بسم اللہ الرحمن الرحیم
شہادت درحقیقت حیات جاوداں ہے،شہادت ایک عظیم تحفہ الہی ہے،اتنی لذیذ کہ
شہید جنت میں شہادت کے وقت حاصل ہونے والے لطف کو محسوس کرے گا،اسلام میں
شہادتوں کا سفر حضرت یاسرؓ کے خاندان سے شروع ہوا،سب سے پہلے شرپسندوں نے
عورت کو نشانہ ستم بنایا اور خاتم الانبیاء ﷺ کی عظیم صحابیہ حضرت سمیہؓ کو
شہید کیا ،خلیفہ ثانی حضرت عمرفاروقؓ کی مصلیٰ رسول پہ شھادت ہو یا خلیفہ
ثالث حضرت عثمان غنیؓ کی82سال کی عمرمیں 40رو ز تک بھوک پیاس کی حالت میں
شہادت ہو ،یاد رہے کہ حضرت عثمان غنیؓ بحیثیت خلیفہ بلوائیوں کے خلاف
انتہائی اقدام اٹھا سکتے تھے لیکن آپ نے مدینہ الرسول ﷺ میں خون خرابے کو
پسند نہ فرمایا اور اپنی زندگی پر خلافت اسلامیہ کے امن کو ترجیح دی۔تاریخ
اسلام جانثاری و جانفروشی کی متحیر العقول داستانوں سے عبارت ہے،جن میں
نمایاں حیثیت واقعہ کربلا کے شہداء کو حاصل ہے جن کے سرخیل نواسہ رسول ﷺ،جگر
گوشہ بتولؓ ،پسر حیدر کرارؓ حضرت سیدنا حسینؓ تھے۔
3شعبان 4 ھ حضرت علی المرتضیٰؓ کے گھرمیں دوسرے بچے کی پیدائش ہوئی، جس کا
نام پیغمبراسلام حضرت محمد ﷺ نے حسین رکھا ،آپ ﷺ اپنے اس نواسے سے بہت
زیادہ محبت کرتے تھے ،نبی کریم ﷺ آپ کے خوش ہونے سے خوش ہوتے تھے ،آپ کے
رونے سے پریشان اور جدائی سے بے تاب ہو جاتے تھے، آپﷺ نے فرمایا حسن و حسین
میری دنیا کی بہار ہیں۔(صحیح بخاری)اللہ کریم نے حضرت سیدنا حسینؓ کو جامع
الصفات بنایا تھا،عبادت و ریاضت، سخاوت و فیاضی ،شجاعت وبہادری ،علمی تبحر
،فصاحت اور بلاغت آپ کی پہچان تھی،آپ کی مجالس علم وحکمت ،وقار و متانت سے
عبارت ہوتیں تھیں،اکثر پیادہ حج پر تشریف لے جاتے تھے ،تمام کبار صحابہؓ آپ
کے ساتھ محبت ،شفقت اور اکرام والا معاملہ کرتے تھے۔خلفاء الراشدین اپنے
اپنے ادوار میں مختلف مواقع پر آپ کوبیش بہاقیمتی ھدایااور وظائف عطا
فرماتے تھے۔ آپ نے ہمیشہ اپنی خدمات اسلام کے تحفظ و بقا کے لیے پیش کیں،
مختلف اسلامی لشکروں میں شریک ہو کر کافروں کا مقابلہ کیا ،دور حضرت عثمان
غنیؓ میں مدینہ پر بلوائیوں کے حملے کے بعد خلیفہ المسلمین حضرت عثمانؓ کے
گھر کے باہر پہرہ دیتے رہے۔
امیرالمؤمنین حضرت امیرمعاویہؓ نے اپنی حیا ت میں صحابی رسو ل حضرت مغیرہ
بن شعبہؓ کی تحریک سے ولی عہد اپنے بیٹے یزید کو مقررکیا، جس کی تائید اہل
شام وعراق نے کی مگر ا ہل مدینہ میں حضرت سیدنا حسینؓ ،عبداللہ بن زبیرؓ
اورعبداللہ بن عمرؓ نے انکار کیا ۔وصا ل کے وقت حضرت امیر معاویہؓ نے یزید
