چند ماہ پہلے کی بات ہے فاطمہ میرے پاس آئی
اور آنسوؤں کی جھڑی کے ساتھ اپنی مصیبتوں کی داستان کہہ سنائی ۔ قصہ کچھ
یوں تھا کہ اس کی شادی چند سال پہلے جمشید سے ہوئی جس کا آٹو پارٹس سپلائی
کا بزنس تھا ۔ روپے پیسے کی ریل پیل دیکھ کر اس کی والدین کی آنکھیں چکا
چوند ہوگئیں اور یوں فاطمہ دلہن بن کر جمشید کے گھر چلی گئی۔ جمشید کے گھر
پر اس کے بڑی بہن کی حکمرانی تھی ۔ نند نے روایتی ساس سے بھی بڑھ کر منفی
کردار ادا کیا۔ جمشید نے سب سے پہلے تو فاطمہ کے میکے جانے پر پابندی عائد
کی۔ یہ راستہ بند ہونے کے بعد اس نے ٹیلی فون بھی کاٹ دیا اور فاطمہ اپنے
والدین سے بات چیت بھی نہ کر سکے۔وہ بیچاری ان بے جا پابندیوں کے باوجود
بھی نباہ کرتی رہی کیونکہ اس کے والد نے اسے سر کے بوجھ کی طرح سے اتار دیا
تھا۔ اب وہ سوال بھی کرتی تو کس طرح؟ اس کے سسرال میں کوئی وقعت نہ تھی ۔
کھانے کی ایک ایک چیز کے لئے اپنی نند سے درخواستیں کرنی پڑتیں اور وہ ہر
وقت سر زنش ہی کرتی رہی کہ چینی ذیادہ خرچ کر رہی ہوں، مرچ اتنی کیوں ڈال
دی ، دودھ کیوں زائد خرچ ہو رہا ہے۔۔۔
اور اب جمشید کی سنیئے ! وہ تو اپنی بہن سے بھی دو ہاتھ آگے تھا ، بیوی پر
بہانے بہانے سے برستا رہتا۔۔۔ کہتا ، تو بہت فضول خرچ ہے گھر والوں نے تجھے
ہاتھ روک کر خرچ کرنا نہیں سکھایا۔ اگر تربیت کر دیتے تو میری زندگی یوں
خراب نہ ہوتی‘‘
جمشید کے طعنوں سے تنگ آکر فاطمہ نے اپنی ضرورت کی چیزیں مثلاً کپڑے وغیرہ
کی خریداری کے متعلق سوچنا بھی چھوڑ دیا تاکہ شوہر کا منہ بند رہے۔ حلانکہ
وہ کالج لائف میں بہت خوش لباس مشہور تھی یہاں تو گھر کی کسی چیز پر اس کا
اختیار نہ تھا اس کے جسم بلکہ شاید روح تک پر جمشید اپنی اجارہ داری قائم
کرنا چاہتا تھا ۔
ڈھائی سال میں فاطمہ کے دو بچے ہو گئے۔ ایک روز جمشید سے اس کا جھگڑا ہوا ،
اور اس نے فاطمہ کو گھر سے نکال دیا ۔ وہ بے یارو مددگار اپنے باب کے پاس
پہنچی ، ان لوگوں نے الٹا اسی کو صبرو قناعت کا لکچر دیا۔ پھر جمشید سے بات
چیت کے دور شروع ہوئے ، انہی دنوں فاطمہ کسی زریعے سے میرے پاس آئی اور
پوچھا کہ ایسے حالات میں مجھے کیا کرنا چاہیے، کیا عورت ہونا کوئی جرم ہے ،
بیوی ہونا کوئی سزا ہے؟
یوں تو اس قسم کے کیسز آئے روز معاشرے میں ہوتے رہتے ہیں لیکن نجانے کیوں
اس کے درد بھرے الفاظ اور مصیبتوں بھرے آنسوؤں نے میرے دل پر گہرا اثر کیا
۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تم جمشید سے علیحدگی چاہتی ہو؟ علیحدگی ملنے کے
بعد والدین ، بھائی ، بھاوجیں تمہیں بوجھ نہیں سمجھیں گی؟
فاطمہ مزید غور کرنے کا کہہ کر چلی گئی اور میرے لئے بہت سے سوالات چھوڑ
