درس وتدریس کا سب سے ناز ک مرحلہ : جانچ پرکھ اورتعیّنِ قدر

(Testing and Evalvation)
تعلیمی زندگی میں استاداور شاگر دکا رشتہ باہم اعتماد اوربھروسے کا ہوتا ہے ۔ استاد جو اطّلاعات یا تعلیمی مواد فراہم کرتا ہے ، اس پر عام طورپر طالب علم بھروسا کرتا ہے اورانھی امورکی بنیاد پر اپنی زندگی کی تعمیر وتشکیل کرتا ہے ۔اس صورتِ حال میں کسی امتحان یاجانچ پر کھ کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔استادکو بھی معلوم ہے کہ اس کا طالب علم تمام ہدایات کی روشنی میں تعلیمی مرحلے طے کررہا ہے ۔اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ جانچ پرکھ یا رسمی اورغیر رسمی امتحانات کے بغیر ہماری تعلیم بہ ظاہر مکمّل نہیں ہوتی ۔اگر امتحان نہیں ہوتو ایسا معلوم ہوگا کہ طالب علم نے پورے سال جو محنت کی ‘اس کا صلہ نہیں ملا ۔ امتحان میں حاصل شدہ ڈگری یا نمبر کی بھی سماجی سطح پر بہت اہمیت قائم ہوتی گئی ہے جسے اعلا تعلیمی اداروں نے مزیدا ہمیت دے کر مستقل بنادیا ہے۔ حالاں کہ اس سچّائی سے انکار ممکن نہیں کہ کسی طالب علم کو پورے سال جو کچھ پڑھنے اورسیکھنے کا موقع ملا ‘اس کا چند گھنٹوں اورمحض چند سوالوں کے جواب سے کیسے احتساب کیاجاسکتا ہے ؟اوراس احتساب کے نتائج کیوں کر درست تسلیم کیے جائیں؟
لیکن دورانِ تعلیم طالب علم نے کیا سیکھا‘ اس کا صحیح طورپر پتا کیے بغیر کیا کسی طالب علم کی آیندہ زندگی کے لیے تعلیمی لائحۂ عمل تیا رکیا جاسکتا ہے ؟ ہرگز نہیں ۔ استا د اوراسی کے ساتھ ساتھ سماج کو یہ ضرور پتا ہونا چاہیے کہ ہمار ا طالب علم روز روز کیا سیکھتا جارہا ہے ۔ پھر ایک خاص میعار میں اُس نے کیا سیکھا‘ اِسے بھی جاننا چاہیے اوراس کے آگے چھے ماہ یا ایک سال کی مدّت میں اس نے کون سے کارہاے نمایاں انجام دیے‘ اس سے بھی استاد کی واقفیت ضروری ہے ۔ بچّے نے آخر کیا کیا سیکھا‘ اسے جاننے کے لیے ہزاروں سال سے امتحانات لینے کا سلسلہ قائم ہے ۔ ہفتہ وار،ماہانہ، سہ ماہی ، شش ماہی اورسالانہ امتحانات کا عمومی طریقہ مختلف مقامات پر رائج رہا ہے ۔ اس سے الگ ٹسٹ کا بھی رواج ہے کیو ں کہ ہر سبق کے نتائج اورمقاصد سے طالب علم کتنا واقف ہوپایا ‘ اس کا اندازہ کیاجاسکے ۔اس کے علاوہ ہر کلاس میں پچھلے اورموجودہ موضوع کے چند نکتوں سے متعلق سوالات کرکے سیکھنے اوراپنی معلومات کو قائم رکھنے میں طالب علم کس حد تک کامیاب رہا‘ اس سے استاد واقف ہوجاتا ہے ۔
امتحانات طرح طرح کے ہوتے ہیں اوران کے مقاصد بھی مختلف رہتے ہیں ۔ ان میں پوچھے جانے والے سوالات بھی الگ الگ نوعیت کے ہوتے ہیں ۔ سوال نامے کی ترتیب و تسوید کے مرحلے میں احتیاط، ذمے دارانہ احساس، انہماک اورامتحان کی سطح کے فرق سے سوالوں کی صورت میں واضح تبدیلی کا خیال رکھاجائے تو ہمارے امتحانات کے مقاصد روشن ہوں گے اوران کے نتائج واضح ہوجائیں گے ۔ ایسے امتحانات سے طالب علموں میں کوئی خوف نہیں پیدا ہوگا اورنہ امتحان سے واپس آکر کوئی بچّہ خو دکشی کرے گا ۔