کو وصیت کی کہ" میرا اندازہ یہ ہے کہ اہل عراق میرے بعد حضرت حسینؓ کو
تمھارے مقابلے پر آمادہ کریں گے،اگرایسا ہوا اور تم مقابلے میں کامیاب ہو
جاؤ تو ان سے درگزر کرنا اور قرابت رسول اللہ ﷺ کا پورا احترام کرنا، ان کا
سب مسلمانوں پربڑا حق ہے۔" (تاریخ کامل ابن اثیر)رجب 60 ھ میں امیر
المومنین حضرت امیر معاویہؓ کا وصال ہوااور یزید مسند نشین ہوا اور تجدید
بیعت کی۔
اکابرین اہل حجاز نے یزید کی بیعت سے انکار کیا اور اہل کوفہ کی طرف سے
سینکڑوں خطوط بنام حضرت سیدناحسینؓ مکہ پہنچناشروع ہوئے جن میں تحریر تھا
کہ" ہمارا کوئی امام نہیں ہے اور ہم نے ابھی تک کسی کے ہاتھ پر بیعت نہیں
کی ہے"۔(الطبری ص۲۶۲ج۴)جب کہ حضرت تعمان بن بشیرؓ کوفہ کے حاکم تھے ۔حضرت
حسینؓ نے حقیقت احوال معلوم کرنے کے لیے حضرت مسلم بن عقیل کو کوفہ بھیجا
،آپ کا موقف یہ تھا کہ صرف اہل شام کی بیعت پوری امت پر لازم نہیں ہوسکتی
،لہذا اس کی خلافت ابھی منعقد نہیں ہوئی،اس کے باوجود وہ پورے عالم اسلام
پر بزور متصرف ہونا چاہ رہا ہے،حضرت سیدناحسینؓ ایسی حالت میں اس غلبہ کو
روکنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ حضرت مسلم بن عقیلؓ نے کوفہ پہنچے تو بارہ ہزار
کوفیوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور آپ نے حضرت سیدنا حسینؓ کوحالات سے
باخبر کرنے کے لیے خط لکھا کہ آپ جلد کوفہ پہنچیں،مگر عبیداللہ ابن زیاد کے
بحیثیت امیر کوفہ آنے کے بعد سرداران کوفہ دنیاوی چمک دمک اور بعض زور
زبردستی سے متاثر ہوکربیعت سے منحرف ہو گے اور مسلم بن عقیل اور ان کے
میزبا ن ہانی ابن عروہ کو شہید کردیا ۔
ذی الحجہ کی تیسری یا آٹھویں تاریخ 60 ھ حضرت سیدنا حسینؓ کوفہ روانہ ہوئے
،حضرت عبداللہ بن عباسؓ ، حضرت ابن عمرؓ ،حضرت عمر بن عبدالرحمنؓاور
عبداللہ بن جعفرؓ سمیت کبار صحابہ کے منع کرنے کے باوجودآپ عازم سفر رہے ۔
حضرت حسینؓ نے مقام حاجر پر پہنچ کر اہل کوفہ کے نام خط لکھا کر قیس بن
مسرہد کے ہاتھ روانہ کیا ،خط میں اپنے آنے کی اطلاع اور جس کام کے لیے ان
کو اہل کوفہ نے بلایا تھا اس میں پوری کوشش کرنے کی دعوت تھی، مگر قیس
کوگرفتار کرکے بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔آپ نے کوفہ کے بجائے کربلا کا رخ
کیا اس وقت آپ کے ساتھ 45سوار اور 100پیادہ لوگ تھے ۔عمر بن سعد کربلا میں
عبیداللہ بن زیاد کی طرف سے قاصد بن کر حضرت سیدنا حسینؓ کی خدمت میں حاضر
ہوئے تو آپؓ نے ان کو سامنے تین باتیں رکھیں ،(الف)میں جہاں سے آیا ہوں
