ہم "کرپشن" کیخلاف "ایک" کب ہونگے؟
(Shaikh Khalid Zahid, Karachi)
پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ پاکستانیوں نے
ملک پر آنے والی ہر قسم کی آفات سے نبرد آزما ہونے میں فوج اور سیاسی قیادت
کا ہمیشہ بھرپور ساتھ دیا ہے۔ جنگِ ستمبر دیکھ لیں یا 8 اکتوبر کا زلزہ،
پاکستانی قوم کے جذبے نے دنیا کو ہمیشہ ہلا کے رکھا۔ چاہے وہ ہمارا ازلی
دشمن بھارت ہو یا ہماری آستینوں میں پلنے والے، سب کو پاکستانی عزم و حوصلے
کا صحیح معنوں میں علم ہے۔ تن، من اور دھن کے ساتھ ملک پر آنے والی ہر مشکل
کو اس قوم نے اپنے سینے پر لیا ہے اور ہمہ وقت میں یہ قوم سر بکف حاضر رہی
ہے۔ اس جذبے کو پیمائش کیلئے "یومِ آزادی" "یومِ پاکستان" "یومِ دفاع" اور
"یومِ تکبیر" پر نظر ڈالئے، ان قومی اور قومی نوعیت کے دنوں کو ہم پاکستانی
کتنے بھرپور اور پرجوش طریقے سے مناتے ہیں۔ ہر سال ملک سے محبت کیلئے
اخراجات کی مد میں نئے نئے ریکارڈ بنائے جاتے ہیں، اب تو یہ سارے قومی دن
کسی مذہبی تہوار کی سی حیثیت کر چکے ہیں۔ ہم ایک غیریب قوم ہں مگر ملکِ
خداداد کی خاطر اور آنے والی نسلوں میں وطن سے والحانہ محبت کو اجاگر کرنے
کی خاطر خرچہ کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ اس سے یہ تو ثابت ہوگیا کے قومی جذبہ
کسی شق و شبے سے عاری ہے۔ ملک سے عوامی محبت کی ایسی انگنت مثالیں موجود
ہیں اور یقینا روزانہ کی بنیاد پر بنتی جاتی ہیں۔ یہ تو بات ہوئی ملی جوش و
جذبے اور قومی فریضے کی۔
کسی بھی تکلیف کو نظر انداز کرنے سے تکلیف بڑھتی چلی جاتی ہے اور ایک مرض
کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ اگر مرض کی تشخیص بر وقت ہوجائے تو علاج کرنا
آسان ہوجاتا ہے ، ورنہ یہ ایک عام سا مرض کینسر جیسے مرض میں تبدیل ہوجاتا
ہے اور پھر مریض آہستہ آہستہ آخری سانس کی جانب تیزی سے پیش قدمی شروع
کردیتاہے اور آس پاس بیٹھے عزیز و رشتے دار ملنے جلنے والے سوائے دعاؤں اور
تسلیوں کے کوئی کیا کرسکتا ہے۔ ایسے ہی ایک مرض میں ہمارا پیارا وطن
پاکستان بھی مبتلا ہے۔ تشخیص ہر وہ سیاسی جماعت کرتی ہے جو حکومت میں نہیں
ہوتی اور کہیں وہی حکومت کا حصہ بن جائے تو وہ اپنی تشخیص سے منہ پھیر لیتی
ہے ۔ ایسا ہی ایک مرض ہمارے پیارے وطنِ عزیز کو لاحق ہوا اور آہستہ آہستہ
ملک کو کمزور اور نحیف کرتا چلا جا رہا ہے۔ اس مرض کو ہم پاکستانی "کرپشن"
کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ لفظ بہت سارے لفظوں کا مجموعہ ہے۔ ہمارے ملک میں
کرپشن اس طرح سرائیت کر چکی ہے کے اگر آپ کے ساتھ کوئی اچھائی یا نیکی بھی
کر رہا ہو تو آپ اسے مشقوق نظروں سے دیکھنا شروع کردیتے ہیں۔ کیونکہ یہاں
اب کوئی کام شاذونادر ہی سیدھے طریقے سے ہوتا ہے۔ پیدائش کا سرٹیفیکیٹ
بنوانے سے لے کر موت کا سرٹیفیکیٹ بنوانے تک آپ کو کچھ نا کچھ دینا دلانا
پڑتا ہے۔ ادارے کمپیوٹرائز ہوگئے مگر لوگوں کی ذہنیت کا کیا کرینگے۔ انہیں
تو رشوت منہ کو لگ چکی ہے۔ پولیس یا قانون پر ہمارا اعتماد نہیں ہے۔ آپ
تھانے چلے جائیں بس پھر کیا جیب تو خالی کروا کر ہی باہر نکلنا ہوگا ورنہ
آپ اندر تو آہی چکے ہیں۔ سرکاری اداروں میں کوئی درخواست بغیر کیس سفارش کے