ان خطرناک نتائج سے ملک بھر میں ہمارے طالب علم اورسرپرست ہلکان ہورہے ہیں لیکن گہرائی سے اس کی جانچ کی جائے تو امتحان کے پرچے اوران پرچوں کی جانچ، جو ظاہر ہے، اساتذہ نے انجام دیے ہیں ‘ کے بھی منفی اثرات کی شمولیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔اگر ایک طالب علم بھی خوف زدہ ہوتا ہے‘ دکھی ‘ بیمار یا خودکشی کرنے پر مجبو رہوتا ہے تواساتذۂ کرام کو یہ سوچنا ہوگا کہ ہماری جانچ پرکھ اور تعیّنِ قدر میں کون سا کھوٹ ہے جس کی وجہ سے طالب علم امتحانات سے پریشان پائے جاتے ہیں ۔ہمارے سوالوں کے پرچے کی تیاری اوران کی جانچ پرکھ میں شاید بہت سارے اساتذہ کا رویہ منفی ہوتا ہے ۔ بارباراُن سوالوں کو پوچھا جا تا ہے جو یا تو پڑھائے نہیں گئے‘ یا بچّے کی معلومات کی عمومی سطح سے اوپر کے ہیں۔ہمارے بہت سارے اساتذہ کسی معمولی غلطی پر بچّے کی درجنوں خوبیوں کو پسِ پشت ڈال کر سفّاکانہ انداز میں نمبر کم کرنے میں نہ جانے کیوں خوشی محسوس کرتے ہیں ۔ یہ بے انصافی ہے۔
مسلسل محاسبے کی اہمیت
گذشتہ برسوں میں سی بی ایس ای، نئی دہلی نے داخلی احتساب (Internal Assessment) کے لیے بورڈ امتحانات میں بیس فی صد نمبر مخصوص کیے جو سال بھرلگاتار ہونے والے محاسبۂ مسلسل (Continuous Assessment) کی بنیاد پر اسکولوں کو براہِ راست عطا کرنے ہیں۔ تعینِ قدر کے تعلق سے آنے والے دنوں میں مزید لچیلا پن آئے گا اورایک وقت ایسا بھی آسکتا ہے جب بورڈ یا سالانہ امتحانات کو محض بیس فی صداہمیت دی جائے گی اورسال بھر چلنے والی تعلیمی سرگرمیوں کے احتساب کو اسّی فی صد نمبر عطا کیے جائیں گے ۔ اس کے بعد ہی یہ صورت پیدا ہوگی کہ کوئی طالب علم خو ف زدہ یا دُکھی ہوئے بغیر اپنے بورڈ یا سالانہ امتحانات کا سامنا کرسکے گا۔ اسی وقت ( Destressing) کا تصوّر زمین پر اُتر سکے گا ۔وقت کی دیوار پر چسپاں تحریر اگر ہم ملاحظہ کررہے ہوں تو ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ایک دن وہ بھی جلد آئے گا جب ہمیں امتحانات کی زنجیروں سے اپنے طلبہ کو آزاد کرنا ہوگا۔
تعیّنِ قدر کا غیر رسمی انداز
اساتذہ کے لیے کلاس روم ایک ایسی تجربہ گاہ ہے جہاں انھیں تمام تعلیمی تصوّرات کو آزمانے کے بہترین مواقع حاصل ہوجاتے ہیں ۔ رسمی امتحان کے بعد یا ہرموضوع کی تدریس کے بعد یا بعض اوقات تدریس کے دوران استاد کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ پتا لگائے کہ طالب علم نے اب تک کیا سیکھا؟ اس کے لیے استاد کو مختلف انداز کے ایسے سوالات اپنے ذہن میں رکھنے ہوتے ہیں جن کی مدد سے طلبہ کی معلومات کی سطح تک وہ بہ آ سانی پہنچ جاتا ہے ۔ عام طورپر سوالات پوچھنے کا سلسلہ اپنے آپ چلتا رہتاہے لیکن اچھے اساتذہ اپنے ذہن یا تعلیمی منصوبہ بندی میں اس کی رسمی صورت بھی قائم کرتے ہیں ۔ یہی طریقہ زیاد ہ مناسب ہے ۔
غیر رسمی سوالات کا دائرۂ کار
دورانِ تدریس استاد اوردرسی کتاب کے ذریعے طالب علم کو جو بھی بنیادی اطّلاعات حاصل ہوئیں ‘استاد اُن کے تعلق سے معروـضی انداز کے سوالات ضرور پوچھے۔ اگر استاد نے بارھویں جماعت میں صنفِ خاکہ کے تعارف کے ساتھ احمد جمال پاشا کے خاکہ بہ عنوان ’کلیم الدین احمد ‘ کی تدریس مکمل کرلی ہے، تو ایسے میں اپنے طالب علموں سے مندرجہ ذیل معروضی سوالات کے جواب طلب کیے جاسکتے ہیں :
