فخر عالم کہاں ہے

یہ آرٹیکل میرے بلاگ کے اس ربط پر موجود ہے
https://kashifnaseer.co.cc

صبح کے دس بج رہے تھے اور میں دو اجنبی نوجوانوں ساتھیوں کی معیت میں پی اے ایف میوزیم کا راستہ پوچھتا پوچھاتا اب مرکزی راہ داری سے میوزیم کی حدود میں داخل ہورہا تھا. یہ دونوں نوجوان میرے لئے کچھ دیر پہلے تک بلکل اجنبی تھے لیکن پچھلے آدھ گھنٹے میں میری ان سے کافی شناسائی اور بے تکلفی ہوگئی تھی. وہ دونوں سرسید یونیورسٹی میں بی ای کے طالب علم تھے اور ایک شخص کی پرزور آواز پر پی اے ایف میوزیم کی طرف کھینچے چلے آئے تھے، میں بھی کچھ اس ہی جذبے سے سرشار جیب میں سو روپے کا ایک نوٹ لئے پی اے ایف میوزیم تک پہنچ چکا تھا. میوزیم کی پارکنگ میں چار، پانچ ٹرک پہلے سے کھڑے تھے اور دو مزید داخل ہورہے تھے. کچھ رضاکار ان ٹرکوں سے سامان اتار کر ایک طرف رکھ رہے تھے، یہ رضاکار اتنے کم تھے کہ سامان لانے والے خود سامان اتارنے اور اسکی درجہ بندی کرنے کے کام میں شامل ہوتے جارہے تھے. اندر پہنچ کر ہم تینوں کب ان سب کام کرنے والوں کے ساتھ ایک خاندان کی طرح شامل ہوگئے کچھ پتا بھی نہ چلا. سامان کے ڈھیر میں دور ہی سے ایک شخص سب سے نمایاں تھا، وہی شخص جس کی آواز پر اہلیان کراچی لبیک کہتے ہوئے اگے بڑھے اور خود اسکو بھی ورطہ حیرت میں ڈال دیا. بہت سے اسے صرف ایک گوئے اور اداکار کی حثیت سے جانتے ہیں اور میں اسے ایک محسن اور سچا پاکستانی سمجھتا ہوں.

5 اکتوبر کے اندو ہناک زلزلے کی ابتداء میں حکومتی اعداد و شمار 11 لوگوں کی ہلاکت بتا رہی تھی لیکن دو روز گزرنے کے بعد زلزلے سے ہونے ہوئی اصل تباہ کاریوں اور ہلاکتوں کا اندازہ لگانا بھی مشکل نظر آرہا تھا. شاید آپ کو یاد ہو زلزلے کے چوتھے پانچویں روز غالباً انڈس ویزن سے فخر عالم نے ایک سدا بلند کی تھی اور اگلی صبح پی اے ایف میوزیم پر اہلیان کراچی نے ایک تاریخ رقم کردی تھی. آئندہ چند دنوں میں جس طرح اس شہر کے باسیوں نے متاثرین زلزلہ کیلئے دل کھول کر امداد دی اس منظر نے 1965 کی یاد تازہ کردی تھی. لگتا تھا خیبر تا کراچی پوری قوم ایک ہے، جز واحد کی طرح ایک.

میری نظروں کے سامنے وہ پورا نقشہ آج بھی تازہ ہے، کس طرح شہر بھر کے طلبہ یک جان یک قلم کسی اندیکھے اور اچانک بھرک اٹھنے والے جذبہ حب الوطنی اور انسانیت سے سرشار تھے، کیا گلشن، ڈیفنس، کلفٹن اور معمار کے برگر لڑکے اور لڑکیاں، کیا ناظم آباد، لیاقت آباد، فیڈر بی ائریا اور نارتھ کراچی کے متوسط طبقے کے نوجوان اور کیا لانڈھی کورنگی، اورنگی اور بلدیہ اور مضافات کے لوئر مڈل کلاس طلبہ و طالبات، کیا لبرل، کیا معتدل اور کیا مذہبی انتہا پسند، کیا مہاجر کیا پنجابی اور کیا پختون، بس ہاتھوں میں ہاتھ اور پاکستان اور پاکستانیت کا شور تھا. ہاتھوں کی زنجیر بنا کر امدادی سامان کو لادنے اور اتارنے کا کام ہوتا تو کتنی بار مخلوت قطار بنتی اور مجھ جیسا بھی دو مغربی لباس میں ملبوس برگر دوشیزاؤں کے بیچ میں کھڑے ہوکر یہ کام کرتا، لیکن مجال لے لیں جو کبھی کسی کی نیت اور نظریں بھٹکتی ہوں اور ایسی ویسی سوچ جنم لیتی. مزدوروں کی طرح کام کرتے کرتے افطار کا وقت ہوتا تو ہر کیمپ میں علیحدہ علیحدہ دسترخوان لگتا اور طرح طرح کے پکوان تناول کئے جاتے. فخر عالم کا چارٹر جہاز تو کب کا بھر چکا تھا اور ناجانے کتنے سی ون تھارٹی بھر کے ہم نے خود منزل مقصود کی طرف روانہ کیا تھا، لیکن کراچی والوں کی فراخ دلی تھی کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی، آخر ڈرگ روڈ پر واقعہ سی او ڈی اور اسکی فوجی مال گاڑی کی خدمات لی گئی. کام کے ساتھ ساتھ ساتھیوں سے بے تکلفی اور دوستیاں بھی بڑھتی گئیں اور سونے پر سہاگہ امیر کاروں فخر عالم کی موجودگی ہوتی تھی جو عزم اور جذبات میں آگ لگانے کیلئے ہر وقت سب سے آگے ہوتا تھا.

