہی استاد کو ڈانٹ کر اپنی انتظامی صلاحیتوں کا لوہا بھی منواتے ہیں اور اپنے کئے پر خوش بھی ہوتے ہیں۔ ایسے پروگرام اکثر منعقد ہوتے رہتے ہیں، محکمہ تعلیم کے افسران کی تو سمجھ آتی ہے، مگر عام انتظامی افسران کا معاملہ سمجھ سے بالا تر ہے۔ ڈانٹ ڈپٹ اور کھینچا تانی کا یہ سلسلہ مستقل جاری رہتا ہے۔ کہا جاتا ہے (اور عام حالات میں دکھائی بھی یہی دیتا ہے) کہ استاد دلجمعی سے کام نہیں کرتے، بچوں کی تعلیم اور پڑھائی میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے۔ اپنے ادارے سے ہٹ کر انہیں اکیڈمیوں اور ٹیوشن وغیرہ کی ز یادہ فکر لاحق رہتی ہے۔ سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی آپس کی لڑائی ختم نہیں ہوتی، اور جب دو چار اساتذہ آپس میں الجھتے ہیں، یا ایک دوسرے سے نفرت کا اظہار یا اہتمام کرتے ہیں، تو اُن کے پاس طلبا کو پڑھانے کے لئے کیا وقت بچے گا۔ جب جواز تلاش کرنے کی مہم جوئی ہوتی ہے، تو ہزار بہانے تراشے جاتے ہیں۔ اساتذہ کو شکایت ہے کہ ان سے ’’غیر نصابی ‘‘ کام نہ لئے جائیں، ان سے مردم شماری نہ کروائی جائے، ان کی الیکشن میں ڈیوٹی نہ لی جائے، انہیں سیلاب زدگان کے حساب کے لئے نہ بھیجا جائے، ان کے ذمہ گندم کے باردانہ کا حساب نہ لگایا جائے۔ جیسے بھی ہوا، احترام بہت کم ہو چکا ہے۔ اب محض تقریبات سے یہ کمی پوری ہونے والی نہیں، اساتذہ کو اپنے کردار کی روشنی میں اپنے احترام میں اضافہ کرنا ہوگا۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472543 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.