(i) ’خاکے‘ کو انگریزی میں کیا کہتے ہیں؟
(ii) کیا خاکہ نگار کو جانب داری سے کام لینا چاہیے؟
( iii ) کیا مرزا فرحت اﷲ بیگ کا کوئی خاکہ آپ لوگو ں نے پڑھا ہے ؟
( iv) احمد جمال پا شا کا اصل نام کیا تھا ؟
(v) احمد جمال پاشا کی پیدائش کہاں ہوئی ؟سا ل بھی بتائیے؟
(vi) کیا وہ کسی روزنامہ اخبار سے بھی تعلق رکھتے تھے ؟
(vii)احمد جمال پاشا کا کس سال میں انتقال ہوا ؟ کہاں انتقا ل ہوا ؟ وہ کس شہر میں دفن کیے گئے؟
(viii) احمد جمال پاشا کی پانچ کتابوں کے نام بتائیے؟
(ix) کلیم الدین احمد کون تھے ؟
(x) کلیم الدین احمد کی دوکتابوں کے نام بتائیے؟
(xi)مذکورہ خاکے میں جن ادیبوں کا تذکرہ ہواہے ‘ ان میں سے پانچ کے نام بتائیے؟
xii)) کلیم الدین احمد اپنی تنقید میں کن باتو ں پر خاص طورپر زور دیتے تھے ؟تین اہم نکتے بتائیے۔
(xiii)احتساب او رگرفت کا فن بہ قولِ احمد جما ل پاشا کس پر ختم ہوگیا ؟
(xiv) شیکسپیر کی کتابو ں کی پہلی اشاعتیں احمد جمال پاشا کو کس نے دکھائیں ؟
(xv) اردوکے چند اہم ادبی مراکز کے نام بتائیے؟
(xvi) ’ جز وِلا ینفک‘ کے معنیٰ کیا ہیں ؟
(xvii) Face Expression کی وضاحت کیجیے؟
(xviii) ’مستغرق‘ کے معنیٰ بتائیے اورایک جملے میں اس لفظ کو استعمال کیجیے ؟
(xix) آلِ احمد سرور نے اپنے شاگردو ں کو اردو کے چند اہم نقّادوں کے جو نام بتائے ، ان میں چار کے نام واضح کیجیے۔
(xx) اس خاکے میں بعض رسائل کے نام آئے ہیں ‘ ان میں سے دوکے نام بتائیے ؟
تعیّنِ قدر کے بنیادی امور
ایسے سوالات کے تیار کرنے کے دوران اساتذہ مندرجہ ذیل امور پر غور وفکر کرسکتے ہیں :
(۱) ہر صنف کے دائرہ ٔکا ر، اجزاے ترکیبی اور تدریجی ارتقا سے متعلق ضرور سوالات قائم کیے جائیں ۔
(۲) ادیبوں کی حیات اور تصنیفات سے متعلق سوالات شامل کیے جاسکتے ہیں ۔
(۳) مصنّفین کے عہد اور معاصرین کے بارے میں بھی سوالات ضرورشامل ہوں۔
(۴) جس متن کی تدریس مکمل ہوگئی ‘ اس کے مصنف کی بعض دوسری تصانیف کے تعلق سے بھی معروضی سوالات قائم کیے جائیں ۔
(۵) تقابلی ادب کا رجحان پیداکرنے کے لیے متنِ مخصوص سے ملتے جلتے اسباق ،کتابیں یا دیگر نوشتہ جات سے متعلق طلبہ سے مزید سوالات پوچھے جائیں ۔
(۶) پڑھائے گئے اسباق کی موضوعاتی اہمیت کو روشن کرنے کے لیے اگر ممکن ہو تو اپنے عہد کے کسی خاص واقعے سے مناسبت پیدا کرنے کی غرض سے بھی سوالات قائم کیے جائیں ۔
(۷) سماجیاتی اورسائنسی علوم کے موضوعات اگر کسی ادبی سبق میں موجود ہوں‘تو کیا ہمارے طالب علم نے انھیں ہم رشتہ پایا‘ اس موضوع سے بھی سوالات قائم ہوں۔
(۸) شاعری کی تدریس کے ساتھ ہم معنیٰ اشعار ،قافیہ اور ہم ردیف اشعار کے حوالے سے بھی سوالات قائم کیے جاسکتے ہیں ۔
(۹) شعر کو نثر بنانے سے متعلق سوالات پوچھے جاسکتے ہیں۔
(۱۰) شعراورنثر دونوں کی بلند خوانی کی مشق کے بعد امتحاناً کلاس میں اس عمل کو دہرایاجاسکتا ہے۔
(۱۱) بیت بازی کا مقابلہ کرایاجائے جس سے بَر محل اشعار کو صحیح وقت پر پیش کرنے کی عادت پیدا ہوجائے ۔
رسمی تعیّنِ قدریا امتحانات
