ایک انجانا سا خوف ۔۔۔۔۔۔؟

اسلامی کیلنڈر کے پہلے مہینے محرم الحرام کا آغاز ہوچکا ہے ہر سال کی طرح اس سال بھی امن و امان کی بحالی کے لیے پریشان انتظامیہ دیگر مہینوں کی بہ نسبت زیادہ متحرک ہوچکی ہے انتظامی معاملات دیکھے جارہے ہیں'اجلاس منعقد ہورہے ہیں تمام مسالک کے علماء سے ملاقاتیں کی جارہی ہیںحالات کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں' حساس علاقوں اور حساس مقامات کی سیکورٹی بڑھائی جارہی ہے مزید نفری تعینات کی جارہی ہے اور فورسز کو الرٹ رکھا جارہا ہے لیکن اس کے باوجودانتظامیہ مطمین نہیں انہیں ایک انجانی سی ''کچھ'' فکر دامن گیر ہے ایک انجانی سی بے چینی ہے انجانا سا خوف اور پریشانی ہے عام آدمی بھی دیگر دنوں کی بہ نسبت کچھ کچھ بے چینی محسوس کر رہا ہے حالانکہ فورسز کی انتھک جدوجہد اور قربانیوں کی وجہ سے حالات پہلے سے بہت بہتر ہیں اور امن وامان کی صورتحال اگر زیادہ بہتر نہیں توا بتر بھی نہیںلیکن پھر بھی وہ کچھ فکر مند ضرور ہیں گذشتہ کچھ عرصے سے ہر سال محرم الحرام کے آتے ہی ملک میںدہشتگردی کا خطرہ منڈلانے لگتا ہے اور ایک انجانا سا خوف محسوس ہوتا ہے اس ماہ میں پورے ملک کی طرح پشاور اور دیگر احساس اضلاع میں بھی خوف کے سائے پہلے سے کچھ زیادہ گہرے ہوجاتے ہیں اور ایک انجانے سے احساس کیساتھ کاروبار زندگی جاری رہتا ہے انتظامی طور پر بھی یہ مہینہ حکومت کیلئے کچھ زیادہ ہی پریشانی کا باعث ہوتا ہے اور کسی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کیلئے سخت حفاظتی انتظامات کرنے پڑتے ہیں جس کیلئے سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری کی ضرورت پڑتی ہے جو موجودہ دگرگوں امن وامان کی صورتحال کی وجہ سے پہلے ہی مصروف رہتے ہیں محرم کے ابتدائی دس دن اور سات محرم سے دس محرم تک تو پشاور کو باقاعدہ سیل رکھا جاتا ہے اس دوران یوں لگتا ہے جیسے پرانے زمانے کے کسی قلعہ بند شہر میں اس شہر کے باسی رہ رہے ہوں لیکن اتنے سخت انتظامات اور اضافی نفری کی ڈیوٹی کے باوجود افسوسناک بعض اکادکا واقعات رونما ہو ہی جاتے ہیں گذشتہ دو دہائیوں سے اس صوبے کے باسی مختلف مواقعوں پر نشانہ بنتے رہے ہیں ایک طرف جہاں اس صوبے کے امن وامان کو نظر لگ گئی وہاں بعض قوتیں پورے ملک کی طرح اس صوبے اور اس شہر کے امن و امان کو بھی تہہ وبالا کرنے میں لگی ہوئی ہیںہمارے کچھ اپنے لوگ بھی انہی کے مقاصد کو آگے بڑھارہے ہیں اور موجودہ نازک صورتحال کے باوجود تفرقہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں جس کے تدارک کیلئے انتظامیہ کوعلما اور معززین شہر سے رجوع کرنا پڑتا ہے کچھ عرصہ سے عام دنوں کی بہ نسبت محرم الحرام کا یہ مہینہ کچھ زیادہ خوف اور پریشانی کی علامت بن چکا ہے اور یہ سب حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور ہماری اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے یہ خطہ اور خصوصا یہ شہر فرنٹ لائن بنا ہوا ہے اور اس کے باسیوں کو روز کوئی نہ کوئی غم سہنا پڑتا ہے انہیں اس غم سے کب نجات ملے گی اور کب وہ دن آئے گا جب انہیں اپنے پیاروں سے اس افسوسناک طریقے سے بچھڑنے کا دکھ نہیں دیکھنا پڑے گا یہ کسی کو معلوم نہیں اس صوبے اور اس شہر کے باسیوں کو 'اعلی حکام کو اور نہ ہی حکمرانوں کو اس کا علم ہے ۔کب یہ خوف دور ہوگا کوئی نہیں جانتا اس صوبے اور اس شہر کے راستے کب غیروں سے ناآشناہوں گے کسی کو نہیں معلوم تاہم اس خوف و دہشت پر ہم کسی حد تک قابو پاسکتے ہیں اپنے پیاروں سے افسوسناک طریقے سے بچھڑنے کے دکھ کو ہم کم ضرور سکتے ہیں اس صوبے اور اس شہر کی فضا کو ہم کسی حد تک پر سکون بناسکتے ہیں اس شہر کے باسیوں کے چہرے پر نظر آنے والی بے یقینی اور بے چینی کو ہم دور کرسکتے ہیں اس کیلئے ہمیں نہ تو کوئی اخراجات کرنے پڑتے ہیںاور نہ ہی ہمیں کسی بیرونی مدد کی ضرورت ہوگی صرف اتحاد واتفاق کا مظاہرہ کرنا ہوگا آپس میں پیار ومحبت کا رشتہ مضبوط کرنا ہوگا اور نفاق پیدا کرنے والوں سے دور رہنا ہوگا یہ وقت کی ہی نہیں ہم سب کی بھی ضرورت ہے اسی میں ہم سب کی کامیابی اور بھلائی بھی ہے اس کیلئے ہم سب نے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا دلوں سے کدورتیں اور نفرتیں ختم کرنی ہوںگی اور اس شہر کے باسیوں کو آپس میں لڑانے والوں پر نظر رکھنی ہوگی یہی وہ راستہ ہے جس سے ان سازشوں کو ناکام بنایا جا سکتا ہے اور ان ملک دشمنوں کے عزائم سے بچا جاسکتا ہے یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے ہر فرد کا فرض ہے انتظامیہ اور اس کے اعلی حکام کا بھی اس میں اپنا کردار ہے ہم سب کو اپنی اپنی جگہ اس کا احساس کرنا ہوگا۔
Sultan Hussain
About the Author: Sultan Hussain Read More Articles by Sultan Hussain: 5 Articles with 3302 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.