گئی اور میں سوچنے لگا کہ بیٹی کو بعض بلکہ اکثر لوگ بالکل بے قیمت سمجھتے
ہیں؟ کیا وہ سر سے اُتار دینے والی چیز ہے؟ اُسے شوہرکے گھر امتیازی سلوک
کا سامنا کیوں کرنا پـڑتا ہے؟ شوہر کے گھر پر عورت کا کتنا حق ہے؟ وہ کن کن
چیزوں میں شوہر سے اپنی خدمات کا صلہ مانگ سکتی ہے؟
شادی سے پہلے باپ کے گھر میں عورت کے حقوق پر گفتگو کرنا ایک علحیدہ موضوع
ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے عورت کو شادی کے بعد بھی بے شمار حقوق دئیے ہیں۔ قرآن میں
مذکور احکامات کے مطابق شوہر کو ذیادہ پاپند کیا گیا ہے۔ کیونکہ اکثر شوہر
ہی بیوی کے استحصال کے مرتکب ہوتے ہیں۔
میں اپنی ماؤں بہنوں کی بتا دینا چاہتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو شوہر کے
گھر میں خصوصی مقام و مرتبے سے نوازاہے۔ یہ بات اچھی طرح سے زہن نشین کر
لیجئے کہ بیوی شوہر یا سُسرال والوں کی کنیز یا نوکرانی نہیں بلکہ اُس گھر
کی ملکہ ہے۔ بیوی کو رُلا رُلا کر خرچہ دینے والے شوہروں کی خدمت میں ایک
زریں مثال ہے۔۔۔
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہے کہ رسول کریم ﷺ ازواج مطہرات کو فی کس اسّی وسق
کھجور یں اور بیس وسق جو سالانہ عطا فرماتے تھے۔ نیز ازواج مطہرات کے گزر
اوقات کے لئے دودھ دینے والی بیس اونٹنیاں بھی موجود تھیں۔
قرآن مجید ، فرمان ِ نبوی ؐ اور فقہاء علماء کی تصریحات سے بیوی کے حقوق کا
جو خاکہ سامنے آتا ہے اس کے مطابق بیوی کو گھر مہیا کرنا، اُس کو حسبِ
استطاعت اچھے سے اچھا معیار ِ زندگی دینا، نان و نفقہ اہتمام کرنا ، حمل کے
دوران اضافی کیلوریز پر مبنی غذائیں مہیا کرنا، دودھ پلانے کی اُجرت دینا ،
پکا پکایا کھانا دینا، میکہ والوں سے ملوانا شوہر پر لازم ہے۔
یہ تمام حقوق مہیا کرنے کا اصل منشاء کیا ہے؟
عورت اﷲ تعالیٰ کے تخلیقی نظام کو آگے بڑھانے کا ذریعہ ہے۔ وہ نئی زندگی کو
جنم دیتی ہے۔ اس نئی زندگی کو تعلیم و تربیت دے کر معاشرے کا مفید شہری
بناتی ہے۔ بچے کی تربیت و نشونما میں عورت کو شوہر کے مقابلے میں نو ّے
فیصد ذیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ عورت یہ نیک کام
پوری یکسوئی اور بھر پور توجہ کے ساتھ انجام دے سکے۔ وہ گھر اور بچوں کو
پرُ سکون ماحول مہیا کرنے کے لئے شوہر کو نان نفقہ کا پابند کیا گیا ہے۔
نان نفقہ سے مراد حسب ِ استطاعت اچھے سے اچھا معیار ِ زندگی دینا ہے۔
ان گزارشات کو پیش کرنے کے دو مقاصد ہیں پہلا تو یہ واضح کردینا ہے کہ
خواتین کو یہ تمام حقوق رسول اﷲ ؐ نے بغیر مانگے عطا فرمائے ہیں، اس سے قبل
عورتوں کو یہ قطعی معلوم نہیں تھا کہ انہیں ایسے مساویانہ بلکہ خصوصی حقوق
بھی مل سکتے ہیں۔۔ |