طالب علم نے تدریس کے دوران کو ن کون سے امور سیکھ لیے، اسے جاننے کی غرض سے مختلف طرح کے رسمی امتحانات (General Examinations) کی ضرورت تسلیم کی گئی ہے ۔ ا س کے لیے بالعموم سب سے مختصر میعار ہفتہ وار اورسب سے طویل مدت سالانہ امتحانات ہیں ۔ ماہانا ،سہ ماہی ،شش ماہی ،نوماہی اور سالانہ امتحانات کی روایت عر صۂ دراز سے قائم ہے ۔ دنیا کے مختلف گوشے میں بہ شمول ہندستانامتحانات کی یہی صورت رائج ہے۔ یونٹ ٹسٹ کا بھی سلسلہ ہمارے اسکولوں میں رہتا ہے ۔تمام امتحانات میں معروضی اور موضوعی دونوں نوعیت کے سوالات پوچھے جاتے ہیں جن کا مقصد طالب علم کی ہمہ جہت تعلیمی ترقی کا احتساب ہوتا ہے ۔
امتحان کا پرچہ : استاد کیا دھیا ن میں رکھے؟
اپنے ملک میں بار بار ماہرینِ تعلیم یہ صلاح دیتے ہیں کہ امتحانات بچّوں کے لیے خوف کا باعث نہ ہوں ۔بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر طالب علم کیوں خوف زدہ ہوتا ہے ؟ خاص طورسے دسویں اوربارھویں بورڈ کے امتحانات بچّوں کی عمومی خوف زدگی کا پیش خیمہ ہوتے ہیں ۔ استا دکے لیے سب سے بڑا چیلنج یہی ہوتا ہے کہ وہ اس ماحول میں درسی بوجھ کو کس طرح کم کرکے (de-stressing) اپنے طالب علم کو حوف اور تناو سے بچایا جائے۔ این سی ای آرٹی کے ان سی ایف 2005، سی بی ایس ای اورمختلف بورڈوں نے اس سلسلے میں نہایت موثّرکام کیے ہیں ۔اس کے باوجود اس خوف کو کم کرنے کے لیے اساتذہ کی گونا گوں ذمے داریوں سے ہم گریز نہیں کرسکتے ۔تدریس کے فرائض مکمل کرلینے اور داخلی محاسبہ کے تمام مراحل طے کرلینے کے بعد اساتذہ اپنے بچوں کو خوف اورتناو سے بچانے کی دو صورتیں پیدا کرسکتے ہیں:
(الف)امتحان کا پرچہ بناتے وقت استاد طالب علم کے ساتھ دشمن کا انداز روا نہ رکھیں۔
(ب)غیر ضروری طورپر مشکل سوالات نہ پوچھے جائیں ۔
(ج)سوالات بچّے کی تعلیمی سطح اوردرسی کتاب کے معیار سے مطابقت رکھتے ہوں۔
(د) سوالات کی زبان سادہ ، سلیس اورواضح ہو ۔
(ہ) سوالات بناتے وقت اساتذہ کو درسی کتاب اورنصابِ تعلیم کو لازماً غور سے دیکھ لینا چاہیے کیو ں کہ نصاب سے باہر یا غیر متعلق سوالات پوچھے جانے کی اکثر وبیشتر شکایتیں ہوتی رہتی ہیں ۔اس ضمن میں اساتذہ ہی بالآخر قصوروار ثابت ہوتے ہیں۔
(و) متبادل سوالات زیادہ سے زیادہ قائم کیے جائیں تاکہ طالب علم اپنی سہولت سے جواب دینے کے لیے سوالوں کا انتخاب کر سکے ۔
(ز) پر چہ تیا رکرتے وقت یہ بات ذہن نشیں رہے کہ مکمّل نصاب اورمکمّل درسی کتاب کی نمائندگی اس پرچے میں لازما ً ہو ۔بعض اوقات نصاب یا کتاب کا بڑا حصہ پرچۂ امتحان سے غائب ہوجاتا ہے جس کے سبب طالب علم کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے ۔
(چ) لازمی سوالات اگر نہ پوچھے جائیں تو بچّوں کے ساتھ زیادہ انصاف ہوسکے گا۔
(ط) سوالوں کا پرچہ بناتے ہوئے اساتذہ کو بچوں کادوست بن کر سوچنا چاہیے ۔ یہ بات ہر وقت ملحوظ رہے کہ امتحان کا مقصد یہ ہے کہ بچّوں نے کیا سیکھا‘ اسے معلوم کر لیاجائے ۔اس کے برعکس یہ مقصد ہر گز نہیں کہ بچو ں کو کیا معلوم نہیں ہے، اس کا امتحان لیاجائے ۔
