ہم میں سے اکثر لوگ اپنے والدین کی سادہ
زندگی کی مثال دیتے نظر آتے ہیں۔خاص طور پر ہم اپنی والدہ کی معصوّ میت کو
بہت فخر سے بیان کرتے ہیں۔مثال کے طور پر ہم کہتے ہیں کہ ہماری والدہ ایک
سادہ طبیعت خاتون تھیں۔جو تمام عمر اپنے فرائض بخوبی سرانجام دیتی
رہیں۔لیکن اپنے گھروندے کے باہر کی دنیا کے بارے میں زیادہ علم نہیں رکھتی
تھیں۔اس کے باوجودہماری پرورش، تعلیم و تربیت پر اپنے تئیں بھرپور توجہ
دیتی تھیں۔ان سادہ لوح ماؤں نے ایسے ایسے لعل پیدا کئے اور ان کی بہترین
پرورش کی جو آگے چل کر پوری قوم کے لئے فخر کاباعث بنے۔ جو خود تو گھر میں
دئے گئے پیسوں کا بھی حساب کرنا نہیں جانتی تھیں۔ لیکن اپنی اولاد کی تعلیم
کا حساب جانے کیسے رکھ لیتی تھیں۔ جنہیں گھڑی پر وقت دیکھنا بھی نہیں آتا
تھا، لیکن اپنے بچوں کو کبھی اسکول سے دیر نہیں ہونے دیتی تھیں۔جو کسی دوا
کا نام پڑھنا تو نہیں جانتیں تھیں لیکن ہماری سانسوں کی اٹھان سے ہماری
بیماری بھانپ لیتی تھیں۔جو زمانے کی چالاکیوں سے ناواقف تھیں لیکن ہماری
ذرا سی الجھن ہماری آنکھوں میں دیکھ کرپہچان جاتی تھیں۔بہت سے لوگ اس بات
سے بھی متفق ہونگے کہ ہماری والدہ تمام عمر ہمارے سکول، کالج اور یونیورسٹی
کا نام بھی نہیں جانتی تھیں۔ ا پنے والدین کی اس معصومیت پر ہم تمام عمر
فخر کرتے آئے ہیں۔
لمحہ فکریہ ہے کہ آج کے دور میں معصومیت کی عمر گھٹ کر شعور تک آ گئی
ہے۔یعنی آج کی نسل کے بچے باشعور ہوتے ہی معصومیت کھو بیٹھتے ہیں۔اور یہ
کیسے اور کیوں ہوتا ہے اس پر نظر سانی کرتے ہیں۔
جیسا کہ آج کے بچے ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی ٹیلیوژن دیکھنے کے عادی ہو چکے
ہوتے ہیں۔نتیجہ یہ کہ انکی ابتدائی تربیت میں والدین سے زیادہ ٹیلیوژن کا
کردار نظر آتا ہے۔جب ہمارے معصوم سے بچے موسیقی کی آواز پرتھرکنے لگتے ہیں
تو ہمارے چہرے یو ں کھل جاتے ہیں گویا ہمارے بچے نے زندگی کا پہلا معرکہ سر
کر لیا ہے۔ اس کے بعد ہم اپنے بچوں کو کارٹون دیکھنے کا عادی بنا دیتے ہیں
جو بد قسمتی سے غیر ملکی اور غیر مذہبی کرداروں پر مبنی ہوتے ہیں۔اور یہ
کردار اپنی روایات آسانی سے ہمارے بچوں کے ذہنوں میں ڈال دیتے ہیں۔ جب
ہمارا معصوم سا بچہّ نازیباں یا غیر مذہبی الفاظ بولنا شروع کر دیتا ہے تو
ہم اسے بھی اپنا فخر سمجھتے ہیں۔
کارٹون کے بعد بچےّ کی تربیت کا اگلا مرحلہ طے کرنے میں مدد کرتے ہیں ان کی
والدہ کے پسندیدہ غیر مذہبی اور غیر مناسب ڈرامے جنہیں دیکھ دیکھ کر بچہّ
تربیت کے مراحل طے کرتا ہے۔اور باآسانی آزاد خیال اور اپنی اخلاقی قدروں سے
دور ہو جاتا ہے۔
اب اس قسم کے تربیت یافتہ بچیّ سے آپ معصومیت کی امید تو ہرگز نہیں رکھ
سکتے۔شروع شروع میں تو ہم بہت فخر سے اپنے ملنے والوں کوبتاتے ہیں کہ ہمارے
بچےّ کو تو ایسی بہت سی باتوں کا علم ہے جوہم اپنے بچپن میں نہی جانتے تھے
اور اس کا افسوس ہمیں اس وقت ہوتا ہے جب بظاہر معصوم دکھنے والے بچےّ بعض
اوقات ہماری شرمندگی کا باعث بن جاتے ہیں۔
آج کل زیادہ تر مائیں اپنی آسانی کے لئے اپنے معصوم سے بچےّ کے ہاتھ میں
موبائل تھما دیتی ہیں۔ اور بچہ اسکی رنگ ٹون سنتے سنتے موبائل کا استعمال
کرنا بھی سیکھ جاتا ہے اور پھر ایک دن جب بچہ اس موبائل کو ہر وقت اپنے
ہاتھوں میں رکھتا ہے۔ تو ماوں کو اعتراض ہوتا ہے ا۔اسٹیٹس کے نام پر اپنے
بچے کو الگ کمرہ، لیپ ٹوپ اور موبائل دے کرہم ان کو بگڑنے کے مزید مواقع دے
رہے ہوتے ہیں۔
صرف دو نسلیں پہلے ہم اپنے بزرگوں کو بھی معصوم کہتے تھے اور آج شاید دس
سال کا بچہّ بھی معصوم نہیں ہے۔ کہاں کھو گئی ہے وہ معصومیت؟ کہیں یہ ہماری
اپنی کوتاہیوں کانتیجہ تو نہیں؟ کہیں ہم زمانے کے سا تھ چلتے چلتے اپنے
بچوّ ں کی معصومیت کی قربانی تو نہیں دے رہے؟
ہم اپنے بچیّ کو اس کے بچپن میں ہی فیشن کی دوڑ میں لگا دیتے ہیں۔برانڈد
اسکول میں تعلیم دلوانے کے شوق میں ہم اپنے بچےّ کی تعلیم و تربیت سے زیادہ
اس کے اسکول کے نام پر توجہ دیتے ہیں۔میں ان نامور اسکولوں کوبرانڈد اسکول
اس لئے کہتی ہوں کیونکہ یہ نامور اسکول بھی کسی لان کی برانڈ کی طرح معیاری
ہوں یا نا ہوں ان کے صرف نام کا سکہ چلتا ہے۔
(ان برانڈڈ اسکولوں کے بارے اپنی رائے میں اپنے کسی اگلے کالم میں تفصیل سے
بیان کرونگی)
کیا اس معصومیت کی گھٹتی عمر کی ذمہ دارہمارے بچےّ ہیں یاکہ ہم خود؟ یا پھر
ہم اس معاشرے کو ذمہ دار ٹھہرا کر خود بری الذمہ ہو جائیں گے؟ |