فخر عالم کو میں ایک انٹرٹینر کے طور بہت کم جانتا ہوں، لوگ کہتے ہیں کہ وہ پاکستان میں پاپ اور بھنگڑا موسیقی کو متعارف کرانے والے اولین لوگوں میں شامل ہے. البتہ میں نے اسکو ایک رہنما اور قائد تحریک کے طور بہت قریب سے دیکھا ہے. میرا کوئی بڑا بھائی نہیں ہے اور اس لئے میں ان دو مہینوں میں سوچنے پر مجبور ہوگیا تھا کہ بڑا بھائی کیسا ہوتا ہوگا. فخر عالم ایک انتہائی کھاتے پیتے اور کاروباری خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور مسلح افواج کے اہم عہدیداروں کے ساتھ ساتھ کئی اہم سیاست دانوں سے بھی اسکے ذاتی مراسم ہیں. لیکن اسکے ساتھ بیتے کسی ایک لمحے میں بھی کہیں دولت کے نخرے، بڑے پن کے تکبر اور تعلقات کا رعب نظر نہیں آتا تھا، وہ بھی سب کی طرح زمین پر بیٹھ جاتا تھا اور سب کی طرح قطار میں لگ جاتا تھا. میں نہیں سمجھتا کہ ستارہ امتیاز اورشہرت اسکا مطلوب تھی. سنتے ہیں کہ 2008 کے عام انتخابات میں ایم کیو ایم نے اسے ٹکٹ کی بھی پیش کش کی تھی.

وہاں آئے طلبہ کی اکثریت اپنے اپنے اداروں سے ٹولیوں کی شکل میں پہنچی تھی لیکن مجھ سے سیلانی بھی کم نہ تھے جو اکیلے ہی منہ اٹھا کر آگئے تھے. فخر عالم نے پہلے ہی روز مجھے اس ٹیم میں شامل کرلیا تھا جو سامان کی درجہ بندی کے فرائض انجام دے رہی تھی. ہم شام تک ایک گول دائرے میں کئی کیمپ لگا چکے تھے. ادویات یہاں دیں، دودھ اور مشروبات یہاں دیں، بسکٹ اور بچوں کی خوراک یہاں دیں، غذائی اجناس یہاں دیں، گرم کپڑے یہاں دیں، کفن دفن کے سامان یہاں دیں اور اسی طرح کے کئی اور کیمپ، ہر کیمپ کی زمہ داری کسی نہ کسی تعلیمی ادارے کو تجویز کردی گئی تھی. ادویات کا کیمپ جامع کراچی کے شعبہ فارمیسی اور ڈی ایم سی کے پاس تھا. دودھ اور مشربات کا کیمپ سرسید یونیورسٹی کے پاس تھا. افطار کا وقت ہوتا تو قرب و جوار کے لوگ گاڑیاں بھر کر کھانے پینے کا سامان لے آتے اور کچھ انتظام کیمپ والے خود کر لیتے.

معمول یہ تھا کہ روزانہ صبح چڑھتے ہی ہم پی اے ایف پہنچ جاتے اور رات تراویح سے پہلے تک اس کام میں مشغول رہتے. رمضان کے آخری دنوں میں جب بازاروں میں رش ہوتا ہے کراچی کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد پی اے ایف میوزیم میں آخرت کی خریداری میں مصروف رہتی. طاق راتوں میں جب لوگ خلوت میں عبادت کررہے ہوتے ہیں یہ نوجوان دکھی دلوں اور پریشان حالوں کی فکر میں جل رہے تھے اور رات بھر کھلے آسمان تلے کام کرتے گزار دیتے تھے. اس شہر کے نوجوانوں میں یہ روح کس نے پھوکی تھی، ان میں احساس زیاں کس نے جگایا تھا، انکو ایک اور متحد کس نے کردیا تھا. کیا وہ کوئی سیاسی رہنما تھا؟ کیا وہ کوئی مذہبی مصلح تھا کیا وہ کوئی سماجی کارکن تھا، نہیں وہ تو ایک عام پاکستانی تھا ایک عام پاکستانی گوییا اور اداکار، ہاں وہ جن کو ہم مذہبی لوگ اکثر حقارت کی نظر سے دیکھ کر دھتکار دیتے ہیں.

ناجانے فخر عالم آج کہاں ہے جبکہ بے حال ملک کو اسکی ضرورت ہے، ہاں آج کشمیر، پختونخوا، پنجاب اور سندھ کے کروڑوں متاثرین سیلاب بھی بھوکے ہیں، ہاں انکے گھر بھی ملبہ کا ڈھیر بن چکے ہیں، ہاں انکے زندگی کی کل متاع بھی لٹ چکی ہے اور ہاں انکے لوگ بھی بے گور کفن پڑے ہیں. صاحب وہ پوچھتے ہیں فخر عالم کہاں ہے جو اہلیان کراچی کی سوئی ہوئی حس کو بیدار کر سکے اور انہیں ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلا سکے. سنتے ہیں کہ وہ متاثرین سوات کی امداد کے لئے بھی اپنی ذاتی حیثیت میں پیش پیش تھے لیکن آج مصیبت کی اس گھڑی میں وہ کہاں ہے، کیا کوئی ہے جو اسے ڈھونڈ کے کراچی لے آئے اور بتائے کہ اسکی 2005 والی ٹیم اسکا انتظار کررہی ہے.
Kashif Naseer
About the Author: Kashif Naseer Read More Articles by Kashif Naseer: 13 Articles with 14363 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.