پرچۂ امتحان کے مختلف اجزا
اکثر وبیشتر امتحانات کے پرچے دفتری جبر اوراساتذہ کی سہل پسندی کی وجہ سے ایک ناقص وسیلۂ احتساب بن جاتے ہیں ۔ سوالات پوچھتے ہوئے اگر استاد کے ذہن میں ان کے جوابات نہ ہوں تو ایسے سوالات پر چے میں کیو ں شامل کیے جائیں ؟ جیسے ہی استاد کسی سوال کا جواب اپنے ذہن میں سوچتا ہے ‘ اسے پتا چل جاتا ہے کہ جواب میں کن خاص امور کی شمولیت لازم ہے ۔ اس سے استاد پرچہ بناتے ہوئے یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ کون سا سوال معروضی حصّے میں آئے اورکس کوتفصیلی مطالعے میں شامل کیاجائے ۔اکثر طلبہ امتحان کے بعد اس طرح کی شکایت کرتے پائے جاتے ہیں کہ کسی سوال کے جواب میں انھیں دو نمبر کے حصول کے لیے سو الفاظ خرچ کرنے کی ضرورت تھی اوراس کے برعکس شکایت ملتی ہے کہ آٹھ نمبر کے سوال کا جوجواب لکھنا تھا، اس میں دوسطر کے بعد سارا مواد ہی ختم ہوگیا ۔ ان شکایتوں کو طلبہ کی نااہلی سمجھنا مناسب نہیں ۔بعض اوقات یہ شکایتیں بالکل درست ہوتی ہیں جن کی اصل بنیاد پرچہ تیار کرنے والے استاد کی بے احتیاطی قرارپاتی ہے ۔ شاید انھی مسئلوں کے پیشِ نظر بورڈوں نے پرچۂ امتحان کے ساتھ ساتھ مثالی جوابات (Model Answers) اورمارکنگ اسکیم (Marking Scheme) تیار کرانے کا سلسلہ شروع کیا ہے ۔ یہ نہایت مناسب اقدام ہے اوراستاد یا شاگرد دونوں کے لیے فائدے کی چیزیں ہیں۔مثالی جوابات سے طلبہ بھی یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ ان سے اساتذہ کن پہلوؤں سے اطلاعات یا تجزیہ چاہتے ہیں۔
معروضی سوالات
معروضی سوالات کا مقصد اطّلاعات کی جانچ پڑتال ہے ۔ درس وتدریس کے بعد طالب علم نے معلومات کی سطح پر اپنے علم میں کتنا اضافہ کیا،اسے جاننے کے لیے معروضی سوالات پر مبنی امتحانات ضروری ہیں ۔ عام طورپر مندرجہ ذیل انداز کے معروضی سوالات پوچھے جانے کا مختلف امتحانات میں رواج رہا ہے:
(i) متعدد متبادل سوالات۔ ( Multiple Choice Questions)
(ii) سوال کا جواب ایک لفظ میں ہو۔(Answer in one word)
( iii) سوال کا جواب کسی ایک نکتے میں مضمر ہو۔ (Pointers)
(iv) سوال کے جواب میں دو،تین یا چار طے شدہ امور درج کرنے ہو ں۔
(v) خالی جگہ پُرکرنے کے لیے کسی معقول لفظ کی تلاش کا کام ہو ۔(Fill up the blanks)
(vi) کسی خاص بات کی تفہیم کے لیے صحیح یا غلط کی پہچان مقصود ہو ۔(True/False)
(vii) دوکالموں میں درج حقائق کے جوڑملانے کا عمل ہو۔ (Matching)
(viii) شاعری کے اسباق سے مصرع یا شعر دے کر اس کے شاعر کا نام دریافت کرنا ۔
(xi) کسی مشہور ادبی مقولے؍قول کو لکھ کر اس کے کہنے والے کے بارے میں اطلاع حاصل کرنا ۔
(x) عمارات اورشاعروں ،ادیبوں کی تصویریں پیش کرکے ان کے بارے میں صحیح اطّلاع جاننا ۔
(xi) قافیہ یا ردیف کی شناخت کرانا ۔
(xii) شاعروں ادیبوں کے اصلی نام ،تخلّص ،تاریخِ پیدائش ، تاریخِ وفات، مقامِ پیدائش ،مقامِ وفات، کتابوں کے نام ، اہم کتابو ں کے سالِ تصنیف واشاعت ، اہم انعامات کا حصول ، کتاب اورمصنّف کی فہرست کی Matching ، نظم اورافسانے کے عنوان سے اس کے لکھنے والے کا پتا لگانا وغیر ہ معروضی سوالات کے خاص موضوعات یا اقسام ہوسکتے ہیں ۔
