واقعہ کربلا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مختصراً

1۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دور، دورِ نبوت اور چاروں خلفاء کا مجموعی دور دورِ خلافت کہلاتا ہے۔
2۔ دورِ خلافت کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا دور اگرچہ خلافت نہیں تھا، لیکن عدل وانصاف میں اپنی مثال آپ تھا۔
3۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی میں اپنے بیٹے یزید کو اپناجانشین مقرر کیا۔ جن کے ہاتھ پہ صحابہ رضی اللہ نے بھی بیعت کی۔
4۔ یزید کے دور میں حضرت حسین رضی اللہ کے نام خطوط کا تانتا بندھا کہ ہم پہ ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، آپ تشریف لائیں ہم آپ کے ہاتھ پہ بیعت کرنے کو تیار ہیں۔
5۔ بوریوں میں بارہ ہزار خطوط دیکھ کر آپ ظالم حکمران کے خلاف کلمہ حق بلند کرنے اٹھ کھڑے ہوئے۔
6۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے منع کیا کہ آپ جن کے پاس جارہے ہیں وہ متلون مزاج (منافق) ہیں۔ اپنی بات سے پھر سکتے ہیں۔
7۔ حضرت حسین رضی اللہ نے حالات کا جائزہ لینے مسلم بن عقیل کو کوفہ بھیجا۔ مسلم بن عقیل کی بڑی آؤبھگت ہوئی۔ 18 ہزار افراد خلافتِ حسین کے لیے مسلم بن عقیل کے ہاتھ پہ بیعت ہوئے۔
8۔ ابن زیاد نے خبر پاتے ہی مسلم بن عقیل کے خلاف کارروائی شروع کی۔
9۔ مسلم بن عقیل نے مدد کے لیے اٹھارہ ہزار افراد کو پکارا تو متلون مزاج اپنی اصلیت دکھاگئے، فقط چار ہزار مدد کو آئے، انھیں بھی ابن زیاد نے حیلوں سے منتشر کردیا۔ مسلم بن عقیل تنہا رہ گئے۔ رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے روپوش ہوگئے۔ لیکن صبح ساتھی کے ہم راہ شہید کردیے گئے۔
10۔ ذی الحجہ کے آخر یا محرم الحرام کے شروع میں آپ نے کوفہ کی طرف پیش قدمی شروع کی۔
11۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے سامنے ابن زیاد کا دستہ آیا تو آپ رضی اللہ نے کوفہ کی بجائے کربلا کا رخ کیا، جو کوفہ سے دس بارہ کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے۔
12۔ وہ لوگ جو راستہ میں آپ رضی اللہ کے ساتھ ہوئے تھے۔ مسلم بن عقیل کی شہادت اور بدلتے حالات دیکھ کر الٹے پاؤں واپس ہوگئے۔ محض 45 سوار اور 100 پیادے آپ کے ساتھ رہ گئے۔
13۔ ابن زیاد نے آپ کے مقابلہ میں ابن سعد کو بھیجا۔ آپ نے ان کے سامنے تین شرائط رکھیں: 1۔ مجھے واپس جانے دو۔ 2۔ یزید کے پاس جانے دو۔ 3۔ جہاں میدان جہاد گرم ہو وہاں جانے دو۔
14۔ ابن زیاد کی بدبختی آڑے آئی، اس نے کہا پہلے میرے ہاتھ پہ بیعت کرو۔
15۔ابن سعد نے مزید پانچ ہزار کی کمک طلب کی۔
16۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کا محاصرہ کرکے بھوکا پیاسا رکھا گیا۔
17۔ دس محرم الحرام کو کربلا کی تاریخ لکھنی تھی، میدان کارزار گرم ہوا، حضرت حسین رضی اللہ نے انتہائی بہادری سے مقابلہ کیا، بلآخراپنے خاندان کے بیس سے پندرہ افراد کے قریب، جن میں بچے اور خواتین بھی تھیں، سمیت جام شہادت نوش کرگئے۔
18۔ بدبختوں نے حضرت حسین رضی اللہ کا سر تن سے جدا کیا اور بے حرمتی کی۔
19۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے ان تمام ناگفتہ بہ حآلات میں بھی نماز ترک نہیں کی۔ اپنے پیارے نانا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو سینے سے لگائے رکھا۔

نتیجہ: ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق بلند کرنا افضل جہاد ہے۔ ہر حالت میں دین کو مقدم رکھا جائے۔ دین اتباع کا نام ہے، نفسانی خواہشات کا نہیں۔ ایسے کاموں سے احتراز برتنا چاہیے جو دین سے متصادم، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کے منافی ہوں اور جس کی نظیر خیر القرون میں نہ ملتی ہو۔ نو اور دس یا دس اور گیارہ دو دنوں کو روزہ رکھنے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دی ہے۔ آئیے ان ایام میں روزہ رکھیں اور ایسے کاموں سے بچیں جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے نواسے حضرت رضی اللہ کی روح کو تکلیف پہنچتی ہو۔
 
Ibnul Hussain Abidi
About the Author: Ibnul Hussain Abidi Read More Articles by Ibnul Hussain Abidi: 60 Articles with 57975 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.