،وہیں واپس چلا جاؤں۔(ب)میں یزید کے پاس چلا جاؤں اور خود اس سے اپنا
معاملہ طے کر لوں۔(ج)مجھے مسلمانوں کی کسی سرحد پر پہنچادو،جو حال وہ کے
عام مسلمانوں کا ہو گا میں اسی میں بسر کروں گا۔عمر بن سعد کی کوششوں سے
معاملہ کی حل کی طرف جارہا تھا کہ شمر ذی الجوشن کے غلط مشوروں سے عبیداللہ
ابن زیاد نے غیر مشروط طور پر صرف اپنی بیعت پر حضرت حسینؓ کو مجبور کر نا
چاہا ،مگر آپ نے انکار فرمایا۔کوفی لشکر آپ کا مکمل محاصرہ کر چکا تھا آپؓ
نے مختلف کوفی سرداروں کے نام لے کر انہیں مخاطب کر رہے تھے ،اے شیث بن
ربعی!،اے حجاز بنابحر!،اے قیس بن اشعث !، ا ے زید بن حارث !کیا تم نے مجھے
بلانے کے لیے خط نہیں لکھے؟میرے پاس تمھارے خطوط موجود ہیں۔اس کے بعد
فرمایا اگر تم لوگوں کو میرا آنا ناپسند ہے مجھے چھوڑ دو میں کسی ایسی زمین
میں چلا جاؤں جہاں مجھے امن ملے۔10محرم 61 ھ کوواقعہ کربلا پیش آیا ،
نواسہ رسول سیدنا حسینؓ کو آپ کی اولاد اور جانثاروں سمیت72 افراد کوشہید
کردیا گیا ،ان شہداء کو ایک روز بعد دفن کیا گیا،اہلبیت کی خواتین اور
شہداء کے سروں کو ابن زیاد اور پھر یزید کے دربار میں لایا گیا۔
شمر ،عمر و بن سعد، ابن زیاداورکوفیوں نے اپنے ہی ہاتھوں اپنے نبی کے
خاندان کو تہہ تیغ کیا،ظلم و ستم کی ایسی داستانیں رقم کیں جن کی مثال سے
تاریخ قاصر ہے،حضرت سیدنا حسینؓ جب مکہ سے چلے تھے ،اپنے انجام سے باخبر
اور عزیمت کے اس راستے کی صعوبتوں کو واقف تھے،"راوی "اہل کوفہ کی غداری کی
تاریخ بھی آپ کو سناتا رہا مگر آپ اسلامی خلافت میں پھیلے اضطراب کو ختم
کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہتے تھے۔حضرت سیدنا حسینؓ کی زندگی ،سفر
کرب وبلا اور شہادت صبر و رضا ،استقامت اور جرأت سے عبارت ہے، پورے خاندان
کو قربان کردیا مگر اپنے موقف سے ذرہ برابر لچک نہ آنے دی، اپنی بہن کو
وصیت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ "میری بہن میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ میری
شہادت پرکپڑے پھاڑنا یا سینہ کوبی ہرگز نہ کرنا،آواز سے رونے اور چلانے سے
بچنا"۔
اسوہ شبیریؓ پر عمل کرنے سے ہم بہت سارے مسائل پر قابو پا سکتے ہیں،حق کے
تائید اور باطل کی سرکوبی کے لیے جدو جہد اور اس راستے میں پیش آنے والے
مصائب و مشکلات کو صبر ورضا سے برداشت کرنا آپ کی زندگی کا پیغام ہے،ماتم
،زنجیرو خنجرزنی؎ اور سینہ کوبی سے حضرت سیدنا حسینؓ اور آپ کے متبعین
لاتعلق اور بیزار ہیں۔ |