تحریر: اریشہ فاروق (گجرانوالا)
کچھ صدیاں قبل دنیا میں جنگیں تیر و تلوار سے ہوا کرتی تھیں۔ پھر موسم بدلا،
حالات بدلے ، جد ت نے دنیا کی دہلیز پر دستک دی تو جنگوں کا انداز بھی یکسر
بدل گیا۔ تیر اور تلوار کی جگہ گولا بارود، توپوں اور کلاشنکوف نے لے لیا۔
پھر موسم کا تیور بدلا ، حالات ایک مرتبہ پھر جدت نے انگڑائی لی تھی جنگوں
کا انداز بھی بدل گیا۔ گولوں، توپوں ، اور کلاشنکوف کی جگہ جے ایف تھنڈر
طیارے ، ایٹم بم، میشن گن اور آبدوزیں میدان میں آگئیں۔ مگر حالات نے ایک
مرتبہ غیر معمولی سی انگڑائی لی ہے تو وہ جنگیں جو میدانوں میں ہوا کرتی
تھیں، وہ میڈیا اور تہذیب پربرپا ہونے لگیں۔
میڈیا تہذیب کے ایٹم بم لے کر ہماری قوم پر ایسے حملہ آور ہوا کہ آج ملک کا
ذرہ ذرہ اس بم سے نکلنے والے برے اثرات کا شکار ہوچلا ہے۔ ہم بطور مسلم
کبھی آدھی دنیا پر حکمرانی کیا کرتے تھے۔ بطور پاکستانی ہم نے اپنے بل بوتے
پر ایک قوم کھڑی کی ۔ ایک ایسی منظم قوم کہ جس کے بارے میں ہندو بنیے کا
خیال تھا کہ ان کنگلوں کے پاس ہے ہی کیا۔ یہ کچھ روز کے بعد خود ماتھا
رگڑتے ہوئے ہمارے پاس بھیک مانگنے آئیں گے۔ مگر ہم نے جرات اور بہادری سے
وطن عزیز حاصل کیا ۔ سر اٹھا کر جیے اور آج تک وہ سر فخر سے بلند ہے۔ ہم نے
ایک جھوٹی سی سلطنت ہو کر ایٹم بم بنایا اور دنیا کے لیے اپنے دفاع کو نا
قابل تسخیر بنا دیا۔ جس قوم کو آج تک نہ تو کسی اندرونی اور نہ ہی کوئی
بیرونی طاقت زیر کر سکی ہے وہ قوم آج تہذیب کے میدان میں زیر ہوتی نظر آرہی
ہے۔
آج کل جس طرح ہمارا رہن سہن تبدیل ہو رہا ہے ڈر ہے کہ کہیں ہماری تہذیب
تاریخ کا حصہ نہ بن جائے۔ جو قومیں اپنی تہذیب اپنی روایات کو چھوڑ دیتی
ہیں ان کا وجود بھی ختم ہو جاتا ہے۔ مگر ہم لوگ پتا نہیں یہ بات کب سمجھیں
گے۔ ہمارا میڈیا ہو یاں عام شہری سب مغرب کی تقلید کرتے نظر آرہے ہیں۔ وہ
چیزیں کہ جن کا تصور بھی نہ تھا ہماری روایات میں ہم انہیں فالو کر رہے
ہیں۔ وہ چیزیں کے جنہیں دیکھ کر ہمارے بزرگ استغفار کرتے تھے آج ہم ان پر
فخر کرتے ہیں۔ ہمارا میڈیا ہمیں بے باک بنانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
مگر ہم دیکھ رہے ہیں تو میڈیا دکھا رہا ہے۔ ہم سب کی اس میں برابر کی غلطی
ہے اور حد تو یہ ہے کہ ہمیں اس چیز کا احساس بھی نہیں ہے۔
وہ بچے کے جن کی نگاہیں بڑوں کے سامنے اٹھتی نہیں تھیں آج ایسے بڑوں سے بات
کر رہے ہوتے ہیں جیسے بڑے وہ ہی ہوں۔ مشرقی عورت جو شرم و حیا کا پیکر تھی
آج اس کی بے باکی پر مغرب بھی شرما رہا ہے۔ یہ کس سمت چل رہے ہیں ایک دوسرے
کے مقابلے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دھن ہے بس جس نے پہلے ہمیں عبائے
سے شلوار قمیض ، شلوار قمیض سے ٹائٹ اور اب ہمارے ٹائٹ بھی اوپر سرکنا شروع
ہو گئے ہیں۔ اسی طرح ہمارے دوپٹے پہلے گلے میں آئے اب گلے سے غائب ہو کے
گلے بھی غائب ہو رہے ہیں۔ آگے پیچھے سے نیچے سرکنا شروع ہو رہے ہیں۔
ہم یہ بھولتے جا رہے ہیں کہ ہماری تہذیب کیا ہے ۔ مشرقی لباس جو ہماری
پہچان تھا اب وہ ہمیں دقیانوسی لگتا ہے۔ عبایہ جو ہماری غلط نظروں سے حفاظت
کرتا ہے ہمیں آؤٹ آف فیشن لگتا ہے۔ انتہائی افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ
ہماری مشرقی لڑکی اپنی تہذیب چھوڑ کر کہیں اور کھوئی ہوئی ہے۔ خود کو اس
قدر مشہور کردے کہ سب اسے جاننے لگیں ۔ اگر اس جدت کہا جائے تو یقین یہ غلط
ہوگا۔ یہ جدت نہیں یہ تو پستی ہے۔
پھر ان لوگوں کو بھی دیکھیں کہ جو یہ سب نہیں کر رہے انہیں خود پہ افسوس ہے
حد ہے۔ وہ بھی فیشن کو فالو کرنا چاہتے ہیں۔ گویا اپنی کوئی پہچان ہی نہ ہو
۔ خدارا پہچانیں خود کو، ہم کون ہیں ۔۔۔ کیا ہیں ہماری روایات ؟ اگر ہم خود
اپنی رویات کو فالو نہیں کریں گے تو کون کرے گا۔ پھر ہم تو مٹ جائیں گے۔ ہم
خود کی پہنچان کا گلا گھونٹ کو یقینا خود کو بھی کھو دیں گے۔ اﷲ نہ کرے کہ
کہیں ایسا ہو ہم سرحدوں کی جنگ تہذیب و ثقافت کے میدان میں ہار نہ جائیں۔
|