اساتذۂ کرام کو معروضی سوالات کی ترتیب میں بہر صورت یہ بات ذہن نشیں رہنی چاہیے کہ طالب علم کی وہ سطحِ اطّلاع کی جانچ کررہے ہیں ۔اس کے لیے کسی صورت میں پرچوں میں ایسے سوال نہ شامل کیے جائیں جن کے حتمی جواب نہ ہوتے ہوں ۔ جن سوالوں کے جواب میں مختلف آرا کی گنجائشیں ہیں، انھیں معروضی سوال کے طورپر پیش کرنے سے گریز کرنا مناسب ہوگا ۔ہر چند یہ امتحان مضامین کی ظاہری سطح کی جانچ ہے لیکن اساتذہ سوالات تیا رکرنے میں توجّہ دیں تو بچوں کے ذہن کی تجزیاتی سطح کو بہت آسانی سے چھو سکتے ہیں ۔ معروضی سوالات صرف حافظے کا امتحان نہ ہوجائیں،اس لیے ضروری ہے کہ چند سوالات ایسے شامل ہوں جن میں تجزیاتی صلاحیت کا امتحان بھی چلتے چلاتے ہوجائے ۔
مختصر سوالات
درس وتدریس اوربالخصوص زبان وادب کی تدریس کا ایک بڑا مقصد انشا نگاری بھی ہے، جس سے ہم طالب علم میں ترسیل اورابلاغ کی کتنی صلاحیت پیداہوئی ‘اس کا براہ راست امتحان لے سکتے ہیں ۔کسی موضوع کے بعض تشریح طلب امور کو سمجھنے کے لیے ہمارے طالب علم نے کون سے خاص نکتے ذہن نشیں کیے‘ اسے پتا لگانے کے لیے مختصر سوالوں کے جواب درکارہوتے ہیں ۔ عام طورسے مختلف بورڈ کے امتحانات میں تیس،چالیس، پچاس، پچھتر الفاظ کے دو،تین ،چار نمبر کے سوالات پوچھے جاتے ہیں ۔ مختصر سوالات کا ایک سرا معروضی سوالوں سے جڑا ہوتا ہے تو دوسرا سرا مضمون نما (Essay Type)طویل جوابات سے۔ سوال پوچھنے والے کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ ان دونوں حدوں کے بیچ میں رہے ۔اگر آپ نے مختصر سوال میں ایسی بات پوچھ لی جس کا جواب چند لفظوں یا ایک جملے میں مکمل ہوگیا تو یہ استاد کا قصور ہوگا۔ اسی طرح اگر ایسا سوال پوچھا گیا جس کا جواب کسی بھی حال میں مقرّرہ الفاظ میں معقولیت کے ساتھ جواب ممکن نہیں ہے تو یہ سوال پوچھنے والے کا قصور ہے ۔ ا س لیے یہ سب سے مناسب ہے کہ مختصر سوالوں کے دائر ۂ کار میں سبق کے ذیلی امو ر‘ مصنّف کے کسی خاص ادبی رویّے کی جانچ یا کسی شعر کا تجزیہ وغیرہ دریافت کیاجائے ۔ یہ بات ہر گز مناسب نہیں ہے کہ تیس لفظ میں طالب علم سے کسی مصنف یا اس کے عہد کے تفصیلی حالات یا ادبی قدروقیمت یا خلاصہ جیسے امور دریافت کیے جائیں ۔ سوالات قائم کرتے ہوئے اگر مقرر ہ نمبر کو ذہن میں رکھائے جائے تو بہت ساری آسانیاں میسر آسکتی ہیں ۔ اگر تین نمبر کا سوال ہے تو سوال پوچھتے ہوئے یہ کوشش ہونی چاہیے کہ طالب علم سے صرف تین یا چھے نکات متوقع ہو ں ۔ اس سے غیر ضروری طورپر بچوں کے نمبر ضائع نہیں ہوں گے۔
طویل سوالات
طالب علم کی متعدد صلاحیتوں کا امتحان طویل جوابات والے سوالوں کے ذریعے ممکن ہوتا ہے ۔ بالعموم انھیں مضمون نما جوابات قراردیاجاتا ہے ۔ اسکولی امتحانات میں ایک سو، ڈیڑھ سواوردوسو لفظوں میں ایسے سوالات کے جواب طلب کیے جاتے ہیں۔ اونچے درجات میں پانچ سو اورایک ہزار الفاظ تک کی قید ہوتی ہے ۔ایسے سوالوں کا واضح مقصد یہ ہے کہ طالب علم موضوع کو کتنی گہرائی سے جانتا ہے اورا س کی قوتِ انشا کس قدر ہے ؟