بڑھانا انتہائی نا ممکن کام ہے۔ آپ کو ہر صحیح کام کیلئے بھی کچھ مختلف
کرنا پڑتا ہے۔ سرکاری ہسپتال چلے جائیے وہاں آپ کو انگنت ایسے لوگ ملینگے
جو پتہ نہیں کب سے وہاں بے یارو مددگار پڑے ہیں۔ کسی بھی سرکاری ادارے میں
چلے جائیے آپ کا سامنا کرپشن سے ضرور ہوگا۔
اس کرپشن کی مرہونِ منت ملک کے منافع بخش ادارے ایسے خسارے میں گئے کہ
کتنوں کو تو بند کرنا پڑ گیا۔ پاکستان اسٹیل مل وہ نامی گرامی ادارہ ہے جو
انتہائی منافع بخش ادارہ تھا مگر دیکھتے ہی دیکھتے کرپشن دیمک بن کر اس
ادارے کو کھوکھلا کر کے چاٹ گئی۔ اس ادارے کی تباہی میں ایک ادنی مزدور سے
لے کر اعلی افسران تک سب کا ہاتھ ہے۔ اگر آپ غلط کو غلط نہیں کہینگے اور
آنکھیں بند کرلینگے تو ایک دن ایسا ہی ہوگا جیسا اسٹیل مل کے ساتھ ہوا۔
تھوڑے تھوڑے فائدے کیلئے آنکھیں اور منہ بند کرنے والے ملک کی بربادی کے
ذمہ دار ہیں۔ ایسا ہی کچھ حال پاکستان کی مایہ ناز ہوائی جہاز کمپنی کا ہوا۔
ایک وقت میں پی آئی اے وہ ادارہ تھا جہاں دنیا کے دیگر ممالک کے لوگوں نے
آکر تربیت لی۔ مگر آج دنیا میں تضحیک کی نظر سے دیکھا جاتاہے۔ مجبوراً
استعمال کیا جاتاہے۔ اسی طرح ذرائعے آمدورفت کا سب سے بڑا ادارہ پاکستان
ریلویز آجتک معلوم نہیں ہوسکا کے یہ ادارہ جہاں ٹرین میں تل دھرنے کو جگہ
نہیں ملتی خسارے میں کیسے جاتا ہے۔ پاکستان پولیس کے بارے میں کہا جاتا ہے
کہ یہ دنیا کی 10 کرپٹ ترین پولیس میں سے ایک ہے۔
مرض کی تشخیص ہوچکی ہے مگر ابھی تک علاج نہیں شروع کیا جارہا۔ نئی حکومت
آتی ہے پرانی حکومت کے خلاف کرپشن کے الزامات پر کام شروع کردیتی ہے۔
باقاعدہ ادارے بنائے جاتےہیں اور ان میں منظورِ نظر افسران رکھے جاتے ہیں۔
ان افسران سے توقع یہی کی جاتی ہے کہ یہ کرپشن کے خاتمے کیلئے کام کریں مگر
اس بات کا خیال رکھیں گے کہ یہ کاروائی موجودہ حکومت کے کسی فرد کے خلاف
ناہو۔ تفتیش ہوتی ہے، شناخت ہوتی ہے، پیشیاں ہوتی ہیں، اخبارات کی شہہ
سرخیاں بنتی ہیں، بریکنگ نیوز ٹیلی میڈیا کی رونق بڑھاتیں ہیں مگر معاملہ
وہیں کا وہیں رہتا ہے حکومت کے خاتمے کا وقت قریب آجاتا ہے، پھر نئے
انتخابات کی گہما گہمی شروع ہوتی ہے ہر کوئی اپنے جلسوں میں عوام کے روبرو
یہی کہتا سنائی دیتا ہے کہ ہم کرپشن کو ملک سے مٹا دینگے، ہم کرپشن ذدہ
معاشرہ صاف کردینگے، ہم کرپٹ لوگوں کو سرِ عام سزائیں دینگے مگر کرپشن اپنی
جگہ ناسور بن کر ملک کو کھائے جارہی ہے۔
ہمارے معزز و محترم سیاستدان کرپشن کو بچانے کیلئے تو بارہا ایک ہوئے ہیں
مگر وہ دن کب آئے گا جب ملک سے کرپشن اور کرپٹ لوگوں کو اپنی صفوں سے نکال
کر الگ کردینگے۔ وہ وقت کب آئے گا جب سب ایک اسٹیج پر کھڑے ہوکر یہ کہنگے
کے ہم اب اس ملک میں کرپشن کو نہیں رہنے دینگے ۔ یہ قوم تو آپکی ایک آواز
پر لبیک کہتی ہے اور اپنے اتحاد کا ثبوت بھی دیتی ہے آپ کب ہاتھوں کی زنجیر
بنا کر ملک کے تمام منصوبوں کو رکوا کر صرف اور صرف ایک کام کرینگے اس ملکِ
خداداد کو کرپشن سے پاک کرینگے۔ پھر کوئی میلی آنکھ تو کیا غلط زبان بھی
استعمال کرنے کی ہمت نہیں ہوگی۔ پھر اسٹیل مل راتوں رات منافع بخش ہوجائے
گی، پھر پی آئی اے کو کوئی ترچھی آنکھ سے نہیں دیکھے گا اور ریلویز ہواؤں
سے باتیں کرتی دیکھائی دےگی
|
|