محرم کے دوران سیکیورٹی

ہر سال کی طرح اس سال بھی ملک بھر میں محرم کے دوران سیکیورٹی کے انتظامات کئے گئے ہیں جو کم وسائل کے باوجود بڑی حد تک مناسب اورمعقو ل بھی ہیں تا ہم ان میں بہتری کی اب بھی گنجائش موجود ہے ۔ ملک بھر کی انتظامی مشینری کے لئے محرم کے یہ ایام عزا ایک امتحان سے کم نہیں ہوتے کیونکہ جیسے جیسے ملک میں فرقہ پرست گروپوں اور جماعتوں نے جڑیں پکڑی ویسے ویسے صورت حال حکومت اور ملک کی انتظامی مشینری کے دائرہ اختیار سے باہر ہوتی گئی یہاں تک کے ملک بھر میں قانون نافذکرنے والے ادارے اور سیکیورٹی فراہم کرنے والے عسکری ادارے بھی محرم کے دوران سخت ترین امتحان سے گزرنے لگے ہیں۔ ملک بھر میں سخت ترین سیکیورٹی اور ہزاروں کی تعداد میں پولیس اور دیگر سیکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کے باوجود ہر سال دہشتگردی اور بد امنی کا کوئی نہ کوئی واقعہ ضرور پیش آجاتا ہے جس سے ساری محنت پر پانی پھر جاتا ہے۔ جہاں تک کراچی کا تعلق ہے تو یہاں دہشتگردی کا خطرہ ملک کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ کراچی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایام عزا کے دوران جس قدر مجالس عزا کراچی میں منعقد کی جاتی ہیں اور جتنے چھوٹے بڑے جلوس کراچی کے مختلف علاقوں سے برآمد ہوتے ہیں اتنی مجالس اور جلوس ایک وقت میں پورے ملک میں تو کجا پوری دنیا کے کسی ملک میں نہیں ہوتے۔ یہاں تک کے ایران عراق میں بھی اتنی بڑی تعداد میں مجالس ایک وقت میں مختلف علاقوں منعقد نہیں ہوتی جتنی بڑی تعداد میں کراچی میں ہوتی ہیں۔ جہاں تک جلوس میں شریک افراد کی تعداد کا تعلق ہے تو اس میں پہلے نمبر پر کربلا ہے کہ جہاں عزاداروں کی تعداد لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں بتائی جاتی ہے۔ دوسرے نمبر پر ایران کے شہر اور تیسرے نمبر پر پاکستان کا شہر کراچی ہے۔لیکن یہ معجزہ ہی ہے کہ ، باوجود اس کے کہ عراق حالت جنگ میں ہے، محرم کے جلوسوں اور مجالس کے دوران کربلا میں کروڑوں عزاداروں کو مکمل تحفظ رفراہم کیا جاتا ہے اور وہاں کی انتظامیہ اور سیکیورٹی کے ادارے دہشتگردی کا کوئی واقعہ نہیں ہونے دیتے۔ یقینا اس میں اﷲ تعالی کی نصرت اور کئی غیر مرعی قوتوں کا عمل دخل بھی ہوتا ہو گا مگر کیا پاکستان کے سیکیورٹی کے اداروں کو اس معاملے میں ، عراق اور ایران کی شہری انتظامیہ سے سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے؟ کیا ہمیں مذکورہ ملکوں کے تجربات سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے؟ کیا ہمیں ان ممالک کی شہری انتظامیہ کی طرف سے محرم کے موقع پر کئے گئے اقدامات کی نقل نہیں کرنی چاہیے؟ یہ درست ہے پاکستان میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے مسلمان آباد ہیں جن میں غالب اکثریت سنی مسلمانوں کی ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ نواسہ رسولﷺ حضرت امام حسین کے مقام و مرتبے کے سب معترف ہیں۔ ملک بھر میں مجالس اور جلوسوں کی حفاظت کے لئے جہاں جہاں بھی پولیس اور سیکیورٹی اہلکار تعینات ہوتے ہیں ان میں بہت بڑی تعداد ان ہی سنی مسلمانو ں کی ہوتی ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ ملک میں رہنے والی سنی اکثریت امام مظلوم کے غم میں برابر کی شریک ہے ۔ پھر یہ کون سے عناصر ہیں جو امام مظلوم کو پرسہ دینے کے لئے منعقد مجالس عزا اور جلسوں میں شریک عزاداروں کی جانوں کے دشمن ہیں؟ خیر یہ تو ایک الگ بحث ہے ۔ ہمیں یہ ہر صورت تسلیم تو کرنا ہی پڑے گا کہ ملک بھر کی انتظامی مشینری سیکیورٹی کے ادارے اس اعتبار سے قابل تعریف ہے کہ انھوں نے ملک میں ہونے والی دہشتگردی پر بڑی حد تک قابو پایا ہے اسی لئے ہر سال محرم کی سیکیورٹی کے لئے اٹھائے گئے اقدامات میں بہتری بھی آ رہی ہے لیکن بہر حال ہمیں صورت حال کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ملک بھر میں تمام مسالک کے درمیان اتحاد و ہم آہنگی برقرار رکھی جا سکے اور دہشتگرد عناصر کا خاتمہ کیا جا سکے۔
Riaz Aajiz
About the Author: Riaz Aajiz Read More Articles by Riaz Aajiz: 95 Articles with 61348 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.