ان دونو ں باتوں کا امتحان مقصود ہوتا ہے ۔ جس موضوع کے تعلق سے سوال کیا گیا ہے ، کیا طالب علم اس کی بنیاد ،ارتقا،پھیلاو، اس کی شاخیں،فوائد، حدود، معنویت ، سیاسی ، سماجی اور تہذیبی وثقافتی سیاق وغیرہ سے واقف ہے ؟ طویل جوابوں میں اس بات پر بھی خاص توجہ رکھی جاتی ہے کہ طالب علم اپنی باتیں سلسلے وار طریقے سے کہہ پایا ہے یا نہیں؟ تقابل اورتجزیہ کی اس میں کتنی صلاحیت ہے ؟ نقطۂ نظر کے معاملے میں وہ کتنا متوازن ہے ؟ کیا خیالات کی پیش کش میں وہ حاصل شدہ مواد پر منحصر ہے یا کچھ نئے پہلو بھی ا س نے ڈھونڈ نکالے ہیں ؟کیا طالب علم کا اندازتقلیدی ہے یا اختراعی ؟
جب استادکو اتنی ساری باتیں اپنے طالب علم کے سلسلے سے جاننے کی خواہش ہے تو اسے لازماً سوال کا پرچہ تیارکرتے ہوئے ویسی مستعدی اورانہماک بھی دکھانا چاہیے کیو ں کہ آپ کا سوال وہ آئینہ ہے جس میں طالب علم کی پوری صلاحیت روشن ہوسکتی ہے ۔ استاد کی یہ ذمہ داری ہے کہ ہر سوال میں اس بات کی گنجائش پید اکرے کہ طالب علم کی پوشیدہ صلاحیتیں بھی سوال کا جواب دیتے ہوئے ابھر کر سامنے آجائیں ۔اس توجہ کے بعد ہی استاد اپنے طالب علم کو دورانِ تدریس جو کچھ سکھاپایا ہے،اس کا صحیح طور پر محاسبہ کرپائے گا ۔
کاپیوں کی جانچ
تعلیم و تدریس اور سوال نامے کی ترتیب کے بعد بھی اساتذہ کی کچھ مزید ذمّے داریاں ہوتی ہیں۔ ان میں ایک بڑا کام کاپیوں کی جانچ ہے۔ ہم نے جو کچھ پڑھایا، بچّے نے جتنا سیکھا اور رسمی امتحان لے کر استاد نے اپنے طالب علم کی آخری جانچ کا جو پیمانہ وضع کیا، اُن کا کا پیوں کی جانچ کے دوران آخری احتساب یادوسرے لفظوں میں فیصلہ سامنے آتا ہے۔ کاپیوں کی جانچ کے سلسلے سے درجنوں انتظامی مراحل اور کبھی کبھی مشکلات بھی پیداہوتی ہیں۔ داخلی ممتحن (Internal Examiner) اور خارجی ممتحن (External Examiner) اور دیگر سیڑھیاں رائج ہیں جن میں اساتذہ اوپر اور نیچے بٹھائے جاتے ہیں۔ یہ سب بکھیڑے نتیجۂ امتحان کو شفّاف اور معروضی بنانے کی کوششوں کی خاطر پیدا ہوئے ہیں۔ ابھی آسانی سے یہ نظام بدلنے والا بھی نہیں ہے۔ اسی لیے ہمیں اسی جانچ پرکھ کے نظام کے بعض مسئلوں پر غور کرنا ہوگا۔
طلبہ کی طرح ہی اساتذہ بھی ہمارے سماج سے نکل کر آتے ہیں، اس لیے ان میں کچھ نہایت ذمّے دار، محنتی، فرض سناش، کچھ سست اور کام چور اور بعض غیر ذمے دار بھی ہوتے ہیں۔ زندگی کے دورے شعبوں کی طرح ان کی یہ کارکردگی امتحان کی کاپیوں کی چانچ کے دوران بھی ضرور قائم رہے گی۔ کبھی کبھی طلبہ کی طرف سے یہ شکایت سامنے آتی ہے کہ انھوں نے امتحان کے پرچے میں جتنا لکھا تھا، اس سے کم انھیں نمبر حاصل ہوئے۔ دوبارہ کاپی چانچ کرانے پر نتیجہ یہ نکلا کہ طالب علم کے بعض جوابات استاد نے چانچے ہی نہیں ہیں یا تمام حقائق پیش کرنے کے باوجود طالب علم کو غیر ضروری طور پر کم نمبر دیے گئے۔ اسکول، کالج اور یونی ورسٹیوں کے شعبہ ہاے امتحانات کے لیے دوبارہ جانچ کا ایک اچھّا خاصا بوجھ غیر ضروری طور پر انھی اسباب سے پڑا رہتا ہے۔ دوبارہ جانچ اصل میں اپنے ممتحن اور استاد کے کام سے بے اطمنانی کا مظہر بھی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ چند طالب علم خوش فہمی میں مبتلا ہو کر اپنے حاصل شدہ نمبروں سے غیر مطمئن رہتے ہیں، لیکن اس سچّائی سے کون انکار کرے گا کہ دوبارہ جانچ میں ہزاروں بچّوں کی کاپیوں کے نمبروں میں خاطر خواہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس کاپی کو نئے سرے سے ایک نیا استاد جانچ کر اگر پہلے سے حاصل شدہ نمبر سے زیادہ کا حق دار تصوّر کرتا ہے تو کہیں نہ کہیں ان دونوں ممتحنین میں کم از کم ایک تو ضرور قصوروار ہے۔ ہمارا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ مختلف وجوہات سے اور خاص طور پر عجلت میں کاموں کو نمٹانے کی عادت میں کاپیوں کی آدھی ادھوری جانچ کرکے اپنی ذمّے داری تمام کر لیتے ہیں۔ کبھی کبھی بغیر جوابات پڑھے ہوئے بھی صرف صفحہ دیکھ کر نمبر دے دیے جاتے ہیں۔ شاید یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ کس درجے کی قابلِ مذمّت برائی ہے۔ ہمیں ان غلط کاریوں سے اپنے کان پکڑلینے چاہیے۔
ان دنوں حقوقِ اطّلاعات اور عدالتِ عالیہ کے دروازے امتحانات کے پرچوں کی جانچ کے سلسلے سے بھی کھٹکھٹائے جارہے ہیں۔ مختلف بورڈوں نے کاپیوں کی فوٹو اسٹیٹ مہیّا کرانے کا بھی قانون نافذ کردیا ہے۔ مختلف ہائی کورٹوں نے ضرورت پڑنے پر جانچ شدہ کاپیوں کو طلب کرکے پھر سے جانچ کا حکم نامہ جاری کیا۔ اس صورتِ حال میں آخری گناہ گار اساتذہ قرار دیے جاتے ہیں اور اب مختلف جگہوں پر ان کی سرزنش بھی ہونے لگی ہے۔ اس لیے حالات کی پیچیدگی کو سمجھتے ہوئے اساتذہ کاپی جانچ کے سلسلے سے نہایت ذمّے دار اور انصاف پسند انہ رویّہ اپنائیں ورنہ کیا معلوم کب اور کس بھول کی وجہ سے لینے کے دینے پڑجائیں۔
تعلیم وتدریس کے شعبے میں جانچ پرکھ واقعتا نہایت نازک کام ہے۔ ذرا سی احتیاط کم ہوئی، طرح طرح کے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ احساسِ ذمّے داری سب سے بنیادی چیز ہے۔کیوں کہ چانچ پرکھ کا کام کم وبیش عدالت کے احکام جیسا ہے۔ ایک غلط سوال یا ایک سوال کی جانچ میں کوتاہی پیدا ہونے سے کسی کی زندگی ضائع ہو سکتی ہے۔ نقصان کی سطح کو دیکھتے ہوئے استاد کی ذمّے داری کا طَور متعیّن ہوگا۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جانچ پرکھ میں استاد کی طرف سے کسی مرحلے میں جو کوتا ہی ہوتی ہے، اس کا نتیجہ استاد کے بجاے طالب علم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ قصور یا کوتاہی جس کی ہے، اسے ہی سزاوار ہونا چاہیے لیکن ہمارا تعلیمی نظام طلبہ کو ہر موڑ پر جائز اور ناجائز عتاب کا شکار بنالیتا ہے لیکن اسے یاد نہیں رہتا کہ تعیّنِ قدر اور جانچ پرکھ کے مرحلے میں بعض مواقع سے اساتذہ بھی قصوروار ہوتے ہیں۔ اس لیے ہر حال میں ہمیں یہ یاد رہنا چاہیے کہ جانچ پرکھ کے کسی بھی مرحلے میں اساتذہ کو صوفیصد ذمّے دارانہ اور تعلیمی موافق رویّہ اپنا نے کی ضرورت ہے۔
Safdar Imam Qadri
About the Author: Safdar Imam Qadri Read More Articles by Safdar Imam Qadri: 50 Articles with 155541 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.